سابق صدر اوربلاول بھٹو کا الیکشن لڑنے کا اعلان

سابق صدر اوربلاول بھٹو کا الیکشن لڑنے کا اعلان
طاہر یاسین طاہر
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری ڈیڑھ سال کے بعد وطن واپس آئے تو خیال یہی تھا کہ وہ اپنی مفاہمتی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے نون لیگ کی حکومت کے لیے زیادہ خطرہ نہیں بنیں گے، بلکہ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بلاول بھٹو نون لیکی حکومت کے خلاف پانامہ اور دیگر ایشوز پہ سیاسی درجہ حرارت جہاں لے گئے ہیں آصف علی زرداری وہاں سے سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔سابق صدر نے وطن واپس لوٹتے ہی جو تقریر کی اس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نمایاں تھا جبکہ انھوں نے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کی بھی تعریف کی۔ آصف علی زرداری نے اگرچہ وطن واپسی پہ حکومت پر تنقید بھی کی تھی اور سی پیک کا حوالہ بھی دیا تھا مگر اس تنقید کو سیاسی تجزیہ کار کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہے تھے۔آصف علی زردای اور بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر عوام کو سرپرائز دیں گے۔اس بات کا بارہا تذکرہ کیا گیا کہ اگر 27دسمبر تک،حکومت نے بلاول بھٹو کے چار مطالبات تسلیم نہ کیے تو پھر پیپلز پارٹی لانگ مارچ کرے گی،اور بھر پور احتجاج کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دے گی۔
یہ امر واقعی ہے کہ سابق صدر کا سرپرائز سننے کو ہر ایک بے تاب تھا،مگر جب وہ تقریر کرنے آئے تو ان ہی روایتی باتوں سے آگے نہ بڑھ سکے، یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلاول بھٹو نے پارٹی میں جو تھوڑی بہت جان ڈالی تھی سابق صدر اس سے آگے کام نہ بڑھا سکے۔ انھوں نے اعلان کیا تو صرف اتنا کہ وہ اور بلاول بھٹو لاڑکانہ اور نوب شاہ کی نشست سے الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں آ رہے ہیں۔وہ بندہ جو ملک کو صدر رہا ہو اور ایک بڑی جمہوری پارٹی کا سربراہ بھی ہو وہ کیوں کر پارلیمنٹمیں ایم این اے بن کر آ رہا ہے؟حالانکہ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی، اس دعویٰ میں اگر یقین بھی شامل ہوتا تو سابق صدر کبھی بھی ایم این اے بننے کو ترجیح نہ دیتے بلکہ بلاول کی پیٹھ ٹھونک کر اسے مزید جارحیت پہ ابھارتے اور اگلے الیکشن میںحکومت بنا کر پھر سے صدر بن جاتے۔اگرچہ بلاول بھٹو کی حد تک یہ بات قابل فہم ہے کہ نئے الیکشن سے پہلے کوئی سال سوا سال کا عرصہ ان کی پارلیمانی تربیت کو عرصہ شمار کیا جا سکتا ہے۔اب عوامی مسائل پر توجہ کے بجائے پیپلز پارٹی کی اولین توجہ اپنے چیئرمین اور شریک چیئرمین کو اسمبلی پہنچانے پر ہو گی۔جب باپ بیٹا اسمبلی پہنچیں گے تو اگلا مرحلہ اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کا ہو گا اور یقین ہے کہ بلاول اپوزیشن لیڈر بن کر پارلیمانی سیاست کی تربیت حاصل کریں گے۔
بے شک جمہوری پارٹیوں کا یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ ان کے سربراہان یا جسے بھی وہ ٹکٹ دیں اسے منتخب کرا کے پارلیمان میں بھیجیں۔ہم مگر سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے اپنے چار مطالبات کی عدم منظوری کے بعد جس احتجاج کا ذکر کیا تھا اس کی بابت واضح اعلان نہ سن کر عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔اگرچہ پی ٹی آئی بھی ایک طویل دھرنے سمیت کئی چھوٹے بڑے احتجاج اور لانگ مارچ کر چکی ہے ۔ سابق صدر نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ ہم پارلیمنٹ میں کرسی کھینچنے کے لیے نہیں آ رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سابق صدر اپنے قریبی ساتھیوں کی گرفتاری سے پریشان ہیں اور انھیں یقین ہے کہ انھیں بھی گرفتار کر لیا جائے گا، چنانچہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ کا رخ کر رہے ہیں۔وجہ خواہ کوئی بھی ہو، ہم پوری دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ سابق صدر کو کم از کم ایک ایسے مرحلے پر اپنیذات تک الیکشن لڑنے کا اعلان نہیںکرنا چاہیے تھا،جب پانامہ لیکس، نیوز لیکس اور دیگر کئی سکینڈلز میں وفاقی حکومت پھنسی ہوئی ہے۔ ایسے مرحلے پر پارلیمان کا رخ کرنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کے اس رویے کو رد کرنا جو انھوں نے پارلیمان کے حوالے سے اختیار کیا ہوا ہے۔سابق صدر جمہورکو ہی بہترین انتقام کہتے ہیں۔بے شک جمہوریت بہترین نظام ہے مگر ہم نے دیکھا کہ اس کے ثمرات حکمران طبقات تک ہی محدود ہیں،چنانچہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے اور وفاق میں ان کی پارٹی کی حکومت تھی ،تو انھوں نے عوامی فلاح و ترقی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے تھے؟ اگر وہ ملک کا صدر بن کر کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام نہ دے سکے تو ایک ایم این اے بن کر کیا کر لیں گے؟
یہ امر واقعی ہے کہ حکومت نون لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی،یا پی ٹی آئی کی آ جائے، عوام کی ترجیح اشیائے ضروریہ کی کم قیمتیں،طبی و تعلیمی سہولیات اور عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ بد قسمتی سے کسی بھی جمہوری یا آمرانہ حکومت کی یہ ترجیح نہیں رہی۔پیپلز پارٹی کے عدلیہ اور اسٹیبلسمنٹ سے شکوے بجا اور درست ہیں ،یہ بھی درست ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں دونوں منتخب وزرائے اعظم عدالت عظمیٰ حاضری دیتے تھے، یعنی چیف ایگزیکٹوز کو ایک چیف جسٹس کانہیں کرنے دے رہا تھا۔ پیپلز پارٹی اس الزام کا بہت تکرار کرتی ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ پارٹی نے حکومت ملنے کے بعد وہ اقدامات نہیں اٹھائے جس سے عام آدمی کی زندگی میں آسانی آئے،یہی کام موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین سے گذارش کرتےہیں کہ آپ بھلے الیکشن لڑیں اور اسمبلی میں آئیں لیکن،خدا را اب پارٹی کے منشور پر بھی ایک نظر ڈال لیں اور سندھ ہی حد تک ہی سہی، مگر لوگوں کی بنیادی ضروت روٹی ،کپڑا اور مکان کو ضرور پورا کریں۔ اگر آپ یہ نہ کر سکے تو آپ پارلیمان میں بیٹھیں یا صدر ہاوس میں۔لوگوں کو اس سے دلچسپی نہیں ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply