• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کے لیے کوئی قانون موجود نہیں،ڈاکٹررمیش کمار/انٹر ویو

پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کے لیے کوئی قانون موجود نہیں،ڈاکٹررمیش کمار/انٹر ویو

مسلم لیگ نواز کے رُکن قومی اسمبلی اور ممتاز ہندو رہنماء ڈاکٹر رامیش وانکوانی سے انٹرویو!

ڈاکٹر رامیش وانکوانی ہندو کمیونٹی کے ممتاز سیاسی رہنما اور مسلم لیگ نواز کے ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ وہ 2002میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے ۔ ڈاکٹر رامیش وانکوانی سیاست میں سرگرم ہونے کے علاوہ ہندو کمیونٹی کی نمایاں ترین فلاحی تنظیم “پاکستان ہندو کونسل” کے سربراہ بھی ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران سندھ میں ابھرنے والے عدم رواداری اور پرتشدد رویوں نے صوفیوں کی اس دھرتی کے ہر باسی اور بالخصوص ہندو کمیونٹی کو متاثر کیا ہے ،کیوں کہ گزرے چند ماہ و سال کے دوران سندھ میں مبینہ طور پر ہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلئ مذہب کے لاتعداد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ہندوکمیونٹی کے بااثر ارکان کے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور توہینِ مذہب کے غلط استعمال کے باعث بھی ہندو کمیونٹی کی مشکلات دوچند ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں ڈاکٹر رامیش وانکوانی نے کبھی قومی اسمبلی کے فلور اور کبھی سپریم کورٹ کے روسٹرم پر کھڑے ہو کر غیر مسلموں اور بالخصوص ہندوکمیونٹی کے حقوق کے حصول کے لیے جرأت مندی سے جدوجہد کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ہندو میریج ایکٹ کی منظوری میں بھی ان کا کردار نمایاں ترین ہے ۔

ڈاکٹر رامیش وانکوانی کے کالم مختلف اخبارات میں تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ وہ ہندو کمیونٹی کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ان دنوں جنگ گروپ کے لیے کالم لکھ رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود کو کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں ان سے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ان کی رہائش گاہ پر تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے ہندوؤں کی سندھ دھرتی سے ہجرت، نابالغ ہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلئ مذہب سمیت دیگر اہم موضوعات پرسیر حاصل گفتگو کی جو یقیناً قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی۔

سوال۔کیا آپ اپنے سیاسی سفر کے بارے میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: جی بالکل، میں نے 1995میں سیاست شروع کی اور2001 میں جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تو اُس وقت میں ضلع مٹھی سے ضلعی نائب ناظم کے لیے ایک مضبوط امیدوار تھا۔ 2002 میں قومی اسمبلی کا رُکن منتخب ہوا۔ مزیدبرآں 2005 سے فلاحی تنظیم پاکستان ہندو کونسل کا بانی پیٹرن ان چیف بھی ہوں۔ میں چوں کہ تاریخ کا طالب علم بھی ہوں، چنانچہ میں نے قائداعظم کی فکر کا مطالعہ کیا، برصغیر کی تقسیم کے بارے میں پڑھا ، قائداعظم کے Verdicts ہمیشہ مجھے یاد رہتے تھے، اسی بنا پر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کی حقیقی معنوں میں خدمت کرنے کے لیے عوامی سیاست کرنی چاہیے جو میرے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ میں دراصل پاکستان میں غیر مسلم کمیونٹی کے مسائل کے بارے میں سوچا کرتا تھا کہ وہ اسمبلی کے ایوانوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے؟ اس ساری صورتِ حال کی کیا وجوہات ہیں؟ اور موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ ہندو میریج بل کیوں کر 70 برسوں میں تشکیل نہیں پا سکا؟ جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ ہندو کمیونٹی کے ارکان کے اغوا برائے تاوان کے واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں؟ میرے لیے یہ ایک اعزاز ہے کہ میں نے ان ایشوز پر کام کیا۔

سوال۔ آپ کا تعلق چونکہ سندھ سے ہے اور آپ ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، کیا آپ یہ واضح کرنا پسند فرمائیں گے کہ پاکستانی ہندوؤں میں بھی اب تک ذات پات کی تفریق ختم نہ ہونے کی کیا وجوہ ہیں؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میں اس مؤقف سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں میں چند نمایاں ترین ہیں۔ ہندوؤں کی بڑی تعداد بھیل، میگھواڑ، کوہلی اور دیگر ذاتوں پر مشتمل ہے مگر آپ دیکھیں کہ پورے جامشورو میں ہندو کمیونٹی کے آٹھ سے 10 ہزار ووٹ ہوں گے لیکن ہندو کمیونٹی کے تین، چار صوبائی اسمبلی کے ارکان کا تعلق صرف اس ایک ضلع سے ہوتا ہے کیوں کہ وہ دولت مند ہیں جن میں سے بیشتر شراب کے ٹھیکیدار ہیں۔ اسی طرح بالائی سندھ میں ہندوؤں کے 25 سے 30 ہزار ووٹ ہی ہوں گے لیکن اگر آپ صوبے کے دیگر علاقوں میں آبادیاتی اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو میرپور خاص ڈویژن میں ہندوؤں کی اکثریت ہے لیکن وہاں سے میرے علاوہ کوئی اور منتخب نہیں ہوتا۔ انہی وجوہات کے باعث میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے مسائل درست طور پر اسمبلیوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ غیرمسلم سیاست دان دراصل اپنی اپنی جماعتوں کے نمائندے ہوتے ہیں اور حقیقت میں ان کا کمیونٹی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میں ہمیشہ یہ بات کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ کمیونٹی کے نمائندے ہوتے تو جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات ہوتے اورنہ ہی غیر مسلموں کے ساتھ تعصب برتا جاتا۔ متروکہ وقف املاک بورڈ لیاقت علی خان اور جواہر لعل نہرو کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوا، انڈیا میں گزشتہ 70 برسوں سے اس کا چیئرمین مسلمان بنتا آرہا ہے، اسرائیل میں بھی ایسا ہی ہے مگر پاکستان ایسا واحد ملک ہے جہاںمسلمان متروکہ وقف املاک بورڈ کے سربراہ بن جاتے ہیں۔ وہ کیا جانیں کہ ہندوؤں کے مندروں یا سکھوں کے گردواروں کی دیکھ بھال کس طرح کی جانی چاہئے؟

سوال۔ میں دوبارہ اپنے سوال کو دہراتا ہوں کہ میگھواڑ، کوہلی اور بھیل کمیونٹی کے رہنماء شدومد سے یہ کہتے ہیں کہ انہیں اسمبلیوں میں متناسب نمائندگی حاصل نہیں ہے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: جی بالکل! اسی وجہ سے تو میرا مطالبہ ہے کہ غیر مسلموں کے لیے مخصوص کی جانے والی نشستوں پر بھی انتخابات کروائے جائیں تاکہ کمیونٹی کے حقیقی نمائندے اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی کریں۔ میں نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے جو زیرسماعت ہے تاکہ ہمارے حقیقی نمائندے ہی منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آئیں، یہ Selection اور Pick and Chose والا طریقۂ کار ختم ہونا چاہیے۔ اس وقت صرف ایک میگھواڑ جیون کٹھو صوبائی اسمبلی کا رُکن ہے۔ اگر مردم شماری کی رو سے دیکھا جائے تو یہ تناسب مختلف ہونا چاہیے۔ مگر میگھواڑ آئے یا کوہلی منتخب ہو، معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے علاقے کا حقیقی نمائندہ ہو تاکہ وہ کم از کم کمیونٹی کے دکھ درد میں تو شامل ہو۔

سوال۔ آپ نے کہا کہ آپ تاریخ کے طالب علم ہیں، یہ بتائیے کہ جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات کا آغاز کب ہوا؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: ماضی میں بھی جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ تقسیم کے وقت پاکستان کی 23 فی صد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی جو اب کم ہو کر صرف چار فی صد رہ گئی ہے۔
سوال۔ آپ کے خیال میں جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات کی بڑی وجہ کیا ہے؟
ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ سکولوں میں پڑھایا جا رہا نصاب ہے جو نفرت کے فروغ کا باعث بن رہا ہے ۔ دوسرا مختلف گروہوں کی جانب سے یہ تبلیغ کی جاتی ہے کہ اگر آپ کسی غیر مسلم کو مسلمان کرو گے تو جنت میں جاؤ گے جس کے باعث بھی ایسے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔

سوال۔ آپ خود ایک قانون ساز ادارے کے رکن ہیں تو آپ نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس حوالے سے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ میں نے ہندو جوڑوں کی شادی کی رجسٹریشن کے لیے میریج ایکٹ متعارف کروایا جس کے لیے مجھے بہت زیادہ محنت کرنا پڑی۔ متذکرہ ہندو میریج ایکٹ میں بھی میں نے دو نکات شامل کیے جو جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات کی روک تھام سے متعلق تھے۔ اول، شادی شدہ بچی جب تک اپنے پہلے خاوند سے علیحدگی اختیار نہیں کر لیتی، وہ اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتی اور دوسرا 18 برس سے کم عمر لڑکا یا لڑکی مذہب تبدیل کر کے بھی شادی نہیں کر سکتا۔ کچھ مذہبی تنظیموں اور لوگوں نے ان دونوں نکات کو زبردستی بل میں سے خارج کروا دیا۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات کی روک تھام کے لیے اتفاقِ رائے سے بل منظور ہوا لیکن کچھ عناصر کے دباؤ کے باعث صوبائی حکومت یہ قانون واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔

سوال۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت ملک میں جبرئ تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: جی بالکل! اس وقت ملک میں جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

سوال۔ پاکستان سے ہندوؤں کی انڈیا ہجرت کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا جوگندر ناتھ منڈل ایسے پہلے ہندو نہیں تھے جنہوں نے پاکستان سے انڈیا ہجرت کی؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جوگندر ناتھ منڈل نے ہی قائداعظم سے گورنر جنرل کا حلف لیا۔ وہ پاکستان کے اولین وزیرِ قانون بھی تھے لیکن قائداعظم کی وفات کے بعد حالات ہی ایسے بن گئے کہ وہ انڈیا ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

سوال۔ کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس وقت سندھ سے ہندوؤں کے بھارت ہجرت کرنے کا تناسب کیا ہے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی:میں Migration کی حمایت نہیں کرتا کیوں کہ دھرتی ہماری ماں ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہجرت نہیں کرنی چاہیے۔ جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات میں ملوث عناصر خود بخود خاک میں مل جائیں گے، ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم صبر اور تحمل کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں جس کے لیے اسمبلیوں میں ہندو کمیونٹی کی متناسب نمائندگی کا ہونا ضروری ہے،ہماری آواز جب اسمبلیوں کے ایوانوں میں گونجے گی تو نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمارا ساتھ دیا جائے گا اور اس وقت کوئی ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کر سکے گا۔

سوال۔ میں ایک بار پھر اپنا سوال دہراتا ہوں، آپ کے اندازے کے مطابق اب تک کتنے لوگ انڈیا ہجرت کر چکے ہیں؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: پاکستان کی تقسیم کے وقت غیرمسلموں کی آبادی کا تناسب 23 فی صد تھا ، آج یہ تناسب صرف چار فی صد رہ گیا ہے، ان اعدادوشمار کی روشنی میں انڈیا ہجرت کرنے والے ہندو کمیونٹی کے ارکان کی تعداد کا آسانی کے ساتھ تعین کرنا ممکن ہے۔

تجزیات آن لائن: لیکن یہ تناسب جو آپ پیش کر رہے ہیں، اس میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کی غیرمسلم پاپولیشن بھی شامل تھی؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: ایسا ہی تھا لیکن سندھ میں ہندوؤں کا تناسب چار فی صد سے زیادہ ہی تھا۔

سوال۔ تقسیم کے وقت پنجاب سے ہندوؤں اور سکھوں نے بڑے پیمانے پر انڈیا ہجرت کی لیکن سندھ کے ہندوؤں کی اکثریت یہیں مقیم رہی، آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہوا؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ قائداعظم کا تعلق سندھ سے تھا۔ دوسرا سندھ میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ سندھ میں ہندو مسلم تقسیم نہیں تھی اور صوفیانہ کلچر کو زیادہ پذیرائی حاصل تھی۔ اسی صوفیانہ کلچر کے باعث سندھ میں اگر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے پیروکار ہندو ہیں تو مسلمان بھی ہیں۔ لعل شہباز قلندر کو ہم جھولے لعل بھی کہتے ہیں اور لعل سائیں بھی کہتے ہیں۔ اس کلچر کے باعث ہی سندھ میں ہندو مسلم تقسیم نہیں تھی مگر تقسیم کے کچھ عرصہ کے بعد مذہبی Sentiments میں اضافہ ہونے لگا،اس کے باوجود سندھ سے ہجرت کا آغاز ستر کی دہائی کے بعد شروع ہوا۔ تقسیم کے وقت سندھ سے نہ ہونے کے برابر ہجرت ہوئی تھی۔ آپ اگر 65 اور 71 کی جنگوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں جب انڈین فورسز نواں کوٹ تک پہنچ گئی تھیں تو ہماری کمیونٹی کے رہنماؤں نے خود انڈین فوج سے کہا کہ ہم سندھ میں ہی رہنا چاہتے ہیں جس کے باعث انڈین فوج مقبوضہ علاقوں کا قبضہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔ اس وقت لوگ کچھ یوں اپنی دھرتی سے محبت کیا کرتے تھے۔ مگر اسّی کی دہائی میں جب حالات خراب ہوئے، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، اغوا برائے تاوان کے واقعات کا تناسب بڑھا اور ہندو کاروباری کمیونٹی کے لیے کاروبار کرنا مشکل ہو گیا تو ہندووؤں کے انڈیا ہجرت کرنے کا تناسب بڑھا۔ 2013 تک سندھ سے قریباً پانچ ہزار ہندو ہر برس انڈیا ہجرت کر رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ہجرت کا یہ سلسلہ اب کسی حد تک رُکا ہوا ہے جیسا کہ ہندو میریج ایکٹ بنا تو صوبے اور کمیونٹی میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ پاکستان میں تبدیلی آ رہی ہے مگر اب تک جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ ہندو میریج ایکٹ کا نفاذ بھی عمل میں نہیں آسکا، متروکہ وقف املاک بورڈ کا سربراہ بھی اب تک کوئی ہندو تعینات نہیں ہوا جس کے باعث کمیونٹی میں ہنوز یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جا رہا۔

سوال۔ آپ کے خیال میں اس ساری صورتِ حال کی ذمہ داری کس حد تک غیر مسلم اور بالخصوص ہندو رہنماوؤں پر عائد کی جا سکتی ہے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: اس ساری صورتِ حال کے ذمہ دار دراصل ہم خود ہیں۔ پاکستان میں ہندو، مسیحی برادری اور پارسیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، شراب کی دکانیں تو بہت سارے لوگوں کی ہوں گی جو شراب کی فروخت کا گھناؤنا دھندا کرتے ہیں ۔ میں تو ان عناصر کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی چلا گیا تھا۔ لیکن کیا کوئی ایسا غیرمسلم رُکن بھی ہے جو غیرمسلموں کے مسائل کو اسمبلیوں تک، ایوانوں تک لے کر گیا ہو؟ سول سوسائٹی کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور رہا ہے مگر کیا آپ نے کبھی غیر مسلم رہنماؤں کو فعال انداز سے اپنی کمیونٹی کے مسائل حل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے لیے اور اپنی پارٹی کے لیے سیاست کرتے ہیں اور ان لوگوں کی وجہ سے غیرمسلموں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ میں نے تین بار اسمبلی میں یہ بل پیش کیا کہ غیرمسلموں کے لیے مخصوص نشستوں پر بھی انتخابات کا انعقاد کروایا جائے کیوں کہ نشستوں کے مخصوص کیے جانے سے ان کے لیے کوئی آسانی پیدا نہیں ہو رہی۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ غیر مسلموں کی اسمبلی میں نمائندگی ہی نہ ہو۔ پارلیمان میں اس وقت غیر مسلم کمیونٹی کے 10 ارکان موجود ہیں لیکن وہ درحقیقت ہماری نمائندگی نہیں کر رہے۔ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ میں نے بارہا اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت نے بھی میرا نقطہ نظر نہیں سنا۔

سوال۔ آپ کا تعلق چوں کہ سندھ سے ہے اور وہاں پاکستان پیپلز پارٹی برسرِاقتدار ہے، آپ کے خیال میں پیپلز پارٹی اس ساری صورتِ حال کی کس حد تک ذمہ دار ہے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ روشن خیال ہیں جو عملی طور پر غیرمسلموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں میں باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر صورتِ حال مختلف ہے۔ دوسری جانب سب سے زیادہ زیادتی بھی سندھ میں ہی ہوئی ہے کیوں کہ وہاں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ سندھ سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی جب خود کرپشن کی دلدل میں دھنس جائیں گے تو مسائل میں اضافہ ہی ہو گا۔ پی ٹی آئی میاں مٹھو کو پارٹی میں شامل کرنے لگی تھی لیکن میرے صدائے احتجاج بلند کرنے پر ایسا نہیں ہوا۔ یہ میاں مٹھو، پیر ایوب جان سرہندی اور مفتی نعیم ہی ہیں جنہوں نے سندھ بھر میں جبری تبدیلئ مذہب کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔

سوال۔ سندھ میں جبری گمشدگیوں کے معاملات بھی شہ سرخیوں میں آتے رہتے ہیں، آپ کے خیال میں ان واقعات کی کیا وجوہات ہیں؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میں ذاتی طور پر جبری گمشدگیوں کو غلط سمجھتا ہوں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات ہوتے ہی کیوں ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسے واقعات کی ذمہ دار عدالتیں ہیں جو ان ملک دشمن عناصر کو بھی باعزت بری کر دیتی ہیں جن کے بارے میں خفیہ ادارے پریقین ہوتے ہیں کہ وہ ریاست مخالف جرائم میں ملوث ہیں جس کے باعث خفیہ ادارے ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ان لوگوں کو حراست میں لے لیتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے اختیارات کا غلط استعمال بھی ہوتا ہو گا اور ہوتا بھی ہے۔ میرے خیال میں اختیات کا غلط استعمال روکنے کے لیے موثر قانون سازی کی جانی چاہیے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جبری طورپر گمشدہ کیے جانے والے یہ لوگ کسی نہ کسی حوالے سے ملک دشمن سرگرمیوں میں ضرور ملوث ہوتے ہیں۔ یہ رجحان صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، دنیا کے قریباً ہر ملک میں انٹیلی جنس ادارے اسی نوعیت کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔

سوال۔ کیا ریاست پر تنقید کرنا اس قدر بڑا گناہ ہے کہ لوگوں کو اٹھا لیا جائے اور ان پر تشدد کیا جائے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میرا خیال ہے کہ یہ درست طرزِ عمل نہیں ہے۔ یہ اختیارات کا غلط استعمال ہے جسے قانون کے دائرہ کار میں لانے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی فرد ریاست کے خلاف یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور جیسا کہ قومی ایکشن پلان میں ہم نے ان نکات پر بات بھی کی تھی کہ اگر ایجنسیاں کسی فرد سے تفتیش کرنے کے لیے اسے 14 روز کے ریمانڈ پر اپنی تحویل میں رکھتی ہیں تو وہ ایسا ضرور کریں لیکن اس فرد کے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد بھی فراہم کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اختیارات کا غلط استعمال جاری رہے گا اور ممکن ہے کچھ بے گناہ لوگ بھی پھنس جائیں۔

سوال۔ آپ چونکہ قومی اسمبلی میں غیرمسلموں کے نمائندہ ہیں، اس لیے میں توہین مذہب کے قانون پر بھی بات کرنا چاہوں گا، آپ کے خیال میں کیا یہ قانون غیرمسلموں یا کمزور طبقات کے خلاف بطورایک ہتھیار تو استعمال نہیں ہو رہا؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میں نے توہینِ مذہب کے غلط استعمال کے ایک نہیں، متعدد واقعات وقوع پذیر ہوتے دیکھے ہیں۔ لاڑکانہ میں توہین مذہب کے غلط الزامات کے تحت دھرم شالا کو آگ لگا دی گئی۔ صوابی میں ایک ایسا ہی واقعہ ہوا جب کرشنا وتی نامی لڑکی پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔ اس لڑکی کو مردان جیل میں قید رکھا گیا۔ سیشن جج جیل میں لڑکی سے بیان لینے گیا اور اس سے کہا کہ اگر تم اسلام قبول کرلیتی ہو تو تم رہا کر دی جاؤ گی۔ میں نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے ایکشن لیا اورمذکورہ سیشن جج کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ یہ توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی صرف دو مثالیں ہیں، ایسی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی 95 فی صد آبادی یہ منفی سوچ نہیں رکھتی، وہ محبت و رواداری کے تصورات کی قائل ہے۔ مجھے فروری 2014 میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے عدالت طلب کیا اور کہا کہ توہینِ مذہب کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ میں نے پہلی بات ہی نصاب میں تبدیلی سے متعلق کی۔ نصاب میں موجود نفرت پر مبنی مواد ہٹا کر میثاقِ مدینہ، قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر اور ایسی دیگر مثالیں شامل کی جائیں جو امن و رواداری پر مبنی ہوں۔ ہندوؤں میں کچھ برہمن بھی حضرت امام حسین کے ساتھی تھے۔ آج بھی ہم محرم کے جلوسوں کی گزرگاہوں میں عزاداروں کو اپنے ہاتھوں سے شربت پلاتے ہیں۔ وہ محبت و رواداری والا دور آج بھی قائم ہے لیکن ضرورت اس اَمر کی ہے کہ نفرت کا بیوپار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور آنے والی نسلوں کو امن کا درس دیا جائے۔

سوال۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران سندھ دھرتی پر بڑی تعداد میں مدارس قائم ہوئے ہیں، آپ اس رجحان کا تجزیہ کس طرح کریں گے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میرا خیال ہے کہ یہ آج کے انٹرویو کا اہم ترین سوال ہے۔ میں نے رات ہی ایک ٹی وی پروگرام میں بات کی کہ قومی ایکشن پلان پر اگر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو قصور میں نہ تو زینب کے ساتھ ریپ ہوتا اور نہ ہی ضلع مٹھی میں تین لوگوں کا سربازار قتل ہوتا۔ ہم نے مدارس کی رجسٹریشن کرنا تھی اور ریاست کو یہ تک معلوم ہونا چاہئے تھا کہ فلاں گھر میں کون رہائش پذیر ہے اور اس کے پڑوس میں کون رہتا ہے؟ مگر یہاں پر تو متعلقہ اداروں کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ فلاں مندر یا مدرسے میں کون رہتا ہے؟ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صرف تھرپارکر اور بدین میں جماعت الدعوۃ اور دیگر مذہبی تنظیموں کے پانچ سو مدارس قائم ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہم نے اپنے علاقے میں کبھی ہتھیار تک نہیں دیکھا تھا، آج صورتِ حال یہ ہے کہ ان علاقوں میں دن دیہاڑے ہندو کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، بچیوں کو اغوا کیا جا رہا ہے لیکن ان بدترین حالات کے باوجود قانون پر عمل نہیں کیا جا رہا۔

سوال۔ آپ نے جماعت الدعوۃ کا ذکر کیا اور آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ جماعت الدعوۃ کو مبینہ طورپر ان علاقوں میں فروغ دیا گیا ہے جن کے بارے میں ریاست یہ تصور کرتی ہے کہ ان علاقوں میں اس کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، کیا ریاست اب بھی ہندوؤں کو قومیت کے اپنے خودساختہ تصور کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ خیال کرتی ہے؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میرے لیے آپ کے اس سوال کا جواب دینا نہایت مشکل ہے۔ میری ان تمام حالات پر نظر ہے۔ سیاست میں قریباً دو دہائیوں کا عرصہ گزار چکا ہوں اور پاکستان ہندو کونسل کا پیٹرن ان چیف بھی ہوں لیکن اگر میَں عملی طور پر آپ کے سوال کا جواب دوں تو مجھے یہ بتائیں کہ جبری تبدیلئ مذہب کے لیے جب قانون تشکیل پایا تو وہ لوگ کون تھے جنہوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا؟ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں ہماری سمادھی کو توڑا گیا۔ میں نے سپریم کورٹ کے حکم پر جب یہ سمادھی بحال کروائی تو ہمیں یہ دھمکیاں دینے والے لوگ کون تھے کہ وہ یہ سمادھی نہیں بننے دیں گے؟ میں نے جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا کہ اس ملک کے 95 فی صد لوگ محبت کرنے والے ہیں، پانچ فی صد نہیں۔ آپ اگر قومی ایکشن پلان کے تحت مدارس، مندر اور گرجا گھر وغیرہ رجسٹر ڈکریں گے تو ایسے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔

سوال۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ چند برسوں سے سندھ میں تواتر کے ساتھ ہندو ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہو رہے ہیں۔ آپ کے نزدیک پروفیشنلز کو یوں ٹارگٹ کرنے کے پس پردہ کیا محرکات کارفرما ہو سکتے ہیں؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: میرے خیال میں ایسے واقعات کا مقصد ملک میں انتشار اور خوف پھیلانا ہے۔ پاکستان میں کبھی کوئی عالمی طاقت مداخلت کرتی ہے اور کبھی کوئی۔ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں کسی فریق نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر ہم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہ ہوں اور ملک کی خدمت کرنے کے جذبہ سے سرشار ہوں تو ناپاک عزائم رکھنے والے گروہ کبھی اپنے اہداف میں کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اپنے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ سیاست کو عبادت سمجھا جائے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو پاکستان سے نہ صرف دہشت گردی ختم کی جا سکتی ہے بلکہ انسانی حقوق کا فروغ بھی ممکن ہو سکے گا اور اس وقت اس سرسبزوشاداب ملک کا کوئی باسی غریب نہیں رہے گا۔

سوال۔ پاکستان ہندو کونسل بنانے کا خیال کیوں آیا اوراس کے پیش نظر بنیادی مقاصد کیا ہیں؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: پاکستان ہندو کونسل اس لیے بنائی کیوں کہ ہندو کمیونٹی بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کر رہی تھی اور اب بھی کر رہی ہے۔ میں نے 2005 میں یہ محسوس کیا کہ کوئی ایسی تنظیم موجود نہیں ہے جو غریبوں کی مدد کرے اورغریب بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرے اور ان کے والدین کو ان کی شادیوں کے لیے تعاون فراہم کرے۔ یہ ایک غیرسرکاری سماجی تنظیم ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ آج ایک ہزار سے زیادہ بچے اس تنظیم کے تحت قائم سکول میں زیرِتعلیم ہیں۔

سوال۔ پاکستان بھر میں ہندوؤں کے بہت سے مقدس مقامات ایسے ہیں جنہیں فی الفور محفوظ بنائے جانے کی ضرورت ہے، آپ قومی اسمبلی کے رُکن اور ہندو کمیونٹی کے ایک اہم رہنماء کے طور پر کیا اقدامات کر رہے ہیں؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: قومی اسمبلی کے حوالے سے تو میں تھک گیا ہوں۔ میں 2013میں جب منتخب ہوا تو میں نے اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے بھی کہا کہ آپ متروکہ وقف املاک بورڈ کا سربراہ کوئی ہندو تعینات کریں مگر میاں صاحب نے رانا بھگوان داس پر صدیق الفاروق کو ترجیح دی۔ میرا یہ نقطہ نظر ہے کہ جب تک اس ادارے کا سربراہ کوئی ہندو نہیں بنایا جاتا،اس وقت تک ان مقامات کی حفاظت اور ان کا تحفظ ناممکن ہے۔

سوال۔ کیا آپ نے پاکستان میں موجود مندروں کی درست تعداد جاننے کے لیے کوئی اقدامات کیے ہیں؟

ڈاکٹر رامیش وانکوانی: کچھ عرصہ قبل میں نے اور ڈان اخبار سے منسلک صحافی ریما نے مل کر ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستان بھر میں موجود مندروں کی تفصیل اور تاریخ موجود ہے۔ یہ کتاب پاکستان ہندو کونسل کی ویب سائیٹ پربھی دستیاب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ تجزیات آن لائن!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply