ڈان لیکس ،وزیر اعظم کے نوٹیفکیشن پر فوج کا ٹویٹ

ڈان لیکس ،وزیر اعظم کے نوٹیفکیشن پر فوج کا ٹویٹ
طاہر یاسین طاہر
ہنگامہ خیزی کا موسم ہے،وجوھات مختلف ہیں۔ دہشت گردوں کے ترجمان احسان اللہ احسان کا اعترافی ویڈیو بیان،پھر ایک چینل کے لیے اس کا انٹرویو اور نشر ہونے سے قبل اس انٹرویو کی تشہیر،اور ازاں بعد اس انٹرویو کی اشاعت پر پیمرا کی پابندی ،دہشت گردی کے شکار ملک میں اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔پاناما لیکس پر عدالتی فیصلہ،پھر اس فیصلے کے مندرجات،دو معزز ججز صاحبان کا اختلافی نوٹ اور جے آئی ٹی کی تشکیل،اور اس کی ہیئت میں شامل اداروں کی ترکیب،ہی یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ اداروں پر بد اعتمادی کس درجہ بڑھ چکی ہے۔اور سچ بات تو یہی ہے کہ یہ بد اعتمادی کچھ غلط بھی نہیں۔ڈان لیکس میں بے شک پاک فوج کو کارنر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر فوج کے فوری ردعمل نے سیاسی حکومت کو بیک فٹ پر کر دیا تھا۔وزیر اطلاعات کی فوری قربانی بھی فوج کا غصہ کم نہ کر سکی۔
ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا۔ اور وزیر داخلہ نےحسب ِ روایت اس کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کی کم از کم مدت بھی مقرر کر دی تھی،مگر بوجہ ایسا ہو نہ سکا اور ڈان لیکس تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ بالآخر جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے بعد منظر عام پر آئی۔خبر کیوں لیک ہوئی؟ آیا اس اجلاس میں ایسی کوئی بات بھی ہوئی تھی یا نہیں؟اس خبر کا مقصد کیا تھا؟اس خبر کے مندرجات کس نے لکھوائے؟یہ اور اسی نوع کے دیگر سوالات میڈیا میں اٹھائے جاتے رہے۔ایک رائے یہ بھی تھی کہ وزیر اعظم صاحب کی صاحبزادی مریم نواز اس خبر کی اشاعت اور اس کے مندرجات کی براہ راست ذمہ دار ہیں۔مگر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم صاحب نے اپنے معاون خصوصی طارق فاطمی کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی خان کے خلاف بھی ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز 1973 کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے دستخط سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے ڈان اخبار کی خبر کے معاملے پر بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی جبکہ ان ہی کی روشنی میں یہ اقدامات اٹھائے گئے۔
علاوہ ازیں یہ معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کو ارسال کردیا گیا۔اعلامیے میں اے پی این ایس کو ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کو کہا گیا ہے، جو خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے لیے ملکی سلامتی کے معاملات پر رپورٹنگ کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا تعین کرے گا اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ قومی اہمیت اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر خبریں صحافت کے بنیادی اور ادارتی اصولوں کے خلاف شائع نہ ہوں۔دوسری جانب پاک فوج نے ڈان کی خبر کے معاملے پر حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کو نامکمل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ ’ڈان کی خبر کے حوالے سے جاری ہونے والا اعلامیہ نامکمل اور انکوائری بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں۔ یاد رہےکہ 6 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کی تحقیقات کے لیے حکومت نے نومبر 2016 میں جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان کی سربراہی میں 7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔مذکورہ خبر سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کا سبب بنی تھی، جس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے 3 دفعہ اس کی تردید بھی جاری کی گئی تھی۔
یہ بحث غیر اہم ہے کہ جمہوری ممالک میں کیا ایسا ہوتا ہے کہ سول حکومت کے نوٹیفکیشنز اس کا کوئی ماتحت ادارہ مسترد کرتا ہے۔اصل صورتحال یہ ہے کہ ڈان لیکس سے لے کر پاناما لیکس تک فوج اور سول حکومت ایک پیج پر نظر نہیں آ رہے۔ بلکہ اگر اس ٹویٹ کو مری میں وزیر اعظم پاکستان اور بھارتی صنعت کار کی ملاقات کے پس منظر میں بھی دیکھا جائے تو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ پاکستان کے خاص سیاسی پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حکومت بعض اقدامات دانستہ ایسے اٹھا رہی ہے جس سے اس کی مظلومیت کا اظہار ہو اور یہ تاثر عام ہو جائے کہ منتخب وزیر اعظم کو طاقتور اداروں،عدلیہ اور فوج نے مل کر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔معاملے کی سنگینی کو وزیر داخلہ کے اس بیان کے پس منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو انھوں نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ،ٹوئٹس کسی بھی ادارے کی طرف سے ہوں پاکستان کے نظام اور انصاف کے لیے زہر قاتل ہیں، اداروں میں ٹوئٹس کے ذریعے ایک دوسرے کو مخاطب نہیں کیا جاتا، جبکہ ابھی معاملے سے متعلق نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا تو بھونچال کیسے آیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ڈان کی خبر کے معاملے پر ابھی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، جسے نوٹیفکیشن بناکر پیش کیا جارہا ہے وہ وزارت داخلہ کی سفارشات تھیں، جبکہ جو سفارشات ملیں ان ہی کی روشنی میں نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ اگر نوٹیفکیشن جاری ہی نہیں ہوا تو طارق فاطمی کیوں ہوئی؟اور اس برطرفی والی خبر میڈیا کو کس نے لیک کی؟نیز یہ کہ نوٹیفکیشن کس کی برطرفی کا تھا؟اور کیوں؟ اور یہ کہ فوج نے اس پر اتنا سخت ردعمل کیوں دیا؟یہ سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیے کہ سول حکومت ایک بار پھر ڈان لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر فوج کو مطمئن کرنی کی کوشش کرے گی،جبکہ وزیر داخلہ کے ٹویٹس بارے ریمارکس پر بھی بحث ہوتی رہے گی۔اصل معاملہ مگر یہ ہے کہ فوج اور سول حکومت دو مختلف پیجز پر ہیں،اور عوام پارلیمانی قوت بارے شبہات کا شکار ہیں،بالخصوص جب حکومت نے پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر بعض فیصلے بالا بالا کیے تو سمجھا جا رہا تھا کہ فوج و حکومت باہم یکجان ہیں مگر ڈان لیکس اور پانامالیکس نے اداروں کی باہم ورکنگ ریلیشن شپ اور اعتماد کی کمی کا بھانڈا سر راہ پھوڑ دیا ہے۔سیاسی حکومت دباو کا شکار ہے اور یہ خود اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply