ریاست مدینہ ایک اسلامی نظامِ حکومت کا نمونہ تھی جس کے معمار خود سرور کائنات ﷺ تھے اور جس کی بنیاد انصاف، برابری ، امن ، محبت اور بھائی چارہ پر رکھی گئی، جس کے قوانین کا سرچشمہ قرآن و حدیث تھے ۔ مختصراً ریاست مدینہ ایک نظریے کو پروان چڑھانے کے لئے معرض وجود میں آئی جس کے افراد کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی دنیا کی عظیم تر شخصیت نے کی ۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ آج ہمارے حکمران ریاست ِ مدینہ کی بات کرتے ہیں ،ریاست مدینہ کو اپنا ماڈل سمجھتے ہیں اور پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں ۔ریاست مدینہ کے خواب دیکھنا بھی سعادت سے کم نہیں ۔
آج کل ہمارے ملک میں رحمت اللعالمین کے نام پرحکومتی سربراہی میں کانفرنسز کروائی جارہی ہیں ، رحمت ا للعالمین کی سیرت اور تعلیمات کے فروغ کے لئے ایک اتھارٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ سیرت کو پرائمری سے لے کر مڈل تک کی کلاسز میں پڑھانے کے لئے ہدایات جاری کی جارہی ہیں ۔
مگر معذرت کے ساتھ، پڑھنے پڑھانے والے پہلے بھی بہت ہیں ، قوم کو مزید دھوکے میں نہ ڈالیں ، ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ، ریاست ِ مدینہ میں حکمرانوں کا کیا عمل تھا اس پر عمل کرکے دکھائیں ،قوم خود ہی عمل پیرا ہوجائے گی ۔ وزراء ریاست ِ مدینہ کی زندگی کو اپنے اعمال میں لے آئیں تو قوم کی تقدیر خود بخود ہی بدل جائے گی جس کا آغاز یقینا ً ریاست کے سربراہ سے ہونا چاہیے ۔
توشہ خانہ کی معلومات سے ہی کر لیجیے ۔ پہ خود احتسابی کا آغاز کہیں سے بھی کر لیجیے ۔ بدعنوانی پر اپنی رپورٹس پر ہی عمل درآمد کروادیجیے ، آڈیٹر جنرل کی خورد برد کی رپورٹ پر ہی کوئی ۔ ۔ ۔ اور نہیں تو کم از کم اپنے ساڑھے پانچ یا چھ فٹ کے بدن پر ہی اس کا نفاذ کر دیجیے مگر ماڈل پیش کیجیے ۔ آج کے اکیسویں صدی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مسابقتی معاشرت کے دور میں انسان ماڈل کو مانتے ہیں محض گفتار کو نہیں ۔
پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں
اپنا آپ پڑھیا ای نئیں
جا جا وڑدا مندر مسجد
من اپنے وچ وڑیا ای نئیں
لڑدے رہویں نال شیطاناں
نفس اپنے نال لڑیا ای نئیں
پہلے اپنے آپ نوں پڑھ
فیر مندر مسجد وڑ
جدوں نفس تیرا جاوے مر
فیر نال شیطاناں لڑ!
آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دے آمین!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں