اور وہ آپ کی بیٹی یا بہن بھی ہو سکتی ہے۔۔روبینہ فیصل

“عمران خان گھٹیا سیاست سے میری عزت اچھال رہے ہیں”عائشہ گلالئی”۔
یہ بیان پڑھا تو خیال آیا کہ اپنے نام کے ساتھ عمران خان کا نام لینا عائشہ گلالئی کا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو سکتا ہے مگر اس خاتون کے ساتھ جو سوشل میڈیا میں ہو رہا ہے وہ سراسر اذیت پسند لوگوں کی جاہلیت ہے۔ ایک چھوٹی سی بات کی نشاندہی کر نا چاہتی ہوں جہاں یہ محترمہ سراسر غلطی پر ہیں، وہ یہ کہ عمران خان پر بے بنیاد ذاتی حملے بھی اسی قدر نا پسندیدہ ہیں جس قدر کسی بھی خاص و عام خاتون کی عزت پر حملہ۔اگر harassment کی ہے چاہے وہ عمران خان جیسا مضبوط مرد ہی کیوں نہ ہو وہ بھی اسی قدر قابل ِ مذمت ہے جتنی کسی کمزور خاتون کی۔ یہ تو تھامحترمہ کے لئے پیغام۔
اور اب بات کرتے ہیں اس صدی کے سب سے بڑے ناگ کی جولوگوں کو دودھ کم اور زہر  زیادہ پلا رہا ہے۔ اور وہ ہے سوشل میڈیا (باقی دنیا تو شاید اس کے فوائد سے بھی لطف اندوز ہو رہی ہو مگر پاکستانیوں خاص کر کے عورتوں کے لئے یہ صرف نحوست ہے)۔

اس سوشل میڈیا نے گھر بیٹھے چوہوں کو شیر بنا دیا ہے اور شیروں کو اِس کے خوف سے گھر بٹھا دیا ہے۔ کوئی بھی حساس انسان اس سے پناہ مانگتا ہے اور اپنے کردہ، ناکردہ گناہوں کو یوں منٹوں سیکنڈوں میں پوری دنیا کے سامنے تماشا بنتے دیکھ کر اپنی عزت بچانے کی فکر کرتا ہے۔ جو لوگ اس گندگی کا مقابلہ کر نے کی ہمت رکھتے ہیں شاید انہیں جان تو پیاری ہو تی ہے مگر عزت نہیں یا پھر برداشت کر نے کی صلاحیت کچھ زیادہ ہی ہو تی ہے۔ جان کی پرواہ نہ کر نا، بہادری کہلا تی تھی، جو میرے جیسے بے وقوفوں کے لئے بے وقوفی بھی کہلائی جا سکتی ہے۔ مگر سوشل میڈیا کے ذریعے جان نہیں عزت کا قتل ہو تا ہے جس کے لئے بہادری نہیں بے حسی،بے غیرتی، ڈھٹائی اور بے شرمی درکار ہے۔ جب مورخ آج کی تاریخ لکھے گا تو سوشل میڈیا کو،آج کے انسان کے خون میں ان سب “بے”کی بڑھتی ہو ئی مقدارکی وجہ لکھے گا۔ ورنہ آج کا انسان ماضی سے زیادہ بھیانک کیوں ہو تا جا رہا ہے؟ آپ بھی اس سوال کو کھوجیں گے تو جواب” سوشل میڈیا “کی صورت ہی آپ کی آنکھوں کے آگے blinkکرے گا۔

میں نہیں جانتی مس گلالئی کون ہیں،کیسی ہیں یا عمران خان سے ذاتی عداوت پر کیوں اتری ہوئی ہیں۔ میں بغیر کسی تعصب کے ان خاتون کے ساتھ اس بنیاد پر ہمدردی رکھتی ہوں کہ مجھے یہ سائبر بلنگ کے شکار کی بد صورت مثال لگتی ہیں۔ وہ ویڈیو مجھے بھی کسی نے وٹس ایپ کی جسے ایڈٹ کر کے مس گلالئی کے بیان کو اس طرح توڑ مروڑ دیا کہ وہ عمران کو اپنے ساتھ بند کمرے میں دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔دیکھ کے مجھے لگا یہ عورت کسی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ کچھ کر نے کی لگن عورتوں کو میدان میں لے آتی ہے۔لگن، عزتِ نفس سے آگے نہ بڑھے تو عورت باعزت رہتی ہے۔،لگن کھو دیتی ہے مگر عزت بچا جاتی ہے۔ لیکن اگر یہ دُھن، عزت ِ نفس سے بڑھ جائے تو کم از کم ایسی صورت میں عورت کا انجام عبرتناک ہو جاتا ہے۔

سیاست کے میدان میں ہمارے سامنے ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ ان خاتون کا جو قصور مجھے نظر آتا ہے تو وہ یہی ہے کہ ایک نمایاں مقام حاصل کر نا، کیوں کہ ہو سکتا ہے اس کی خاطر انہوں نے اپنا آپ کسی آگ میں جھونک دیا ہواور پھرراکھ برادشت نہ کر پائیں۔مگر کیا اس سب کی سز اسوشل میڈیا پر دی جانے والی وہ گالی ہے جو مستقل طور پر مس گلالئی کا مقدر بنا دی گئی ہے؟ اس ویڈیو کو توڑ پھوڑ کے جو رنگ دیا گیا وہ انتہائی مریضانہ حرکت ہے اور پھر اس کے بعدکمنٹس میں دی جانے والی ننگی اور گندی گالیاں۔اس کو میں سائبر بلنگ کے سوا کیا کہوں۔ ایک دفعہ پھرسے کہوں گی اس محترمہ کا بلاوجہ عمران خان کا نام بار بار گھسٹینا بھی قابل ِ مذمت ہے مگر سوشل میڈیا پر گالیوں کا ایسا سلسلہ تو بے حسی کی زندہ مثال ہے۔

14سالہ آسٹریلین ماڈل ڈولی(AMY)، جس نے حال ہی میں سائبر بلنگ سے تنگ آکر خود کشی کی،جب اس کے باپ کا بیان پڑھا تو اور اذیت محسوس ہو ئی کہ کیسے سوشل میڈیا کے کاغذی شیر کسی کی بھی زندگی کے ساتھ، دنیا کے کسی بھی ملک میں،ضمیر پر کسی بھی بوجھ کے بغیر،بڑے آرام کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔اس معصوم کے باپ نے کہا:
” سوشل میڈیا جس طرح استعمال ہو رہا ہے، ایسے نہیں ہو نا چاہیے،میری بیٹی ایک مضبوط ارادے کی بچی تھی، اسے سوشل میڈیا پر دی جانے والی گالیوں نے توڑ کر رکھ دیا۔خودکشی کوبز دلانہ فعل کہا جاتا ہے مگر میری بیٹی نے بڑی بہادری سے دنیا کی برائی سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے پیچھے رہ جانے والا خلا کبھی  پر نہیں ہو گا۔ پھر بھی اس کی موت سے لوگوں میں سوشل میڈیا کے ٹھیک استعمال کا رحجان پیدا ہو جائے تو ہم سمجھیں گے اس کی موت بے کار نہیں گئی۔ ڈولی کسی کی بھی دوست، کسی کی بھی بہن یا بیٹی ہو سکتی تھی۔”

Tick evertt(باپ)نے ڈولی کے جنازے پر ان سب کوفیس بک کے ذریعے مدعو کیا، جو اس آن لائن گالم گلوچ کا حصہ تھے:
“میں آپ سب کو ڈولی کے جنازے پرآنے کی دعوت دیتا ہوں،آؤ! اور دیکھو تم لوگوں نے ایک زندگی کو کیسے ختم کیا ہے۔”
اس سب سے مجھے برٹش کولمبیا (کینیڈا) کی ایک 15 سالہ بچی AMANDA TODD جس نے آج سے تقریباً  7سال پہلے اسی سائبر بلنگ سے تنگ آکر خود کشی کر لی تھی، یا د آئی۔نیدرلینڈ کا ادھیڑ عمر آدمی،اس کا مجرم تھا۔ جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس بچی سے دوستی کی، جو تنہائی کا شکار تھی اور ایسی ہی آن لائن دوستیوں پر گذارہ کر رہی تھی، اس مردود نے اسے تعریفوں کے جال میں پھنسایا، لڑکی کا اعتماد حاصل کیا، اور اس کی ویڈیو کیمرہ کے سامنے عریاں تصویریں بنائیں۔۔ اور بعد میں جب وہ اس ویڈیو شو سے انکا ر کر تی تو یہ تصویریں اس کے فیس بک سکول فرینڈز کو بھیج دیتا، جس سے سکول میں یہ سائبر بلیک ملینگ اپنی زیادہ بدصورتی کے ساتھ بچی کے سامنے آکھڑی ہو تی، جب اس کے کلاس فیلوز اسے گندے گندے ناموں سے پکارتے۔

اس بچی نے بہت سکول تبدیل کیے مگر وہ” بچھو “جسے بچی محبت اور اعتماد کی صورت اپنی زندگی میں شامل کر نے کی غلطی کر چکی تھی، اسے بار بار ڈستا گیا۔ اور اتنی دور بیٹھ کر بھی فیس بک کے ذریعے اس بچی کو بلیک میل کر تا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا بچی نے پہلے نشے میں راہ فرار اختیا ر کی۔ ایک دفعہ خود کشی کی کوشش کی، ناکامی کی صورت بھی اس کی ذلت کو مزید بڑھانے کا باعث بنی۔ اس سب سے دل برداشتہ ہو کر وہ مینٹل ہسپتال پہنچ گئی، سکول فیلوز کو اس کا پتہ چلا تو پاگل پاگل کہہ کے چھیڑنے لگے اور پھر ایک دن 10اکتوبر 2012 کو اس کی لاش اس کے کمرے میں لٹکتی ہو ئی پائی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں بھی ڈولی کے باپ کے الفاظ دہراتی ہوں ” وہ آپ کی بہن، بیٹی یا دوست ہو سکتی تھی۔۔۔”
میں جانتی ہوں یہ دو cyber bullying بدترین مثالیں ہیں جن کا انجام موت ہوا مگر یاد رکھیے جب آپ کسی کو،رنڈی،whoreیا bitchلیبل کرتے ہیں۔ لازمی نہیں سب امینڈا اور ڈولی کی طرح خود کشی ہی کر لیں، مگر موت ان کی بھی ہو جاتی ہے جو یہ سب سن کر بظاہر زندہ رہتی ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی انسان یہ deserveنہیں کرتا کہ وہ ایک mobکی اجتماعی بے حسی کا شکار ہو جائے۔
ہجوم،چاہے سر ِ عام کسی عورت کو ننگا کر کے گھمائے یاسوشل میڈیا پر کسی کو گالیوں کے ذریعے ننگا کرے۔ دونوں صورتوں میں وحشی اور بے حس ہے۔
“اور وہ آپ کی بیٹی یا بہن بھی ہو سکتی ہے”۔
یاد رکھیے! وقت کا پہیہ جہاں سے چلتا ہے وہیں آکر رکتا بھی ہے!

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply