سیریل کِلرز۔۔محمد اشفاق

اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری زینب بیٹی اور دیگر سات معصوم بچیوں کا قاتل درندہ قانون کی گرفت میں آ گیا- چار جنوری کو ہماری بیٹی لاپتہ ہوئی اور نو جنوری کو اس کی زخموں سے چور لاش ملی- اس دن سے آج تک ہر روز ہر صاحبِ دل اور ہر صاحبِ اولاد پاکستانی نے کس اذیت میں گزارا اس کا اندازہ آپ سب کو بخوبی ہے- مگر یہ اذیت اس اذیت کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھی جو ہماری ان پھول جیسی بچیوں کو اس وحشی درندے کے ہاتھوں اٹھانی پڑی- اس بدبخت کے انجام کا انتظار رہے گا- اس پر مزید کچھ عرض کرنا باقی ہے مگر سب سے پہلے آپ سب بہنوں، بھائیوں کا شکریہ ادا کرنا فرض ہے- جس کسی نے، جس کسی فورم پر بھی زینب بیٹی کیلئے آواز بلند کی، اللہ پاک اس کو اس کی اس مساعی کا بہترین اجر عطا فرمائے- دنیا میں ہمارے لئے یہی اہم کامیابی ہے کہ ہم سب مل کر مجرم تک پہنچنے میں کامیاب رہے- بے شک اپوزیشن اور اس کے بعض حمایتیوں نے تنقید میں چند حدود سے تجاوز کیا اور بلاشبہ حکومت اور اس کے بعض حامیوں نے جوابی تنقید میں- مگر درد سب کا مشترک تھا، مطالبہ سب کا ایک اور بالآ خر ہم کامیاب رہے-

قاتل کی گرفتاری کے بعد سے کئی احباب کی جانب سے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بندہ سیریل کِلر لگتا نہیں ہے- گزارش ہے کہ اگر کوئی بندہ شکل سے قاتل لگتا ہو تو سیریل کِلر بن ہی نہ پائے، اپنی پہلی واردات پہ ہی پکڑا جائے- پکچر میں چند بدنام ترین سیریل کلرز موجود ہیں، اسے غور سے دیکھیں ان میں سے کتنے چہرے آپ کو قاتل دکھائی دیتے ہیں؟ اصل میں جن ساتھیوں نے سائیکو، سائلنس آف دی لیمز، بون کولیکٹر، کاپی کیٹ اور ہینی بال جیسی فلمیں دیکھ رکھی ہیں، ان کے ذہنوں میں شاید ایک ذہین و فطین، بارسوخ اور بظاہر پرکشش انسان کا تصور ہے- دیگر دوست شاید کسی بہت خطرناک اور منحوس صورت شخص کا تصور کئے بیٹھے تھے- بظاہر نارمل، عام سا عمران نقشبندی ہمارے سٹیریو ٹائپ پر پورا نہیں اترا- ہر سیریل کِلر یقین جانیں ایسا ہی ہوا کرتا ہے- وہ کسی ایک معیار، کسی ایک سٹیریو ٹائپ پہ پورا نہیں اترتا- چند ایک کیٹیگریز میں انہیں بانٹا جا سکتا ہے مگر ایک کیٹیگری میں کئی مختلف اور متضاد شخصیات رکھنے والے ایک ساتھ پائے جا سکتے ہیں-

دوسرا اعتراض جو کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ یہ کسی اکیلے آدمی کا کام نہیں ہے- حضور ننانوے فی صد سیریل کِلرز “تنہا بھیڑیے” ہی ہوا کرتے ہیں- مشہور ترین کلرز میں سے میں نے صرف دو جوڑیوں کا پڑھ رکھا ایک میاں بیوی اور ایک دوستوں پر مشتمل- لوئی گریویٹو نے 1992 سے 1999 کے درمیان کولمبیا اور وینزویلا میں تین سو سے زائد قتل کئے، جن میں سے ایک سو اڑتیس ثابت بھی ہو گئے- ان سب کو اس نے تن تنہا موت کے گھاٹ اتارا تھا، بیشتر کو خالی ہاتھ-

سائلنس آف دی لیمز دیکھنے کے بعد مجھے اس موضوع سے دلچسپی پیدا ہوئی تھی- سوچا جو تھوڑا بہت میرے علم میں ہے وہ شئیر کر دیا جائے، شاید اس سے ہمیں عمران یا اس جیسے دیگر عفریتوں کو سمجھنے میں کچھ آسانی ہو-

معلوم تاریخ کے مشہور ترین سیریل کلر جیک دی رپر کی شہرت کا ایک راز یہ ہے کہ اس کی شناخت ابھی تک راز ہی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون تھا؟ اس کے بعد آنے والے سینکڑوں قاتلوں میں سے بیشتر اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے- اس لئے اب ہم ان کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں- اور جو کچھ ہم جانتے ہیں اس میں سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ سیریل کلر کوئی بھی ہو سکتا ہے، میں بھی، آپ بھی، کوئی کمزور، ناتواں خاتون بھی، کوئی بھی- اس کیلئے کوئی سپیشل سکلز، کوئی مخصوص وائرس، کوئی خاص صدمہ، کوئی خاص کمزوری ہونا ضروری نہیں- روس کا لیجنڈری آندرے چیکوٹیلو بہت پڑھا لکھا، بظاہر سلجھاانسان تھا، امریکی جیفری ڈاہمر مکمل نفسیاتی مریض، چین کا یینگ زنہائی مکمل جاہل اور گنوار-

دوسرا خوفناک ترین پہلو یہ ہے کہ بیشتر، جتنے میں نے پڑھ رکھے ان میں ستر فی صد سیریل کلر شکار کے طور پر بچوں اور خواتین خصوصا” جسم فروش خواتین کا انتخاب کرتے ہیں- کبھی یہ تھیوری سامنے آئی تھی کہ شاید قاتل کوئی مذہبی جنونی ہوتا ہے یا پھر ایسا شخص جس نے کسی طوائف کے ہاتھوں کوئی بڑا دھوکہ کھایا ہو، مگر ایسا نہیں تھا- بچوں اور جرائم پیشہ خواتین کا انتخاب اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ آسان شکار ہوتے ہیں- بچوں کو بہکانا اور جسم فروش خواتین کو اپنے ساتھ کہیں بھی لے جانا بہت آسان کام ہے- چونکہ سیریل کلر عادتا” قتل کرتے ہیں، تقریبا” نشہ ٹوٹنے کی سی حالت میں اس لئے وہ کسی چیلنجنگ یا مشکل شکار سے دور رہتے ہیں- باقی جو تیس فی صد ہیں ان میں سے بھی اکثر کا انتخاب بے گھر لاوارث لوگ یا معمر افراد بنے- یعنی ہمارے معاشرے کے کمزور ترین طبقات ہی ان عفریتوں کے سامنے سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہوتے ہیں- جاوید اقبال اور عمران نقشبندی ہی کو دیکھ لیجئے-

ایک اور حیرت انگیز بات اور ہمارے ماحول میں یہ بہت اہمیت رکھتی ہے، جنوبی امریکا کے پانچ چھ خوفناک قاتلوں کے علاوہ بہت کم سیریل کلر ایسے ہیں جن کا باقاعدہ کوئی مجرمانہ ریکارڈ رہا ہو، چند ایک کا تھا بھی تو چھوٹی موٹی وارداتوں کا- اپنی وضع قطع سے بالکل عام اور معمولی انسان، لوگوں سے تھوڑا سا دور مگر ان کے بیچ رہنے والے، چند ایک کسی جسمانی معذوری کا شکار، اکثر بالکل نارمل سی جسامت کے مالک- یہی وجہ ہے کہ ان کو پکڑنا تکلیف دہ حد تک مشکل ہوتا ہے- آج سے دس بارہ سال قبل ایک انٹرنیٹ فورم پر گفتگو کرتے ہم کچھ لوگ اس بات پر متفق تھے کہ جدید ایجادات اور تفتیش کے جدیدترین ذرائع نے سیریل کلرز کا کام بہت مشکل بنا دیا ہے، دوسرا اب دنیا بھر میں بیک وقت اتنا کچھ ہو رہا ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی دہشت ناک واردات بھی زیادہ خوف و ہراس کا سبب نہیں بنتی، لہٰذا اپنی دہشت پھیلانے کا جو مرض سیریل کلرز کو لاحق ہوتا ہے، اس کی تسکین نہیں ہو سکتی- اس لئے شاید سیریل کلرز کا دور ختم ہو چکا ہے- جلد ہی ثابت ہو گیا کہ ہم سب غلط تھے- میں یہاں آپ کو چند ایک ایسے سیریل کلرز سے متعلق بتانے جا رہا جو گزشتہ چند برسوں میں منظرِعام پر آئے ہیں، اور سب کے سب آزاد گھوم رہے ہیں-

1- لانگ آئی لینڈ کِلر : نیویارک سے تعلق، 1996 سے اب تک دس افراد کا قتل- تفتیش کاروں کے خیال میں اس کا تعلق قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے سے ہے-

2- جیف ڈیویز8: 2005 تا 2009 اس قاتل نے آٹھ خواتین کو قتل کر کے ان کی لاشیں جیف ڈیویز دلدل میں ٹھکانے لگائی ہیں- سب خواتین چھوٹی موٹی جرائم پیشہ اور پولیس کی مخبر تھیں-

3- نمیبیا کا قاتل : اسے بی ون قصاب کہا جاتا ہے- 2005 سے 2007 کے درمیانی عرصے میں سات سیکس ورکرز کو قتل کرنے کے بعد سے اب تک غائب ہے-

4- میسا بون کولیکٹر: اس نے 2001 سے 2005 کے درمیان گیارہ خواتین کو قتل کیا، سب کا تعلق سیکس یا ڈرگز سے تھا- تاحال نامعلوم ہے-

5- رینبو کِلر: اس برازیلین قاتل نے 2007 تا 2009 بارہ ہم جنس پرست مردوں کو ہلاک کیا-

6- جوہانسبرگ کا قاتل: جنوبی افریقہ کے اس قاتل نے 2010 تا 2013 کے عرصے میں نو ہم جنس پرستوں کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا-

یہ دیگ کے چند دانے ہیں، ایسے کئی ایک قاتل صرف اس صدی کے ابتدائی چند برسوں میں منظرعام پر آ چکے- بعض پکڑے گئے، زیادہ تر ابھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں- دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کا ریکارڈ بھی سیریل کلنگ کے معاملے میں زیادہ قابل رشک نہیں ہے- اوپر موجود تین قاتلوں کا تعلق امریکا، ایک کا برازیل اور ایک کا جنوبی افریقہ سے ہے- کل اسی لئے ایک دوست سے عرض کی تھی کہ اگر ہم نے چودہ پندرہ دن میں ایک سیریل کلر گرفتار کروا دیا ہے تو اسے کارنامہ سمجھا جائے- اس کی وارداتوں کا دورانیہ بھی ڈھائی سال کے عرصے پر محیط ہے مگر آپ اس کا موازنہ اس کے ہم عصروں سے کریں تو یہ بہت جلدی پکڑا گیا ہے-

سیریل کلرز جیسا کہ اوپر عرض کیا، خواتین اور بچوں کے خصوصی دشمن ہوتے ہیں- گزشتہ صدی کے بلکہ معلوم انسانی تاریخ کے چند بہت بڑے قاتل جن کا تعلق لاطینی امریکا سے تھا، میں سے کئی ایک کو صحیح طور یہ بھی یاد نہیں تھا کہ انہوں نے کتنے قتل کئے- ان میں سے ہر ایک نے سو سے زائد قتل کر رکھے- یینگ زنہائی کا کہنا تھا کہ اس کے زندہ رہنے کیلئے قتل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی عام انسان کیلئے آکسیجن- روس کا شاطر قاتل الیگزینڈر پشسکن جس نے 47 قتل کئے جبکہ اس کا ٹارگٹ شطرنج کے خانوں کے برابر یعنی 64 قتل کرنا تھا، کا کہنا تھا کہ وہ قتل کرتے ہوئے خود کو خدا محسوس کرتا ہے، کیونکہ وہ کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کر رہا ہوتا ہے- ان میں سے کئی ایک ذاتی زندگی میں اچھے خاصے مذہبی انسان ہوتے ہیں- تقریبا” سب میں ایک اور بات مشترک ہے کہ جب گرفتار ہو جائیں تو پولیس سے بھرپور تعاون کرتے ہیں- ہم پاکستانیوں کا واسطہ ابھی صرف جاوید اقبال اور عمران نقشبندی سے پڑا ہے- یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ابھی ہمیں صرف ان دو کا پتہ ہے، اور ان میں سے بھی ایک نے رضاکارانہ طور پر اپنے جرائم کا اعتراف کیا- ہمارے ہاں تفتیش کا جو معیار ہے، مختلف شہروں یا ایک ہی شہر کے مختلف تھانوں کی حدود میں ہونے والی اندھے قتل کی وارداتوں کا کوئی باہمی ربط تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا، ورنہ جانے کیا کچھ سامنے آ چکا ہوتا- صرف اپنے شہر کی دو مثالیں پیش کروں گا-

صرف گزشتہ سال 2017 کے ابتدائی چند ماہ میں راولپنڈی میں پانچ سینیٹری ورکرز کو قتل کر دیا گیا- تمام قتل مری روڈ پر ہوئے، تمام صبح فجر سے پہلے یا بعد میں، قاتل دو تھے ایک موٹر سائیکل چلا رہا ہوتا تھا دوسرا فائر کرتا تھا- پہلے دو مقتول اتفاق سے آپس میں رشتے دار تھے، پولیس نے اسے خاندانی دشمنی قرار دیا- تیسرے قتل کے بعد خاموش رہی، چوتھے قتل کے بعد انہیں سمجھ آئی کہ یہ کوئی سیریل کلر ہے، پانچویں قتل کے بعد قاتل غائب ہو گئے- مرنے والے سب مسیحی تھے، شدت پسند تنظیموں پر شبہ گیا، مگر قاتل تاحال آزاد ہیں-

Advertisements
julia rana solicitors london

چھ سات برس ہو گئے ٹی وی دیکھنا چھوڑے ہوئے، پانچ برس سے باقاعدگی سے اخبار پڑھنا بھی چھوڑ چکا- 2013 تک مجھے یاد ہے ہر پانچ یا چھ ماہ بعد راولپنڈی اسلام آباد کے کسی نواحی جنگل سے کسی خاتون کی لاش ملتی تھی- عمر پچیس سے تیس کے درمیان، لباس اور حلیے سے آسودہ حال یا ماڈرن، زیادہ تر کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا، بعض کو سر میں گولی مار کر- پولیس کا خیال تھا کہ قتل کہیں اور کر کے لاش جنگل میں پھینک دی جاتی ہے- کرائم نیوز میں تین چار سطری خبر بنتی اور بھلا دی جاتی- روات تا فیض آباد ایکسپریس وے اور بارہ کہو زیادہ تر لاشیں ان دو علاقوں سے ملتی تھیں- ایکسپریس وے پر سوسائٹیز کی بھرمار ہونے سے شاید یہ سلسلہ رک گیا، شاید جاری ہے- اگر کسی رپورٹر یا ریسرچر کو دلچسپی ہو تو گزشتہ دس بارہ سال کے اخبارات چھان لے یا تھانوں کی ایف آئی آرز دیکھ لے- میرا ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ یہ کوئی سیریل کلر ہے، مگر ایسے زیادہ تر اندھے قتل بند فائلوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں- ہمیں اس بات کو مل جل کر یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری بیٹی عاصمہ کی فائل بند نہ ہو، کل ہی ایک اور معصوم بچے کی لاش اسی حالت میں ملی ہے، اس کا قاتل بھی خدا کرے پکڑا جائے- ہمارے ملک کے مخصوص حالات میں کسی رینڈم کِلر کو پکڑنا بھی اتنا ہی دشوار ہے جتنا کسی سیریل کِلر کو- جہاں ہم سب بے رحمی سے تنقید کرتے ہیں وہیں ہمیں کامیابی پر پولیس کو سراہنا بھی چاہیے- ہم اپنے طور پر جو بھی اقدامات اٹھا لیں، جیسا کہ زینب بٹیا کے قتل کے بعد بحث چھڑی، ہمارے بچوں کو صرف اور صرف پولیس ہی ان بھیڑیوں کے چنگل میں جانے سے بچا سکتی ہے- اللہ پاک سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply