مردان یونیورسٹی میں طالبعلم کا قتل قابل مذمت واقعہ

مردان یونیورسٹی میں طالبعلم کا قتل قابل مذمت واقعہ
طاہر یاسین طاہر
تعلیمی ادارے خونخوار درندوں کی پرورش کیسے کر سکتے ہیں؟تعلیمی نصاب ہی نہیں،جامعات کے ماحول اور رحجانات کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔علم انسانوں کو دلیل سے بات کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ہمارے ہاں مگر اپنی بات منوانے کا رحجان مستحکم ہے۔روزمرہ زندگی میں ہمارے اردگرد ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔دنیا کے تمام مذاہب کی مشترک تعلیمات میں سے سماج کی اخلاقی تربیت ایک اہم ترین ہدف ہے۔اسلام اپنے نام سے ہی سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔مگر حیف ہے اسلام کے نام لیواوں پر جو کسی پر ,کسی بھی وقت توہین ِمذہب و رسالت کا الزام لگا کر اس کی جان لے لیتے ہیں۔یہ فکر خالصتاً طالبانی اور داعشی فہمِ اسلام کی ترجمان ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبہ کے تشدد سے ایک 23 سالہ طالب علم کی موت واقع ہوگئی ہےجبکہ ایک طالب علم زخمی ہوگیا۔ڈی آئی جی مردان عالم شنواری نے میڈیا کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا،اور اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے مذکورہ طالب علم پر تشدد کیا، اس دوران فائرنگ بھی کی گئی، تشدد کے نتیجے میں طالب علم ہلاک ہوگیا۔ یا د رہے کہ واقعے سے قبل مذکورہ دونوں طالب علموں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور نہ ہی پولیس ان دونوں کے خلاف ،توہین کے الزامات کی تحقیقات کررہی تھی۔
ہلاک ہونے والا طالب علم شعبہ ابلاغ عامہ میں چھٹے سیمسٹر کا طالب علم تھا۔دوسری جانب اسسٹنٹ رجسٹرار کے مطابق واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ عبدالولی خان یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔ایک عینی شاہد نے میڈیا کو بتایا کہ مشعال اور عبداللہ جو کہ ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے، ان دونوں پر فیس بک پر احمدی فرقے کا پرچار کرنے کا الزام عائد کیا جارہا تھا۔عینی شاہد کے مطابق مشتعل طلبہ نے ہاسٹل کے کمرے میں عبداللہ کو گھیرے میں لیا اور اسے زبردستی قرآنی آیات پڑھائیں اور اس کے بعد اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور عبداللہ کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا ،جس کے بعد مشتعل ہجوم نے مشعال کی تلاش شروع کردی جو کہ اس وقت ہاسٹل میں ہی موجود تھا۔ ہجوم نے مشعال کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گولی بھی ماری جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔
اس واقعے کی سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشعال زمین پر بے حس پڑا ہوا ہے اس کے ارد گرد لوگ کھڑے ہیں جبکہ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی نظر آرہے ہیں اور لوگ اسے لاتیں بھی مار رہے ہیں۔ویڈیو کے آخر میں ایک نامعلوم شخص اس کے کپڑے بھی اتار دیتا ہے۔ ہلاک ہونے والے طالبعلم مشعال کے ایک استادنے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ ،وہ کافی پرجوش اور ذہین طالب علم تھا، ہمیشہ ملک کے سیاسی نظام کی شکایت کرتا تھا تاہم میں نے کبھی اسے مذہب کے حوالے سے کوئی متنازع بات کرتے نہیں سنا۔
ایک استاد سے بہتر اپنے طالب علم کے خیالات کو کون جان سکتا ہے؟مشعال کا قتل ایک فرد کا نہیں بلکہ ان تمام انسانوں کا قتل ہے جو اپنی مرضی اور سوچ سے زندہ رہنا چاہتے ہیں، بد قسمتی سے ہم ایسے سماج کا حصہ ہیں جہاں ہر بندہ فتویٰ اپنی جیب میں لیے پھرتا ہے۔فرض کریں کہ مشعال اور عبد اللہ کسی گستاخانہ پیج کے ایڈمن تھے تو کیا انھیں سزا دینے کا یہی طریقہ باقی رہ گیا تھا؟ کیا ملک میں عدالتی نظام موجود نہیں؟کیا کسی نام نہاد دین دار اور حوروں کے متوالے نے مشعال کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی؟یا کم از کم کیا کسی نے یونیورسٹی انتظامیہ کو اس حوالے سے آگاہ کیا تھا؟تشدد ہمارے سماج کا مونو گرام بن چکا ہے۔اللہ اکبر اور سر تن سے جدا سر تن سے جدا،کے نعروں میں بربریت نہ تو اسلامی طریقہ ہےاورنہ ہی اسلام کسی کی لاش کی بے حرمتی کی اجازت دیتا ہے۔
ہمیں اس واقعے کو چند ماہ ادھر کی سرگرمیوں سے جوڑ کر بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔جب بھینسا،اور روشنی پیجز وغیرہ کے ایڈمنز کے اغوا اور ان کی سرگرمیوں کا چرچا ہوا تھا۔اسلام آباد کی ایک عدالت نے تو فیس بک کو بند کرنے کی بھی تیاریاں پکڑ لی تھیں۔ساری جزئیات کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے تو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ کس طرح سماج میں ہیجان انگیزی کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی گستاخ ہے یا توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے تو اس کے لیے متعلقہ فورم پر شکایت ہی مہذب اور بہترین طریقہ ہے۔جہاں ملزم کو صفائی کا موقع بھی ملے۔جو طریقہ مردان کی جامعہ میں اپنایا گیا یہ سرا سر درندگی ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔علمائے حق کو اس حوالے سے سماج کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply