پیپلز پارٹی کی اے پی سی کا فائدہ کیا ہوا

پیپلز پارٹی کی اے پی سی کا فائدہ کیا ہوا
طاہر یا سین طاہر
سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات کا تعین اپنے تھینک ٹینک سے کرتی ہیں۔تھینک ٹینک نہ تو ذاتی رشتہ دار وں میں سے ہوتے ہیں نہ ہی فیوڈلز میں سے۔تھینک ٹینک میں ایسے بھی نہیں ہوتے جن کا سیاسی مفاد کرپشن اور ٹھیکیداروں سے تعلقات سے تال میل کا رواج ہوتا ہے۔ یہ مگر مہذب دنیا میں ہوتا ہو گا۔تیسری دنیا کی سیاسیی جماعتیں بالخصوص پاکستان میں اس کے بر عکس ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات،ون مین شو سے ترتیب دیتی ہیں۔ پھر ان ترجیحات کی نوک پلک سنوار کر شہ کے مصاحب قصائد کاری کر کے اپنی اداکاری و کردار نگاری کی دادا وصول کرتے ہیں۔کیا یہ سچ نہیں کہ اگر ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے اندر صحیح معنوں میں جمہوری رویوں کو پروان چڑھنے دیا جاتا تو آج سیاسی اور جمہوری طور ہم بہت مضبوط ہوتے؟ہمیں آئے روز یہ طعنہ نہ سننا پڑتا کہ سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پہ نہیں؟دنیا کے کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی جمہوریتوں کی بقا کے لیے عوام کو جمہوریت کا فریب دیا جاتا ہو؟پیپلز پارٹی کبھی پاکستان کی مقبول ترین جماعت تھی۔
اسےمزدوروں،طالبعلموں،دانش وروں،وکلا اورعام آدمی کی جماعت و ترجمان سمجھا جاتا تھا۔بہت سے اختلافات کے باوجود عام آدمی اور جیالا اپنی قیادت اور پارٹی کے نام پہ مر مٹتا تھا۔ہاں اس وقت مگر قیادت ذوالفقار علی بھٹو اور ازاں بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ تھی۔باپ بیٹی کے قریبی ساتھیوں میں جاگیرداروں سمیت البتہ ذہین ترین اور صاحب الرائے افراد موجود تھے۔محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی ان کے شوہر آصف علی زرداری کے ہاتھ آئی تو انھوں نے پارٹی کی بقا اپنی صدارت میں ہی سمجھی اور اپنی صدارت کی بقا پارٹی کی بقا سمجھی۔جمہوریت بہترین انتقام ہے،کے جملے کا ا س قدر انھوں نے تکرارا کیا کہ محسوس ہونے لگا کہ پیپلز پارٹی یہ انتقام عوام سے جمہوریت کے ذریعے لے رہی ہے۔ہمیں اس مر میں کلام نہیں کہ پیپلز پارٹی نے مشکل وقت میں اقتدار سنبھالا،دہشت گردی عروج پہ تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ طالبان مارگلہ کی پہاڑیوں کےا س طرف پہنچ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ہی آپریشن سوات شروع ہوا۔ مگر یہ پیپلز پارٹی ہی کی قیادت تھی جس نے کالعدم شریعت محمدی والے صوفی محمد سے امن کے نام پر معاہدے بھی کیے۔ بوجہ یہ معاہدے بعد ازاں ختم اور آپریشن شروع کیا گیا۔
یعنی لبرل سمجھی جانے والی سیاسی پارٹی کی ترجیحات بھی اپنے اتحادی مولویوں کی خوشنودی اور نام نہاد خاندانی جمہوریت کی بقا تھی۔
عام آدمی کو اس سے سروکار نہیں کہ پیپلز پارٹی نے اپنے عہد میں 58/2-Bختم کیا،صوبائی اختیارات میں اضافہ کیا، اٹھارھویں، انیسویں ترمیم کی۔جمہوریت کی مضبوطی کے لیے صدر صاحب نے تقاریر کیں اور این ایف سی ایوارڈ بھی منظور کیا۔عام آدمی کا یہ مسئلہ براہ راست نہیں۔ اس کا مسئلہ روزی،روٹی، تعلیم اور صحت کی سہولیات ہیں۔پیپلز پارٹی کے دور میں بجلی کے بحران نے وہ سر اٹھایا کہ اس ملک کی دو نسلیں اسے کبھی فراموش نہ کر سکیں گی۔ سی این جی کی ہفتہ میں دو روز لوڈ شیڈنگ،مہنگائی اور مفاہمت کے نام پر مقتدر طبقات کے مفادات کا تحفظ عام آدمی کی غصے میں اضافہ کرتا گیا۔ کرپشن کہانیں اس کے سوا ہیں۔پیپلز پارٹی کی قیادت اور ہمدرد، یہ دلیل دیتے ہیں کہ پارٹی کو سپریم کورٹ نے کام نہیں کرنے دیا اور چیف ایگزیکٹو کو آئے روز عدالت طلب کر لیا جاتا تھا حتی کہ پیپلز پارٹی کے ایک وزیر اعظم کو عدالت نے گھر بھی بھیج دیا۔یہ بجا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ پارٹی نے متبادل پالیسی کیا دی؟ اپنی غلطیوں سے کیا سیکھا؟2013کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کوئی بڑا عوامی جلسہ نہ کر سکی۔ اس کی وجوہات بڑی واضح ہیں۔ دہشت گردوں کی جانب سے پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے ین اپی کو دھمکیاں تھیں، بلکہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو ایک انتخابی کارنر میٹنگ کے بعد اغوا بھی کر لیا گیا تھا۔ اس واقعے نے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت ، امیدواروں اور ووٹرز کو مزید خوف زدہ کیا۔
2013کے انتخابات میں نون لیگ کی حکومت آئی۔ پیپلز پارٹی نے مگر اپنی غلطیوں سے کیا سیکھا؟ اس پارٹی کے پاس کم و بیش ابھی تک چار سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر عملاً وہاں رینجرز معاملات چلا رہی ہے۔پیپلز پارٹی نے پانامہ ایشو پر بھی کوئی بڑا موقف نہیں لیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ پارٹی کی سیاسی حرکیات اور اس کی روایتی مزاحمتی سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کی لیکن سابق صدر کی پاکستان آمد کے بعد یہ کوشش بھی دم توڑ چکی ہے۔فوجی عدالتوں کی توسیع بارے پیپلز پارٹی اپنا موقف دے کر اپنی حیثیت بحال کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں فوجی عدالتیں ہونی چاہییں یا نہیں؟ یہ ایک بحث طلب موضوع ہے اور اگر ملک حالت جنگ میں ہو اور دہشت گردوں کے سہولت کار پارلیمان تک منتخب ہو کر آ چکے ہوں تو پھر بے شک مخصوص حالات میں مخصوص ترین فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔
میرا خیال ہے فوجی عدالتیں بنا کر فوری ٹرائل کی ضرورت ہے۔پیپلز پارٹی اے پی سی بلا کر ،اس پر بحث کر کے کوئی اعلامیہ جاری کرنا چاہتی تھی، مگر حیرت انگیز طور پہ پیپلز پارٹی آل پارٹیز کانفرنس کرنے میں ناکام رہی۔کیوں؟ اس لیے کہ پیپلز پارٹی پہ سیاسی جماعتیں بوجہ اعتماد نہیں کر رہی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ پارٹی کو آنے والے انتخابات سے قبل اپنے تھینک ٹینک سے تین نوع کا کام لینا چاہیے۔ایک یہ کہ ہماری بات سننے اور ہمارے ساتھ بیٹھنے کو کوئی آمادہ کیوں نہیں؟قیادت پر لگے کرپشن اور کرپشن کے پھیلاو کے داغ کو کیسے دھویا جائے؟ اور یہ کہ عام آدمی کا اعتماد پھر سے پارٹی کی قیادت اور کور کمیٹی پہ کیسے بحال کیا جائے کہ آنے والے الیکشن میں پارٹی اپنے پرانے ورکرز کی مدد سے نئے ووٹرز کو بھی آمادہ کر سکے،اور نئے منشور کی ترتیب۔روٹی،کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضرورت تو ہے مگر اب اس نعرے میں کشش نہیں رہی۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply