لائل پور سے فیصل آباد تک۔۔۔محمد حسن معراج

انیسویں صدی کے آخر میں جب انگریز نے حکومت اور ملکہ کی محبت میں سماج سدھار کا فیصلہ کیا تو نہریں کھود کر پنجاب کے کھیتوں کو پانی پہنچایا گیا۔ زمینوں کے اس دان میں وفاداریوں کا بھی ہاتھ تھا سو جو سرکار کے جتنا قریب تھا اس کی زمین بھی نہر کے اتنا ہی قریب تھی۔ پہلے پہل، بار کی اس بستی کو چناب کالونی کا نام دیا گیا۔ شہر کی بنیاد رکھنے والے انگریز تھے سو اب بھی کچھ سکولوں میں سفید چوغے پہنے شفیق بوڑھے، بوڑھیاں گیان دیتے نظر آتے ہیں۔

کیپٹن ینگ نے جو آٹھ لکیریں کھنچیں تھیں ، اب وہاں گھنٹہ گھر کھڑا ہے اور یونین جیک کی یاد تازہ کرتا ہے۔ چناب کلب کے جن کھلے برآمدوں میں برطانوی افسر سستایا کرتے تھے وہاں اب بھی جب دھوپ پڑتی ہے تو راج کی خوشبو آتی ہے۔

زمینوں کی اسی تقسیم میں ماسٹر سندر سنگھ کے بڑے بوڑھے بھی جالندھر سے اٹھ آئے اور نئی بستی کے شوق میں اپنے نام کے ساتھ لائلپوری لگانا شروع کر دیا۔ ماسٹر سندر سنگھ صرف سکندر حیات اور گیانی کرتار سنگھ کے استاد نہیں تھے بلکہ جگت ماسٹر تھے۔ ان کے کارناموں میں اکالی دل جیسی قومی تحریک، پنجابی کا پہلا اخبار اور پنجاب کے کونوں کھدروں میں کھلے خالصہ سکول آتے ہیں۔ عبداللہ پور کی نہر کے کنارے پہ لائل پور سنگھ سبھا کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ ماسٹر جی نے اس عمارت کو خالصہ سکول میں تبدیل کیا۔ بڑھتے بڑھتے سکول کالج بن گیا اور خالصہ کالج، لائل پور کی پہچان۔

جلیانوالہ باغ کا حادثہ ہوا تو اگلے دن پولیس نے ماسٹر صاحب کو بھی گرفتار کر لیا۔ قتل کا مقدمہ لڑتے لڑتے پنڈت مالویہ ماسٹر جی کو پھانسی کے پھندے سے کالا پانی کے ڈیڑھ سال تک تو لے آئے، مگر جرمانہ ادا کرتے کرتے آباد کاری والی زمینیں ضرور بک گئی۔

کالا پانی سے واپسی پہ ماسٹر صاحب نے اکالی اخبار نکالا جو آگے چل کر آزادی کی آواز بنا۔ یہ آواز اتنی بلند ہو گئی کہ انگریزوں کو ماسٹر صاحب کو دوبارہ پس زندان کرنا پڑا۔ بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے یہ اخبار اردو میں بھی نکلنا شروع ہو گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد پنڈت مالویہ کے کہنے پہ ماسٹر صاحب نے امریکہ میں مقیم سکھوں کی مالی معاونت سے ہندوستان ٹائمز کے نام سے انگریزی اخبار بھی نکالنا شروع کر دیا۔

سرکاری پابندیوں اور معاشی مجبوریوں کے سبب اخبار زیادہ دن چل نہیں سکا اور جلد ہی پنڈت مالویہ سے ہوتے ہوئے گھنشیام داس برلا کے پاس چلا گیا۔ تمام عمر کھدر پہننے والے ماسٹر لائل پوری ایسے کانگریسی تھے جو مکمل آزادی پہ بھی یقین رکھتے تھے اور ساتھ ساتھ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بھی آواز اٹھاتے تھے۔

تقسیم سے پہلے لائل پور میں سکھ جاٹ، مسلم شیخ ، ہندو تاجر اور کچھ اینگلو انڈین آباد تھے جو اپنے اپنے رنگوں سے ایک خوبصورت دھنک بنتے تھے۔ جاٹ زمینیں سنبھالتے، شیخ اور ہندو آڑھت دیکھتے اور اینگلو انڈین، سکول ، کلب اور دفتر کی تکون گول کرنے میں مصروف رہتے۔

دن میں گنیش مل کی سیٹیاں سنائی دیتیں اور شام میں گنڈا سنگھ اپنے سالم تانگے پہ شہر کا چکر لگاتا۔ تھوڑا آگے خوشی رام بہاری لال مل تھی جو دو بھائیوں نے کھڑی کی تھی اورلال مل کے نام سے جانی جاتی تھی۔

شہر کی وجہء شہرت آٹھ بازار تھے جو گھنٹہ گھر کے نکتہء اتصال سے آٹھ سمتوں کو نکلتے تھے۔ باہر کی طرف جاتے ہوئے یہ آٹھوں بازار، دائروں کی صورت، وقفے وقفے سے ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ کوئی وقت تھا کہ ان 8 بازاروں کی اندروں گلیوں میں دوکانوں کی بجائے لوگ آباد تھے۔

ایک بازار میں فتح علی خان اور مبارک علی خان ریاض کیا کرتے تھے۔ کومل اور تیور کی یہ دنیا ابھی نصرت فتح علی خان اور راحت فتح علی خان سے ایک پیڑھی کے فاصلے پہ تھی۔ کچھ دور، دوسرے بازار میں آہنگ کا ایک اور سلسلہ چلتا تھا۔ بیرسٹر کھجن سنگھ کے ہاں، ان کی تیکھے نین نقش والی لڑکی، تیجی، اپنی ماں کے ساتھ کیرتن کیا کرتی تھیں۔

بات شبد سے نکلی اور شیکسپئر تک جا پہنچی۔ تیجی، لاہور کے ایک کالج میں پڑھاتی تھی جب اس کی ملاقات ہرونش رائے سے ہوئی جو شاعر بھی تھے اور استاد بھی۔ 1941 میں دونوں کی شادی ہو گئی اور اگلے سال دونوں کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ آزادی کی تحریک زوروں پہ تھی سو بیٹے کا نام “انقلاب” رکھا گیا مگر پھر سمترا نندن پنٹ کے کہنے پہ نام بدل کر امیتابھ بچن رکھ دیا گیا۔ کمپنی باغ کے سامنے سے ٹھنڈی سڑک گزرا کرتی جس کے ایک سرے پہ جیل اور زرعی کالج تھا اور دوسرے سرے پہ چناب کلب۔ شہر سے باہر بھگت سنگھ اور داروغہ بشیسور ناتھ کے لڑکے کی کہانیاں تھیں جو ریل کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔
اور پھر سن سینتالیس آ گیا۔ ۔ ۔

ملک آزاد ہوا تو شہر بھی بیدار ہو گیا۔ نئے نئے کارخانے کھلے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں صنعت و حرفت کا من و سلویٰ اترنا شروع ہو گیا۔ جانے والوں کے خلا کو پر کرنے کے لئے ایک نئے طبقے نے جنم لیا اور یوں اس بستی کے خد و خال بدلنے لگے۔

شہر کے پیرائے میں پہلی دراڑ اس وقت آئی، جب آٹھ بازاروں کو ملانے والی گلی کو روک کر ایک قنات لگا دی گئی۔ کچھ عرصے بعد وہاں مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی، پھر مولوی صاحب کا گھر بنا اور آخر میں مدرسے کے کمرے کوٹھے چڑھنے لگنے۔ ہوتے ہوتے یہ گلی مستقل بند ہو گئی۔ گز رنے والوں نے احتجاج کی آواز بلند کی تو انہیں کفر کا فتویٰ لگا کر خاموش کروا دیا گیا۔

عجیب بات ہے کہ پاک سرزمین میں تجاوزات کا ہر عمل مسجد سے شروع ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پہ راستہ روکنے والوں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ مذہب کا لفظی مطلب ’’راستہ دکھانا‘‘ ہے۔

تھوڑا وقت گزرا تو خالصہ کالج نے بھی کیس کٹائے اور کوٹ پہن کر میونسپل کالج ہو گیا اور کمپنی باغ بھی شیروانی زیب تن کر کے ’’باغ جناح‘‘ کہلانے لگا۔ خواب بیچنے والی حکومت آئی تو دہقان کو روٹی کپڑے اور مکان کی آس ہو گئی مگر جلد ہی یہ نعرہ بھی کھوکھلا پڑ گیا۔

روٹی کپڑا اور مکان تو خیر کیا ملنا تھا، عقیدت کے تاوان میں شہر کا نام بھی بدل دیا گیا۔ لوگ جیکب آباد والوں جیسے نہیں تھے سو چپ چاپ گھروں میں ہی بیٹھے رہے، مگر اس کے بعد انہوں نے کسی دوسرے نظریے کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ سرکار کے کاغذوں میں تو نام بدلے گئے مگر دادی فیصل آباد کو لائل پور، میونسپل کالج کو خالصہ کالج اور باغ جناح کو کمپنی باغ ہی پکارا کرتی۔
گوبند پورہ اور ہرچرن پورہ میں اب ماضی کی راکھ اڑتی ہے۔ کسی دور میں ہر دو بازاروں کے بیچ، ایک کھلی جگہ ہوا کرتی تھی جہاں لوگ شام کو بیٹھا کرتے تھے۔

کچہری بازار اور ریل بازار کے درمیان گرودوارہ تھا جب کہ ریل بازار اور کارخانہ بازار کے درمیان مندر۔ مندر تھوک پرچون کی دوکانوں سے اٹ گیا ہے اور گورودوارے میں پاکستان ماڈل سکول کھل گیا ہے۔ ماتھے پہ لکھی گور مکھی تو مٹ گئی ہے مگر سیوا کرائی کے سنگ مرمر ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ پیلی دیواروں میں اب سیاہ تختہ جڑے ہیں، گویا، یہ درگاہ، سین کو گلے لگا کر درسگاہ بن چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے بوڑھے برگد سے ٹیک لگائی تو ایک خیال نے دستک دی۔ کیا کوئی دن ایسا بھی آئے گا، جب یہ شہر آپ ہی آپ اپنے ماضی سے منقطع ہو کر ایک ایسا شہر بن جائے گا جو نہ تو کبھی بھگت سنگھ کا تھا اور نہ سندر سنگھ لائل پوری کا۔ یہاں بچے ریل بازار کی گمٹی میں کھڑے ہو کر ماں باپ سے پوچھیں گے کہ جیمز براڈووڈ لائل کون تھا اور اس سامنے والے دروازے کو قیصری دروازہ کیوں کہتے ہیں۔ ماں باپ کے پاس شائد اس کا جواب نہ ہو کیونکہ وہ بھی فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے لائلپور میں نہیں۔ ہوتے ہوتے سب کچھ بدل جائے گا اور یہ شہر وہ نہیں رہے گا جو یہ تھا، مگر پھر وہ کون سا شہر ہے جو اب ویسا رہا ہے۔
بشکریہ ثنا اللہ خان احسن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply