“ویلڈن آغا مسعود، آپ سرخرو ٹھہرے”

قومی ادارے ریاستوں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں، جن ریاستوں کے ادارے مضبوط ہوتے ہیں، ان کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کہ کسی بھی مملکت کی ترقی، تہذیب، تمدن اور رکھ رکھاؤ کی جھلک اس کے اداروں اور ان کے کام سے نظر آتی ہے، ارض پاک میں اداروں کی بات کی جائے تو صورتحال اتنی کوئی حوصلہ افزاء نہیں ہے ،کیونکہ بار بار لگنے والے مارشل لاء جمہوریت میں گاہے بگاہے آنے والے تعطل نے اداروں کی کارکردگی پر منفی اثر ڈلا ہے، لیکن تاحال کچھ ادارے ہیں جن پر فخر کیا جا سکتا ہے، جن میں سے ایک ادارہ پاکستان ٹیلی وژن بھی ہے، لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ کچھ نا عاقبت اندیش اس کی ساکھ تباہ کرنے کے درپے ہیں، پاکستان ٹیلی وژن دنیا میں اپنے معیار اوروقار کے حوالے سے جانا مانا ادارہ ہے، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس عظیم ادارے پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔
پاکستان ٹیلی وژن وہ ادارہ ہے کہ جس کی آبیاری میں ہزاروں لاکھوں افراد کا خون پسینہ شامل ہے، ایسا ادارہ کہ جس کو ٹیکنالوجی کے بجائے اپنی جانیں استعمال کر کے قابل فخر بنایا گیا، شخصیات آتی جاتی رہیں، لیکن ادارے کے ساتھ کارکنوں اور افسران کی کمٹمنٹ مثالی رہی، جس کے بعد عالمی افق پر ایک روشن اور جگمگاتے ستارے کا نام پی ٹی وی ٹھہرا،پاکستان ٹیلی وژن نے کس طرح ہمسایہ ممالک میں اپنا لوہا منوایا، اور سو گنا زیادہ بجٹ اور نئی ٹیکنالوجی والے غیر ملکی چینلز کو کس طرح شکست دی، اس کیلئے سٹاف نے کیا کیا قربانیاں دیں، یہ آج موضوع گفتگو نہیں ۔
آج ایک انتہائی اہم معاملے کو زیر قلم لانا مقصود ہے کہ جو پی ٹی وی کی ساکھ اور عزت سے جڑا ہے، بطور تحقیقاتی صحافی اسلام آباد میں کئی سالوں سے اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں، اور اس دوران عمران خان، ریحام خان کی طلاق سے لے کر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری تک درجنوں خبریں بریک کر چکا ہوں، کچھ عرصہ قبل جب معلوم پڑا کہ پاکستان ٹیلی وژن کی دو اینکرز محترمہ تنزیلہ مظہر اور محترمہ یشفین جمال صاحبہ نے اپنے شعبے کے ہیڈ ڈائریکٹر کرنٹ افیئرزپی ٹی وی نیوز آغا مسعود شورش پر ہراساں کرنے کا الزام لگا یا ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ انکوئری کا آغاز بھی ہو ا، تو بطور تحقیقاتی صحافی میں نے اس معاملے پر کام کرنا شروع کیا، معلوم ہوا کہ محترمہ تنزیلہ مظہر اور یشفین جمال صاحبہ کی جانب سے الزامات لگائے گئے ہیں کہ ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز پی ٹی وی نیوز آغا مسعود شورش اخلاق سے گری گفتگو کرتے ہیں، ان کا رویہ اور حرکتیں نامناسب ہوتا ہے، کچھ الزامات اس کے علاوہ بھی تھے۔
معاشرتی رویے کے مطابق ابتدائی طور پر میری ہمدردیاں بھی ان دونوں خواتین کے ساتھ تھیں، لیکن میرے پیشے کا تقاضا تھا کہ ہمدردیاں ایک طرف رکھ کر حقیقت کی کھوج لگائی جائے، پس اس حوالے سے تحقیقات شروع کیں، تو چشم کشاء حقائق سامنے آئے، کہ کس طرح ان میں سے ایک اینکر محترمہ پی ٹی وی کا مارننگ شو کراچی مرکز سے کرنا چاہتی تھیں اور اس کیلئے وہ کتنی زیادہ پر جوش تھیں، اس طرح رمضان ٹرانسمشن کیلئے چلایا جانے والا چکر بھی سامنے آیا،ان میں سے ایک اینکر کی طرف سے بھیجے جانے والے مبینہ پیغامات کے متعلق سنا اور معلوم ہوا، جو یہاں پر لکھنے سے قاصر ہوں،جیسے جیسے اپنا تحقیقاتی کام بڑھایا، حقائق پرت در پرت میرے سامنے کھلنے لگے، اس دوران پی ٹی وی کی ایک سینئر اینکر کے گھر خفیہ طور پر بھیجے جانے والے خط سے لے کر ٹریل فائیو پر ریکارڈ ویڈیو تک کی ایسی باتیں سامنے آئیں کہ ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔
ان تمام معاملات کے سامنے آنے پر میں نے محترمہ تنزیلہ مظہر اور بعض ازاں یشفین جمال صاحبہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، اور دونوں سے میری ایک گھنٹہ سے زائد گفتگو ہوئی،جس کا ریکارڈ محفوظ ہے ان دونوں خواتین نے میرے سوالوں کے کوئی تسلی بخش جوابات نہ دیئے البتہ پیغامات، ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز کی بیٹی کی شادی میں شرکت اور ڈانس کی کسی حد تک تصدیق کر دی، دائرہ کار بڑھایا پی ٹی وی کے شعبہ کرنٹ افیئرز سے تعلق رکھنے والی چند خواتین اور حضرات سے ربطہ کر کے ان کا موقف لیا، پروڈیوسرز سے بات چیت کی، جب کہ دونوں اینکرز اس معاملے کو اس وقت تک میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنا چکی تھیں ۔
اسی دوران بھارتی ٹی وی چینلز پر ایک طوفان بدتمیزی مچ گیا، اور بھارتی میڈٰیا جو پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، وہ ان خواتین کے بیانات اور تصاویر کو نمایاں کر کے پی ٹی وی کی ساکھ اور پاکستان کے عالمی امیج کو تباہ کرنے میں جت گیا،اس دوران مینجمنٹ کی طرف سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنا کام جاری رکھا،جس میں خواتین کو نمائندگی محض اس لیے دی گئی کہ الزام خواتین نے لگایا اور وہ کمیٹی کے سامنے اپنی بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں، کمیٹی نے جو فیصلہ کیا اس کے مطابق ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز آغا مسعودشورش جو کہ علمی اور ادبی حلقوں میں ایک قابل قدر شخصیت گردانے جاتے ہیں، ان پر الزام غلط، لغو اور فضول ہیں، اور دونوں خواتین ماسوائے چند پیغامات جو کہ ریفرنس سے ہٹ کر تھے اور زبانی باتوں کے علاوہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکیں، دونوں خواتین اینکرز سے گفتگو کر کے مختلف ثبوت، تصویریں، ویڈیوز دیکھ کر اور پی ٹی وی نیوز میں کام کرنے والی خواتین و حضرات سے کئی میٹنگیں کر کے دو ماہ کے دوران میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب کچھ ایک الزام سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور اس تما م کام کا مقصد کچھ سطحی قسم کے مفاد اٹھانا تھا۔
یہ سوال جب میں نے پی ٹی وی نیوز میں کام کرنے والے کچھ افراد سے کیا کہ اس تمام کھیل کے پیچھے اصل مقاصد کیا تھے تو ان سب کا کہنا تھا کہ آغا مسعود شورش نے پی ٹی وی نیوز میں میرٹ کا نظام لاگو کر رکھا ہے، اور وہ سفارش کو اہمیت نہیں دیتے ۔انہوں نے پی ٹی وی نیوز کی سکرین کو جاذب نظر بنایا، اور بطور ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز بہترین پروگرامز اور آئیڈیاز کو سامنے لے کر آئے، جس کے بعد ایک مخصوص مافیا ان کے خلاف سرگرم عمل ہو گیا، جنہوں نے مختلف حیلے بہانوں سے آغا مسعود کو تنگ کرنا شروع کیا لیکن وہ ناکام رہے، کیونکہ کرپشن سے لے اقرباء پروری تک کوئی ایک واقعہ بھی ایسا سامنے نہیں آیا کہ جسے بطور الزام ہی استعمال کیا جا سکے، جس کے بعد آغا مسعود کے کردار پر حملہ کیا گیا، اور خیال تھا کہ یہ ایک ہی طریقہ ہے کہ آغا مسعود کو رستے سے ہٹایا جائے، اس کیلئے ایک مکمل پلاننگ کی گئی، کئی پلانٹڈ میسج کیے گئے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی اس کوشش میں بھی ناکام ہوئے۔اور میں سوچ رہا تھا کہ کردار کی پختگی وہ ہتھیار ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے بڑے سے بڑے وار کا بھی مقابلہ کیا جا سکتا ہے، اس سارے عرصے کے دوران آغا مسعود شورش کی فیملی پر جو گزری اس کا بھی اندازہ کر سکتا ہوں لیکن اتنا ہی کہوں گا
“ویلڈن آغا مسعود، آپ سرخرو ٹھہرے”

Facebook Comments

سید عون شیرازی
سید عون شیرازی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مشہور صحافی اور مصنف ہیں ، 20 لفظوں کی کہانی لکھتے ہیں جو اب ایک مقبول صنف بن چکی ہے،اردو ادب میں مختصر ترین کہانی لکحنے کا اعزاز حاصل ہے جس کا ذکر متعدد اخبارات اور جرائد کر چکے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply