فیض آباد دھرنااور حکومتی بد حواسی۔۔۔طاہر یاسین طاہر

بلاشبہ ملک گذشتہ تین دنوں سے ہیجانی و اضطرابی کیفیت میں ہے اور بے شک حکومت نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آئی۔فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے جس طرح کا غیر منظم اور غیر پیشہ ورانہ آپریشن کیا گیا اس کی مثال شاید ملکی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔دھرنے والوں کا بڑا سادہ مطالبہ تھا اوربالکل دو جمع دو چار کی طرح تھا، کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے چونکہ آئین میں ختم نبوت کے حوالے سے شق میں تبدیلی کی، چنانچہ ان کا یہ عمل قادیانیت نوازہے، اس لیے ان کو مستعفی ہونا چاہیے اور حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔ یہ وہی مطالبہ ہے جو سب سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب کر چکے ہیں،مگر بوجہ وفاقی حکومت نے نہ تو زاہد حامد کو مستعفی ہو نے کے لیے کہا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی اقدامات اٹھائے بلکہ پہلے تو حکومت نے تسلیم ہی نہیں کیا تھا کہ آئین میں مذکورہ حوالے سے کوئی ترمیم ہوئی ہے۔ ازاں بعد حکومت نے کہا کہ ترمیم واپس لے لی گئی ہے، اور راجا ظفر الحق کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو اس بات کا پتا چلائے گی کہ ایسا کیوں کر ہوا۔
بلاشبہ اس ملک میں کمیٹیوں اور کمیشنوں کے نتائج اور رپورٹس کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ کیونکہ کمیشن یا کمیٹی معاملے کو دبانے کے لیے بنا دی جاتی ہے،یہ ایک عمومی رویہ ہے۔مگر اس بار مذہبی طبقہ بالخصوص تحریک لبیک یا رسولؐ  اللہ کا۔اس جماعت نے فیض آباد میں طویل دھرنا دیا اور عملاً راولپنڈی اور اسلام آباد کا زمینی رابطہ اگر منقطع نہ ہوا تو لازمی طور پر مشکل ترین ضرور ہو گیا تھا۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی اور ہائیکورٹ نے آرڈ جاری کیاکہ دھرنا مظاہرین کو اٹھایا جائے۔اس حکم کے بعد حکومت حرکت میں آئی اور کئی علما و گدی نشینوں کو دھرنا ختم کرانے کے لیے مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا مگر دھرنا والوں اور علما و گدی نشینوں کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے۔حکومت نے ہفتہ کی صبح آپریشن کا آغاز کیا،اور یہ آپریشن نہ صرف ناکام ہوا بلکہ اس کے ردعمل میں پورے ملک میں دھرنے شروع ہو گئے،حکومتی وزرا کے گھروں پر حملے ہوئے ،اور حکومت عملاً مفلوج ہو کر رہ گئی۔آخری حربے کے طور حکومت نے فوج طلب کی، مگر فوج نے دھرنے والوں کو بزور طاقت اٹھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ فوج اپنے ہم وطنوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرے گی، آرمی چیف نے وزیر اعظم کو بہترین مشورہ دیا اور کہا کہ فوج کی تعیناتی آخری آپشن ہونا چاہیے۔
القصہ فوج کی کاوشوں سے مذاکرات ہوئے اور کامیاب ہو گئے۔زاہد حامد نے استعفیٰ دے دیا جسے وزیر اعظم نے منظور کر لیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں فوج نے بصیرت کا مظاہرہ کیا اور ملک کو ایک بڑے بحران اور بے شک خانہ جنگی سے بچا لیا۔اگرچہ حکومت نے اپنی نا اہلی یا شاطرانہ چالوں کے سبب پوری کوشش کی کہ دھرنے والے اور فوج آمنے سامنے آجائے مگر الحمد اللہ ایسا کچھ نہ ہوا۔اہم سوال مگر یہ ہے کہ جب فوج نے ثالث کا کردار ادا کیا ہے تواس پہ اعتراض کیوں؟فوج پاکستان کی ہے اور فوج نے جو کام کیا وہ ملکی مفاد میں ہے،لہٰذا اس پہ اعتراضات اور دانشوری کی پھونکیں مارنا سمجھ سے بالاتر ہے۔یہی دو چار سطری دانشور فوج پہ اس وقت بھی تنقید کرتے اگر فوج طاقت کا استعمال کرتی تو۔جو لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ لال مسجد آپریشن تو کر لیا گیا مگر فیض آباد آپریشن کیوں نہ کیا فوج نے، وہ لوگ صرف اس ایک نکتے پہ غور فرما لیں کہ لال مسجد میں مسلح مزاحمت ہو رہی تھی وہ باقاعدہ قلعہ بند تھے اور کلاشنکوف بردار نام نہاد” مجاہدین” مسجد کی چھت پہ مورچہ زن تھےجبکہ فیض آباد والوں کے پاس پتھروں اور چند لاٹھیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔
ایک دوسرا سوال یہ بھی اہم ہے کہ زاہد حامد مبینہ طور پر جب بہت پہلے استعفی دینے پہ تیار تھے تو ان سے استعفی کیوں نہ لیا گیا؟ اور وہ کون ہے جس نے زاہد حامد کو استعفیٰ نہ دینے کا کہا تھا۔زاہد حامد اگر اس ملک کے لیے اس قدر ہی ناگزیر شخص تھا تو اس نازک مرحلے پر اس سے استعفیٰ کیوں لیا گیا؟دراصل حکومت اپنی طاقت، مینڈیٹ اور سیاسی بصیرت کھو چکی ہے اور سوائے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے اس کابینہ کےپاس کچھ نہیں۔ حکومتیں اداروں اوربہتر فیصلہ سازی و منصوبہ بندی سے چلتی ہیں نہ کہ بڑھکوں سے۔اللہ کا شکر کہ ملک کسی بڑے حادثے یا خانہ جنگی سے بچ گیا ہے۔ملک کو خانہ جنگی سے بچانےمیں  جس ادارے کا جتنا کردار ہے اس کردار کو بصد تعظیم تسلیم کرنا چاہیے،کہ یہی محب وطن ہونی کی نشانی ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply