احتجاجی سیاست اور تشدد کا ایندھن

9 اپریل 1977کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاج کے دوران لاہور میں لوہاری گیٹ کی مسلم مسجد کے باہر فائرنگ سے نو سے دس افراد مارے گئے۔جس کے بعد دیگر شہروں میں بھی درجنوں شہریوں نے نظام مصطفیٰ کے نام پر جانیں قربان کیں۔تمام مرنے والے عام آدمی تھے۔ ان میں سے کسی بھی نوجوان کا خاندانی نام مودودی، مفتی ، مزاری ، پگاڑا یا خان نہیں تھا۔ جب ایک فوجی انقلاب کے ذریعے احتجاجی تحریک کا خاتمہ ہوا تو پتہ چلا کہ تحریک کا مقصد اسلام نہیں بلکہ اسلام آباد تھا۔ پاکستان قومی اتحاد میں شامل کئی جماعتیں جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل ہوئیں مگر بعد میں ان کو بے توقیر کرکے نکال دیا گیا۔ تاریخ نے تو بعد میں یہ بھی ثابت کیا کہ احتجاج کو ہوا دینے کے لٗئے تمام پیسہ باہر سے آیا۔ 1983کی ایم آر ڈی موومنٹ اور بعد کی تمام تحریکوں میں بھی غریب اور متوسط گھرانوں کے ہی بچے مار ے گئے۔
2014 میں ماڈل ٹاؤن میں پولیس فائرنگ سے مارے گئے 14افراد میں سے کسی کا تعلق مذہبی رہنما کے خاندان سے نہیں تھا۔ بعد میں تحریک انصاف کے ملتان کے جلسے میں جاں بحق ہونے والے بارہ افراد بھی عام افراد ہی تھے۔ صرف بھٹو خاندان کے افراد ہی مختلف وجوہات کی بنا پر مارے گئے ہیں۔ حال ہی اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج میں زخمی ہونے والے تمام کارکنوں کا تعلق بھی خیبر پختون خوا کے غریب گھرانوں سے تھا۔ تمام رہنما یا تو بلٹ پروف گاڑیوں میں رہے یا اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ کے اندر فون پر ہی رابطے میں تھے۔
جیسے کہا جاتا ہے کہ ہیرو کبھی نہیں مرتا۔اسی طرح احتجاجی سیاست میں بھی عام آدمی مرتا ہے۔ بم اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سوار لیڈرز کبھی نہیں مرتے!

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply