پیمپر ہی پیمپر/یوحنا جان

عجب داستان اور عجب کہانی ہر بدلتے وقت کی ایک بہترین لڑی جو کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے اس دور کو کڑی لگاتے اپنی گرفت میں کیے جاتی ہے۔ ان کڑیوں میں گرفتار ہونے والوں کو ابھی تک اس مسئلے کی کڑی کا علم نہ ہو سکا۔ لہذا یہ مسئلے پہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے مگر یہ مسائل پر بحث ہی کرتے جا رہے ہیں مسائل کے حل پہ نہیں۔ جو تنقید کی بجائے تنقیس پر زور دیئے جا رہے ہیں۔ اس کے بدلے جو صورت حال اب کی ہے وہ زندہ دلیل ہے۔ صدیوں پہلے کی بات نہیں کرتا نہ سیکڑوں کی، صرف چند سال قبل مطلب اُنیسویں صدی کے اختتام کا تذکرہ ہی کر لیا جائے تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ جب گھر میں کسی ننھے مہمان کی آمد ہوتی تو ہر طرف خوشی کا سماں ہوتا تھا۔ اس خوشی کے سماں میں صرف خوشی نہیں بلکہ ایک بڑی ذمہ داری لگ جاتی تھی۔ اُس وقت کی مائیں جو اس  بات  سے ناواقف تھیں بلکہ انھوں نے لنگوٹ اور گیلی جگہ پر سونے کو ترجیح دی جو اس کی ذمہ داری اور گھرانے کی وفاداری کی روشن دلیل ہے۔

پیمپر کا تصور و گمان بھی نہ تھا۔ اس کا گھر کی دہلیز کوعبور کرنا اس کی اوقات میں شامل نہ تھا۔ باپ کی جیب میں اس کو خریدنے کے لیے کسی روپے پیسے کی ہمت نہ ہوتی جس سے اس کو خریدا جا سکے بلکہ تصور ہی نہ تھا۔ اس کی جگہ پھل ، تازہ سبزی ، دودھ جو بالکل تازہ ، بھینسوں کی حویلی سے برتن میں خود لے کر آنا بنیادی ترجیحات میں شامل تھا۔ باپ کے خیال میں صرف یہی گھومتا کہ میرے مستقبل کے چراغ کو اور اس کی کفالت کرنے والی کا خیال انھی سرگرمیوں میں چُھپا ہے۔ اُس کاایمان اور راسخ عقیدہ مصنوعی چیزوں اور بند پیکٹوں کی بجائے رب کریم کے نام اور اُس کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داری کو خلوص نیت سے نبھانے میں ہوتا۔ اس کی اور دلیل کیا دوں کہ جس نے ماں کے روپ میں اس کی چھاتی میں گوشت کے لوتھڑوں میں دودھ کی فطرتی نہریں بہا کر اس ذمہ داری اور فرض شناسی کا نقطہ عروج دکھا دیا۔

ماں کو بھی معلوم تھا کہ یہ اس کی ہڈیوں میں تاحیات طاقت اور بقاء کی ضمانت ہے۔ وہ بخوبی اس کو بروقت نبھاتی اور اس کی حفاظت کرنے میں جان کی بازی بھی لگا دیتی کہ یہ خُدا کی طرف سے ایک لازوال امانت ہے ۔ اسی کے ساتھ وہ اس ننھے پھول کی غلاظت کو اس کے ساتھ چمٹے رہنا کبھی پسند نہ کرتی۔ اس کا خیال عمدہ ہی عمدہ ادب کی دلیل و ثبوت ہے کہ غلاظت پودے اور پھول کی نرم ٹہنیوں اور پتوں سے چمٹی رہے تو وہ اس کی بناوٹ ، رنگت ، خوبصورتی اور افزائش میں بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ فوراً رات کی تاریکی میں بھی اُٹھ جاتی کیونکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے اور ترقی میں رکاوٹ ہے۔ ایک دم صفائی اور پُرسکون ماحول قائم ہو جاتا ۔ یہاں تک خود گیلی کی ہوئی جگہ پہ سو جانا پسند کرتی ۔ وہ گیلی جگہ ایک احساس اور ذمہ داری کی نشانی ہوتی جو خود بخود اُسے اپنی جگہ پر سُلاتی اور گیلی جگہ پر خود سو جاتی تھی۔ مطلب احساس ، فرض شناسی ، خلوص ، فکر مندی اور مستقبل پر نگاہ مرکزی نکات میں شامل تھے۔ یہ دوراندیش نگاہ مسلسل بتاتی کہ صفائی جسمانی ہونے کے ساتھ ذہنی و خیالی بھی ضروری ہے جو بقاء اور سلامتی کا سبب ہوگی۔ وہ سانس بھی لے تو کسی بھی قسم کی بدبو اور گندگی کا احساس اس کے پر اثر انداز نہ ہو اور نہ ہی کسی نقصان کا وسیلہ بنے۔

اس زندگی میں رتی برابر بھی کوئی گمان پیدا نہ ہو ۔ یہ احساس دن بدن بڑھنا جسمانی افزائش حاصل کرنے کے ساتھ ذہنی ترقی کا بھی ذریعہ قرار پاتا اور مثبت نتائج برآمد ہوتے۔

اب اس کی جگہ قنوطیت کا راج برپا ہو چکا ہے۔ جہاں صفائی کا راج تھا اس کی جگہ گندگی کے ڈھیروں نے بسیرا کر لیا ہے۔ شیطانی گندگی کا زور روز بروز بڑھ رہا ہے ۔ وہ جگہ جو رات کو گیلی ہو کر احساس دلاتی تھی اپنا تاثر چھوڑ چکی ہے۔ آبیاری کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ فصل کی پرورش سُست روی کا شکار ہو چکی ہے۔ وہ احساس جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر فصل کی نگہداشت کرتا تھا زیر زمین جا کر سو گیا ہے۔ بیداری کی جگہ خواب غفلت ، احساس ذمہ داری کی جگہ نیند کی گولیوں نے لے لیا ہے۔ دودھ کی فصل جو فطرتی بڑھوتری کا لازوال تحفہ تھا آہستہ آہستہ ویرانی کی بھینٹ چڑھا ہے۔ جسمانی خوبصورتی ، میک اپ ، چہرے کی دیوانگی اور ذہنی معذروی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ جس کا ردعمل مستقبل تاریک کرنے کا ہنر زور پکڑتا جاتا ہے۔

وہ غلاظت جو فوراً بیداری کی وجہ سے صاف اور نصف ایمان کا حصہ بن جاتی اب طویل مدت کے لیے جڑے رہنے کا عہد کرلیا ہے ۔ جس کے تاثرات جسمانی ، ذہنی ، خیالی اور روحانی طور پہ جان لیوا ثابت ہو گئے ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر وہ بھی طویل مدت کے لیے۔ چاروں طرف اس غلاظت کی وجہ سے بدبو ، تعفن ، بیماریاں اور نسل انسانی کی بقاء نہیں خطرہ الارم دے رہا ہے۔ دیکھا دیکھی ہر طرف اس کا منظر آنے لگا ہے۔ اس کی برادری نے ڈیرے جما لیے ہیں اتنا اتحاد کبھی کسی زمانہ میں انسانوں کے ہاں نہیں دیکھا جتنا اس کے استعمال اور اس برادری سے ساتھ ملن کا دیکھنے کو ملا۔ اسی وجہ سے مختلف قسم کی آفرز دے کر اس گندگی کو بیچا جا رہا ہے۔ ہر گلی میں اس کے اتحاد کی کہانیاں سُننے کو مل رہی ہیں۔ جنرل سٹور ، دُکان اور شاپنگ مال اس کی ذخیرہ اندوزی کا رنگ لیے ایک کے ساتھ ایک فری دے رہا ہے۔ اس رنگ کا یہاں تک اثر ہو چکا ہے کہ خاوند جب تک اس کی خریداری کرکے نہ آئے بچے کی ماں روٹی نہیں دیتی۔ ماں اُس وقت تک روٹی نہیں بنائے گی جب تک پیمپر نہ لگائے۔ اب بچہ بھی اسی چال کو سمجھ چکا ہے کہ اُس وقت تک نہیں کھلینا جب تک ماں یہ نہ لگائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو اب نتائج پیمپر کے ہی ہیں۔ جو لگانے سے پہلے اندر سے خالی، کھوکھلے پن کا شکار اور ہاتھ میں آتے ہی ظاہری بالکل نرم و ملائم ۔ لگانے کے بعد جس کو چُھونا پسند نہیں کرتے۔ وہ اندر سے غلاظت سے بھرپور ، عمدہ بدبو کا مرکز اور لمبے عرصہ کی قنوطیت کا غلبہ لیے جگہ جگہ اپنے نشان چھوڑ کے جا رہا ہے۔ ماضی میں جب اس کا وجود نہ تھا تو چھاتی کی بیماری نہ ذہنی پریشانی ۔ اب تو پیمپر کی جاگیرداری اور میک اپ کا حُسن جو مکمل آہ زاری ساری زندگی پہ بھاری۔ فضاء آلودہ ، حالت کشیدہ ، نرم جلد بڑا ہی ظلم جدید ، کہنے کو ماں سکون میں لیکن زندگی ہے مسلسل جنگ و جنون میں ، ماضی آگاہی اور بیداری کا سماں تو گھر میں صفائی کا نام و نشاں۔ یہ صفائی باطن تک اثر رکھتی جو کتھارسس کا سبب بن جاتی تھی۔ وہ صفائی اخلاقیات کی عمدہ دلیل اور ماضی قریب کا سُنہرے حروف کا باب بن چکی ہے۔ اب تو زندگی کا پہلا سانس بوری بند لاش کے مترادف ملتا ہے۔ اُس وقت ابا جی، اماں جی ، اُستاد جی اور ڈنڈا جی تھا مگر اب 2G, 3G, 4G، میک اپ جی اور پیمپر جی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply