طیارہ حادثے کی رپورٹ میں تشویشناک انکشافات

طیارہ حادثے کی رپورٹ میں تشویشناک انکشافات
طاہر یاسین طاہر
گزشتہ سال کے آخری ماہ میں پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کو ایبٹ کے نوح حویلیاں میں فضائی حادثہ پیش آیا تھا جس میں پچاس کے قریب افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ جن میں معروف مذہبی شخصیت جنید جمشید اور چترال کے ایک اعلیٰ سول آفیسر اسامہ چیمہ بھی شامل تھے۔حادثے کے بعد جو خبریں میڈیا میں آئیں ان کے مطابق طیارے کا ایک انجن خراب تھا،اور طیارے نے انتہائی بلندی سے یکدم ڈائیو کیا اور پہاڑیوں سے جا ٹکرایا۔یہ خبریں بھی میڈیا میں شائع ہوئیں کہ پائلٹ جنجوعہ کی مہارت سے حویلیاں کی سول آبادی کسی بڑے حادثے سے بچ گئی اور پائلٹ جہاز کو آبادی سے پہاڑیسلسلے کی طرف لے گیا۔کہا جاتا رہا کہ پائلٹ نے "مے ڈے"کی کال بھی دی تھی۔طیارے کو جب حادثہ پیش آیا تو آگ لگ گئی جس کے باعث لاشیں جل گئیں۔اسلام آباد کےپمز ہسپتال میں مسافروں کے لواحقین کے ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے بعد لاشیں ان کے حوالے کی گئیں۔پورا ملک سوگ کی کیفیت میں تھا۔
پی آئی اے کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا،مگر جیسا کہ ہمارے ہاں میڈیائی تصور ہے،کہ سنسنی پھیلا کر بات کی جاتی ہے۔ اس حادثے کے تکنیکی پہلووں پر کم بات کی گئی۔البتہ جنید جمشید کی شہادت کو زیادہ کوریج ملی اور اس کے بعد پائلٹ کی مہارت اور ویڈیو بنانے کے شوق کی خوب پذیرائی کی گئی۔اے ٹی آر طیاروں کی سفری صلاحیت بھی کہیں کہیں زیر بحث آئی۔کچھ تجزیہ کاروں اور رپورٹرز نے یہ خبر بھی دی کہ اے ٹی آر طیارے گراونڈ ہو چکے تھے،مگر بوجہ انھیں فضا میں اڑان بھرنے کے لیے فٹ قرار دیا گیا۔
یہ اور ایسی کئی باتیں ہوتی رہیں،یہاں تک کہ پی آئی آے کی انتظامیہ نے اندرون ملک ایک پرواز سے قبل باقاعدہ کالے بکروں کا صدقہ بھی دیا،جس کی انکوائری بہر حال ابھی چل رہی ہے کہ کیسے انتہائی سیکیورٹی ایرمیں چھری اور بکرا پہنچا دیے گئے۔ابتدائی طور پہ بہر حال حادثے کی وجوہات کے بارے کچھ نہ کہا گیا بلکہ یہ بات کہہ کر مطمئن کیا جاتا رہا کہ اسی اے ٹی آر طیارے میں حادثے سے ایک ہفتہ قبل وزیر اعظم پاکستان نے گوادر کا سفر کیا تھا۔طیارے کے پائلٹ جنجوعہ کو بھی پہاڑی علاقوں کا ماہر پائلٹ قرار دیا جا رہا تھا۔البتہ حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے طیارے کے بلیک باکس کی رپورٹ کا انتظار تھا۔
گذشتہ سے پیوستہ روز سیکرٹری سول ایوی ایشن نے انکشاف کیا ہے کہ حویلیاں میں حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کا انجن ٹھیک تھا لیکن اس نے لینڈنگ کی کوشش نہیں کی جب کہ حادثے سے ایک ہفتے قبل وزیراعظم بھی اسی طیارے سے گوادر گئے تھے۔سیکرٹری سول ایوی ایشن عرفان الہٰی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے حادثے سے متعلق بتایا کہ حویلیاں حادثے کے شکار طیارے کے بلیک باکس کی رپورٹ موصول ہو گئی ہے جس کے مطابق چترال سے ٹیک آف کرتے وقت طیارے کے دونوں انجن 100 فیصد ٹھیک تھے تاہم 4 بجکر 12 منٹ پر پائلٹ نے پہلی کال کی جس کے بعد 4 بجکر 17 منٹ پر پائلٹ نے آخری کال کی۔ سیکرٹری سول ایوی ایشن کے مطابق پہلی کال میں پائلٹ کی آواز بالکل پرسکون تھی لیکن 4 بجکر 17 منٹ پر طیارہ جنوب کی بجائے مشرق کی طرف مڑگیا۔
سیکرٹری سول ایوی ایشن نے بتایا کہ بلیک باکس کے مطابق جہاز نے لینڈنگ کی کوئی کوشش ہی نہیں کی تھی تاہم تحقیقات کی جارہی ہیں کہ ایک انجن ٹھیک ہونے کے باوجود جہاز حادثے کا شکار کیسے ہوا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حویلیاں حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں وزیراعظم نوازشریف حادثے سے ایک ہفتے قبل اسلام آباد سے گوادر گئے تھے۔یہ اہم انکشاف بھی ہوا ہے کہ حادثے کے شکار طیارے کے سینئیر پائلٹ علاقے کی ویڈیو بنانے میں مصروف رہے جبکہ سیکنڈ آفیسر نے کسی موقع پر بھی چیک لسٹ نہیں سنبھالی اور SOPsپر عمل نہیں کرایا۔جبکہ سیکنڈ آفیسر کی جگہ ایئر ہوسٹس کنٹرول ٹاور سے رابطہ کر رہی تھی۔حادثے سے قبل ایئر ہوسٹس نے پی آئی اے دفتر میں مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر لائن مصروف تھی۔واضح رہے کہ 7 دسمبر کو چترال سے اسلام آباد جانے والا طیارہ حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔
یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ پائلٹ طیارے کا کنٹرول سنبھالنے کے بجائے قدرتی نظاروں کی عکس بندی میں مصروف تھا اور سیکنڈ آفیسر نے بھی چیک لسٹ نہیں سنبھالی۔یہ غیر ذمہ داری اور پیشہ ورانہ بد دیانتی کی انتہا ہے۔طیارہ اڑانا موٹر سائیکل چلانے سے مختلف کام ہے۔اگر پائلٹس اس طرح کی غیر ذمہ داری اک مظاہرہ کرنے لگ گئے تو آئے روز کے حادثات سے بچنا ممکن نہ رہے گا۔ پی آئی اے پہلے ہی غیر محفوظ ایئر لائن تصور کی جاتی ہے۔ ہم یہاں اس بات کی وضاحت کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ اگر واقعی بلیک باکس کی رپورٹ وہی ہے جس کی بابت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی گئی تو یہ نہ صرف پائلٹ اور اس کی ٹیم کی جانب سے پیشہ ورانہ بد دیانتی ہے بلکہ انتظامیہ کی بھی شدید نا اہلی ہے۔طیارے میں سینکڑوں مسافر سوار ہوتے ہیں،اور ایسے حادثات کو محض فنی یا موسمی خرابی قرار دے کر بھلایا نہیں جا سکتا۔سینکڑوں خاندانوں کے مستقبل کو اگر کوئی پائلٹ یوں اپنے ویڈیو شوق کی بھینٹ چڑھا دے تو اس کی ذمہ بہر حال انتظامیہ بھی ہوتی ہے جو ریکارڈ چیک نہیں کر رہی ہوتی۔ واقعی مذکورہ حادثہ پوری قوم کو سوگوار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیچھے کئی الجھتی گھتیاں بھی چھوڑ گیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ پی آئی اے اپنے پائلٹس کے لیے دوران پرواز قواعد و ضوابط پہ نظر ثانی کرے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply