منو بھائی ، کچھ یادیں کچھ باتیں۔اظہر مشتاق

چند عشرے پہلے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہونا جہاں کبھی کبھی اخبار    آتا ہو اور اس کے پڑھنے پر پابندی نہ ہو کسی نعمت سے کم نہیں  سمجھا جاتا تھا، جب بھی گھر میں روزنامہ جنگ آتا ،  شہ سرخیوں کے علاوہ اندر والے صفحات پر کچھ لوگوں کی تصاویر کے ساتھ ” غیر سیاسی باتیں” یا   “روزنِ دیوار سے”     لکھا ہوتا تھا اسی طرح ان تصاویر کے ساتھ  عطاالحق قاسمی،  ارشاد احمد حقانی ،  عبدالقادر حسن اور نذیر  ناجی  جیسے نام  بھی لکھے ہوتے تھے، روزنامہ جنگ کے درمیان والے وہ صفحات ہمارے لئے اس دور میں غیر ضروری ہوتے تھے، روزنامہ جنگ کے  کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے صفحے پر ویسی ہی ایک تحریر چھپی ہوتی تھی ، عنوان تھا ”گریبان ” اور لکھنے والے کی تصویر کے نیچے ”منو بھائی” لکھا ہوتا تھا ۔ اکثر دیکھ کر حیرانی  ہوتی تھی کہ یہ کیسا نام ہے؟  مُنو بھائی۔۔۔۔۔!

وقت آگے بڑھا ہوش سنبھالا ، سکول  سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی پہنچے ، ملکی حالات، سیاست، مسائل کے بارے میں سمجھ بوجھ ہوئی تو پتا چلا کہ روزنامہ جنگ کے علاوہ  دوسرے اخبارات  کے وہ صفحات جنہیں ہم فضول  سمجھتے تھے  ، انہیں صفحات میں مسائل کو سمجھنے اور ان کے ممکنہ حل کے لئے رہنمائی موجود ہوتی ہے ،  وہ  صفحات  زیرِ مطالعہ آئے تو “گریبان ”  بھی پڑھنا شروع کیا ،  “گریبان ” کی زبان سادہ اور انداز بیان ذرا مختلف لگا، روایت سے ہٹ کر عام فہم زبان میں ایک مسئلے کی نشاندہی اور اس کا ممکنہ حل ، بعض اوقات گریبان  میں   منو بھائی وہ مسئلہ اٹھاتے جو تقریباً ہر قاری کو اپنا مسئلہ لگتا۔

یونیورسٹی میں داخلے کے بعد ، ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے شوق  ہوا کہ یونیورسٹی کے ادبی مجلے کی ادارتی ٹیم کا حصہ بننے کی کوشش کی جائے، کوشش کی  اور یونیورسٹی  انتظامیہ  کی طرف سے  ادبی مجلے کے مدیرِ اردو کی ذمہ داریاں سونپی گئیں ،   مختلف ادبی  اور شعبہ تعلیم سے منسلک حکومتی   شخصیات کے انٹرویوز  بھی مجلے کا جُزو  تھے۔ مجلے  کی انتظامیہ میں شامل  اساتذہ اور طلباء جب مختلف ناموں پر غور کر رہے تھے تو جھٹ سے میرے ذہن میں مُنو بھائی کا نام آیا، مجلے کے انچارج پروفیسر صاحب اور ناظم امورِ طلباء کے سامنے جب نام رکھے گئے تو انہوں نے بھی کوئی اعتراض کئے بغیر اجازت دے دی۔

روزنامہ جنگ کے توسط سے منو بھائی کے گھر کا نمبر ملا اور اُن سے انٹرویو کے لئے وقت مانگا، آج بھی منو بھائی کے الفاظ یاد ہیں کہ “میں کوئی اتنا بڑا انسان نہیں آپ میرا انٹرویو لے کر کیا کریں گے؟   بحرحال ایک صبح ہم منو بھائی کے بتائے گئے پتے پر لاہور پہنچے ، ٹیم میں لگ بھگ کوئی نو لوگ ہوئے ہوں گے، ہمیں خوش آمدید کہتے ہوئے بھی  منو بھائی نے کہا  “بھائی آپ اتنے زیادہ لوگ ایک عام انسان کا انٹرویو لینے آ گئے؟”

منو بھائی  دھیمے لہجے میں بات کرتے تھے، غیر رسمی گفتگو کے بعد جب  باقاعدہ انٹرویو شروع کیا تو منو بھائی نے اپنا تعارف یوں کرایا؛

” میرا نام منیر احمد ہے ، میں وزیرآباد میں پیدا ہوا ہوں، منو بھائی میرا قلمی نام ہے  جو مجھے احمد ندیم قاسمی صاحب نے دیا ہے، میری زبان میں لکنت کی وجہ سے میں بچپن میں ہکلا جاتا تھا اس لئے مجھے میرے ہم عصر تھتھا منیرا  بھی کہتے تھے”

ہم نے پاکستان میں ڈرامے کے کمرشل ہونے کی وجہ پوچھی  اور عرض کیا کہ کیا وجہ  ہے کہ پاکستانی ڈراموں کا وہ معیار نہیں رہا جو   اسی  اور نوے کی دہائی میں تھا؟

منو بھائی کا جواب بہت خوبصورت تھا، کہنے لگے؛

“اب بھی لوگ کمرشل ڈرامے دیکھتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انہیں بہت زیادہ پسند بھی کرتے ہیں ، اگر شہر میں کتے فضلہ کھانے لگ جائیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ فضلہ کتوں کی مرغوب غذا ہے اس کا مطلب ہے کہ کتوں کو کھانے کے لئے کچھ اور میسّر نہیں،  فلم ایکشن ہے اور ڈرامہ ری ایکشن ، دیوار گر جائے تو یہ ایک عمل ہے اور اس دیوار کو واپس کیسے اُٹھانا ہے یہ ردِعمل ہے، یہ ضروری نہیں کہ آج اچھا ڈرامہ لکھنے والے نہیں رہے مگر ڈراموں کو سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر  ڈراموں کو سپانسر کرنے والے سرمایہ دار لکھنے والے اور پروڈکشن ہاؤس پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہو کر ایسا ڈرامہ بنواتے ہیں جو کمرشل دور کے تقاضے کو پورا کر سکے ۔  پہلے  ادب  اور فن ایک قومی کام سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ  شاید کثیرالقومی کمپنیوں کے مرہونِ منت ہے”

ہم نے پوچھا کہ منو بھائی آپ صرف پنجابی شاعری ہی کیوں کرتے ہیں؟

منو بھائی نے جواب دیا، ” میں   نے اردو میں شاعری کرنے کی بہت کوشش کی  مگر مجھ سے نہیں ہوئی پھر ایک دن میں نے فیض صاحب سے پوچھا کہ مجھ سے اردو میں شاعری نہیں ہورہی تو انہوں نے پوچھا  کہ خواب کس زبان میں دیکھتے ہو؟ میں نے کہا ، پنجابی  میں ، تو فیض صاحب بولے تو پھر شاعری  بھی پنجابی میں کرو، اس دن سے لیکر آج تک میں نے اردو میں شعر کہنے کی کوشش نہیں کی اور میری پنجابی شاعری پر مجھے صدارتی ایوراڈ بھی ملا”۔

نظام ِ تعلیم پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب تک طبقاتی نظامِ تعلیم موجود ہے تب تک آپ  اس نظام میں بہتری کی توقع نہیں کر سکتے ،  طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے  سماج کی مختلف پرتوں کے لئے الگ الگ نظام تعلیم ہے اور سب سے نچلا طبقہ ایک قسم کے احساسِ محرومی سے دوچار ہے۔  کہنے لگے کم از کم حکومت کو تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لینے چاہیے۔   طلباء کے بارے میں بات کرتے ہوئے  کہا ، “میرا ماننا ہے کہ   ہم سے جو پچیس سال بعد میں پیدا ہوتا ہے ، وہ ہم سے پچیس سال چھوٹا نہیں بلکہ بڑا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس عمر میں ترقی یافتہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ان سب باتوں سے واقف ہوتا ہے  جن سے اس کی عمر میں ہم نہیں تھے، اس لئے تدریسی عمل کے دوران طلباء کے اچھوتے سوالات سے اساتذہ کو خائف نہیں ہونا چاہیے  اور انہیں اظہار رائے کی آزادی دینی چاہیے”

انٹرویو ختم ہونے کے بعد منو بھائی ہمیں الوداع کرنے گلی تک آئے ، ہم سب حیران تھے کہ وہ گلی میں چلتے پھرتے لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے۔  منو بھائی کے ساتھ پہلی خوشگوار ملاقات  زود اثر رہی اور اس کے بعد جب بھی لاہور    کا چکر لگا کوشش رہی کہ ان سے ملاقات کی جائے اور جب بھی ان کے گھر جانا ہوا   انہوں نے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔

ایک دفعہ  ایک دوست نے اصرار کیا کہ ا  سکی اردو شاعری پر منو بھائی سے تاثرات قلمبند کروائے جائیں ، میں مسودہ لیکر ان کے گھر پہنچا ، رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے مسودہ سامنے رکھتے ہوئے ان  سے گذارش کی کہ اس پر اپنے تاثرات قلمبند کیجئے، مسکرا کر بولے ،”ایک پنجابی شاعر  اردو شاعری کو کیسے پرکھ سکتا ہے، میں اگر اس پر اپنا تاثر دوں گا تو یہ اردو شاعری اور شاعر کے ساتھ ناانصافی ہوگی”۔ مجھے ان کی صاف گوئی پسند آئی، میں نے مسودہ واپس لیتے ہوئے شکریہ کہا تو کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ ایک اشتراکی معاشرے، منصوبہ بند معیشت  اور اداروں کو قومی دھارے میں لانے کے حق میں آواز بلند کرنے والے سیاسی کارکن اور دانشور تھے، ان کی شاعری عمومی سماجی رویوں سے اختلاف کی آواز ہے، وہ انسانی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لئے مشترکہ جدوجہد کے داعی تھے، وہ سچے ترقی پسند تھے جو یہاں تک کہتے تھے کہ اگر وہ وزیرآباد سا چھوٹا سا شہر چھوڑ کر لاہور آ بسے ہیں تو اپنے بیٹے کو واپس وزیرآباد واپس جانے کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ ان کا ماننا تھا کہ ترقی کرتے سماج کے ساتھ انسان کا ترقی کرنا نہایت ضروری ہے۔ ان کے لکھے گئے ڈراموں میں  عام انسان کے مسائل کی نشاندہی تھی  جس کوکمرشل  دور اور  سرمایہ دانہ نظام کا عفریت اب نگل چکا ہے۔ منو بھائی اب دوبارہ نہیں آئیں گے، وہ اپنا حصے کا کام کر کے چل دئیےَ۔۔۔

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply