• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے/حصّہ اوّل۔۔۔۔۔۔ترجمہ: عاصم رضا

ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے/حصّہ اوّل۔۔۔۔۔۔ترجمہ: عاصم رضا

نوٹ: زیرِنظر ترجمہ، تاریخ ِ سائنس کے امریکی پروفیسر میتھیو سٹینلے، نیویارک یونیورسٹی کے ایک مضمون بعنوان ’’Why should physicists study history ‘‘ پر مشتمل ہے۔ میتھیو سٹینلے کا مذکورہ مضمون، معروف مجلے ’’معاصر طبیعیات‘‘ (Physics Today) کے شمارہ نمبر 7، جلد نمبر 69، 2016 میں شائع ہوا ۔

جس طرح طبیعیات دنیا سے متعلق فہرستِ حقائق تک محدود نہیں ہے ، تاریخ بھی اسماء اور تعیناتِ زمان کا نام نہیں ہے ۔ یہ ایک قوی اور بصیرت افروز فکر کی حامل بھی ہو سکتی ہے ۔

طبیعیات کی تعلیم کے دوران ، طبیعیات سے متعلقہ چند چیزوں پر بہتر انداز سے عبور حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ وہ بے ترتیب اور غیرہموار دھارے ہیں جو ہر شے کو دشوار بنا دیتے ہیں : لوگوں کے ساتھ معاملات خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ؛ غلط فہمیاں ہوں ؛دشمنیاں اور یہاں تک کہ ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھ سکنے والی دوستیاں ہوں ۔ ماہرین ِ طبیعیات اکثر اوقات ایسے مسائل کو خود سائنس کے لیے کارآمد نہیں سمجھتے ۔ تاہم سماجی تعاملات درحقیقت سائنس دانوں کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ بیشر ماہرین طبیعیات کٹھن راہ سے گزر کر ایک سبق کو سیکھتے ہیں کہ وہ ایک ممکنہ مثالی تنہائی کی بجائے ایک حقیقی سانجھی دنیا میں رہنے کے لیے خود کو کیسے لیس کر سکتے تھے ۔

تاریخ مدد کر سکتی ہے ۔ ایک مکمل علمی شعبہ یعنی تاریخ ِ سائنس غیرہموار دھاروں کا مطالعہ کرتا ہے ۔ ہم مؤرخین ِ سائنس اپنے آپ کو یوں دیکھتے ہیں جیسے کہانیوں میں پائی جانے والی قوت کی صورت گری کررہے ہیں ۔ کیسے کوئی معاشرہ اپنی سوچ میں آنے والی تبدیلی، کے مطابق اپنی تاریخ میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے بات کر سکتا ہے ۔ سائنس کا ایک تاریخی تناظر ماہرین ِ طبیعیات کو یہ بات سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ ان کی ہنرمندی کے دوران کیا کچھ ہو رہا ہے ، اور یہ بے شمار آلات فراہم کر سکتا ہے جو خود ماہرین ِ طبیعیات کے لئے مفید ہیں ۔

طبیعیات ایک سماجی سرگرمی ہے

تحقیق افراد کے ہاتھوں انجام پاتی ہے ۔ اور افراد پسند و ناپسند ، اناؤں اور تعصبات کے حامل ہوتے ہیں ۔ ماہرین ِ طبیعیات بھی دوسرے لوگوں کی مانند اپنے پسندیدہ تصورات کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور غالباً ایک طویل عرصہ تک ان کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں ۔ برقی مقناطیسی ایتھر ایک کلاسیکی مثال ہے یعنی ایک بے پایاں کارآمد تصور جو انیسیویں صدی کی طبیعیات پر زیادہ عرصہ تک غالب رہا ۔ اگرچہ یہ بات کھل گئی کہ نظریۂ ایتھر مسائل کو حل کرنے سے زیادہ دشواریاں پیدا کر رہا ہے ، ماہرین ِ طبیعیات 1905ء میں آئن سٹائن کے خصوصی نظریۂ اضافیت کے ہاتھوں اس کے فالتو (superfluous) قرار دیے جانے کے بعد بھی کئی برسوں تک وضاحت کی غرض سے اسی تصور کو ایک مرکزی آلہ کی حیثیت سے استعمال کرتے رہے ۔ تاریخ ِ طبیعیات خوبصورت نظریات سے بھری پڑی ہےجو بہت زیادہ وفاداری کے متقاضی ہیں ۔

لوگ بہت سی جگہوں سے آتے ہیں ، اورماہرین ِ طبیعیات اپنے گھروں کو دوسروں کی مانند محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس بات کو فراموش کرنا آسان ہے کہ سو سال قبل پہلی جنگ ِعظیم کے دوران برطانوی سائنس دانوں نے میدان ِ جنگ کے دوسری جانب اپنے جرمن ساتھیوں سے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ۔ حتی کہ جنگ کے اختتام پر جرمن اور ان کے جنگی اتحادیوں کو عالمی سائنسی تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے سے سرکاری طور پر منع کر دیا گیا ۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ، ایڈولف ہٹلر کے ہاتھوں میں جوہری بم کے آسیب نے اتحادی ماہرین ِ طبیعیات کو جوہری ہتھیاروں کے پنڈورا باکس کو کھولنے پر مجبور کر دیا ۔ بعد ازاں اس میں شامل ہونے والے بیشتر سائنس دانوں نے شدید غم کا اظہار کیا ۔ تاہم جنگ اور قومیت پرستی ، طاقت ور محرک بنتے ہیں ۔

یہ کوئی استثنائی واقعات نہیں ہیں ۔ ماہرین ِ طبیعیات سیاسی رائے ، فلسفیانہ ترجیحات اور شخصی جذبات سے لاپرواہ افراد نہیں ہیں ۔ تاریخ ِ سائنس روز مرہ کی زندگی سے کٹ کر زندگی بسر کرنے والے خالص عقلی عبقری کے اسطورے کو درہم برہم کرنے میں مدد دے سکتی ہے ۔

اور انسانیت کے نسبتاً زیادہ قریب طبیعیات ایک عمدہ شے ہے ۔ مبتدیوں خاص طور پر طلباء کے لیے ، یہ طبیعیات کو زیادہ قابل ِ دسترس بناتی ہے۔ بہت سے ہونہار طلباء سائنس کی تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ان کو تعلیمی مواد مجرد (disembodied)اور اپنی زندگیوں سے کٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سائنسی تعلیم کے محققین نے تلاش کیا ہے کہ ان تمام گم شدہ طلباء کو ’’اِس شے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی لت تھی کہ وہ جن طریقہ ہائے کار کا اکتساب کر رہے ہیں وہ کیسے وجود میں آئے تھے ، ماہرین طبیعیات و کمیا کیونکر فطرت کو اپنے تصورات کے عین مطابق سمجھتے تھے اور ان کے سیکھے ہوئے اور عظیم تر کائنات کے مابین کیا تعلقات تھے ‘‘۔ اس بات کا امکان ہے کہ طلباء اس حیرت اور تجسس سے ہاتھ دھو بیٹھیں جس نے پہلی مرتبہ میں ان کو سائنس کی جانب کھینچا ۔ تاریخی بیانیے فطری طریقے پر علمی ، فلسفیانہ ، سیاسی ، اخلاقی یا سماجی سوالات کو اٹھاتے ہیں اور یہ امر طلباء کی اپنی زندگیوں کے لیے طبیعیات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ وہ شعبہ دوسرے شعبوں سے قدرے زیادہ پرکشش ہے جس میں افراد حسابی مشینوں کی بجائے انسان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔

طبیعیات کی انسانی جہت کی تفہیم طلباء (کے اذہان )کو ماہرین ِ طبیعیات کے حقیقی کام کے بارے میں زیادہ ہموار کرے گی ۔ ماہرین ِ طبیعیات گروہ کی صورت میں کام کرتے ہیں ۔ انہیں بات چیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ طبیعیات ایک سماجی سرگرمی ہے ۔ تصورات اور تجرباتی سازوسامان مستقل بدلتا رہتا ہے ۔ عمومی نظریۂ اضافیت کے ابتدائی ایام میں ، آئن سٹائن اور اس کے قریبی لوگوں سے براہ راست رابطے کے بغیر نظریے میں مہارت حاصل کرنا نہایت ہی دشوار تھا ۔ اور چونکہ جنگِ عظیم سر پہ تھی ، چند ہی ماہرین ِ طبیعیات کو براہ راست رسائی حاصل ہو سکتی تھی ۔ عمومی نظریۂ اضافیت اسی وقت زیادہ مقبولیت حاصل کر پایا جب ویلم دی سیٹر (Willem de Sitter) نے غیر جانبدار نیدرلینڈ میں آئن سٹائن سے براہ راست رابطہ کے بعد اضافیت سے متعلق اپنی مہارت کو برطانیہ میں آرتھر ایڈنگٹن کو منتقل کیا ۔ خوش قسمتی سے ایڈنگٹن ایک امن پسند انجمن سے تعلق رکھتا تھا (Quaker pacifist) اور ایک جرمن نظریے پر نگاہ ڈالنے کے متمنی چند برطانوی سائنس دانوں میں سے ایک تھا۔ طبیعیات میں تحقیقات اسی وقت ہوتی ہیں جب لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں ، اور تبادلہ خیال ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ۔

طبیعیات سادہ نہیں ہے

پیچھے مڑ کر دیکھنے پر ہر شے واضح دکھائی دیتی ہے ۔ تدریسی کتب تجرباتی نتائج کو بدیہی اور نظریات کواپنے ثبوت کے واسطے درکار ریاضی کے چند صفحات کا محتاج دکھاتی ہیں ۔ تاہم شفاف تفصیلات سائنسی نتائج تک پہنچنے کے عمل کے دوران بروئے کار آنے والے تذبذب اور بے پناہ تحقیق کا پردہ فاش کرتی ہیں۔ تاریخ طبیعیات ہمیں یاد دہانی کرواتی ہے کہ شمس مرکزیت سے لیکر جوہری نظریے تک جیسے تصورات جو اب ہمیں سادہ دکھائی دیتے ہیں ، ان کو جواز دینا کتنا دشوار تھا ۔

سادگی کی بجائے پیچیدگی نے عمل ِ سائنس پر حکمرانی کی ہے ۔ ہر دریافت لوگوں ، تصورات ، حادثات اور دلائل کے بے ترتیب اکٹھ سے برآمد ہوئی ہے ۔ عام طور سے ایک مشاہدے یا نظریے کے مطلب کو سمجھنے کی خاطر بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ مثال کے طور پر، تیل کے قطروں سے متعلق میلیکان کا تجربہ (Millikan oil drop experiment) ایک غیرمبہم تجرباتی ڈیزائن اور بروقت مؤثر نظری تعبیر کے ایک ماڈل کی حیثیت سے تدریسی کتب میں نظر آتا ہے ۔ تاہم رابرٹ میلیکان کی لیبارٹری نوٹ بک پر ایک سرسری نگاہ اجاگر کرتی ہے کہ اس کے لیے اپنے تجرباتی کام کو سرانجام دینا کس قدر دشوار تھا۔

فطرت شاذ ہی سیدھا جواب دیتی ہے۔ چنانچہ سائنسی محققین کو بعض اوقات اندھے راستوں پر چلنا پڑتا ہے اور عام طور سے سعی و خطا اور تخمینے لگانے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جوں ہی ایک مضبوط نتیجہ حاصل ہوا ، سائنس دان اس تک پہنچنے کے لیے ہونے والی تمام تر جان توڑ محنت کو بھول جانے کا میلان رکھتا ہے ؛ سادگی بظاہر پیچیدگی سے زیادہ مؤثر دکھائی دیتی ہے ۔ تاہم پیچیدگی ہی درحقیقت تسلی بخش ہے ۔ طلباء اور نوجوان محققین کی حوصلہ افزائی اکثر وبیشتر اس بات کو سیکھنے کی بدولت ہوتی ہے کہ طبیعیات سخت محنت طلب ہے اور ان کی کاوشوں کے لیے موزوں ہے کہ وہ ایک تدریسی کتاب میں دیے جانے والے اظہار کی مثل نہیں ہیں ۔ عظیم الشان سائنسی ترقیاں اس بات کی تحسین کے ساتھ مل کر نسبتاً زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں کہ وہ وجدانی لمحوں کی بجائے جدوجہد اور ناکامیوں کا صلہ ہیں ۔ طبیعیات کے نتائج بدیہی نہیں ہیں ۔

ہر دفعہ ماہرین ِ طبیعیات اختلاف کرتے ہیں کہ ایک مجموعۂ مواد کو کیسے تعبیر کیا جائے ، وہ ایک تازہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ طبیعیات سادہ نہیں ہے ۔ کچھ مواد صرف ایک خاص زاویہ نگاہ سے ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ ارنوپینزیس (Arno Penizias) اور رابرٹ ولسن نے اپنے اینٹینا میں ادنی فریکوئنسی کا شور (low-frequency-noise) دیکھا ، نہ کہ آفاقی مائیکرویو تناظر ۔ یہ اسی وقت اہمیت کا حامل دکھائی دیا جب انہوں نے اس شور کو انفجارِ عظیم (Big Bang) کی تکوینیات کی روشنی میں دیکھا ۔

تاریخ ِ طبیعیات تجویز کرتی ہے کہ عام طور پر ایک مسئلے کو حل کرنے کے بے شمار طریقے ہوتے ہیں ۔ نظریۂ قدر پر مبنی برقی حرکیات (Quantum Electrodynamics) اپنے پیشروؤں میں سے اس وجہ سے برآمد نہیں ہوئی کہ یہ ان سے صریحاً برتر تھی بلکہ اس کا سبب یہ ہوا کہ فری مین ڈائسن(Freeman Dyson) نے رچرڈ فائن مین (Richard Feynman)، جولیان سکیونجر (Julian Schwinger)، اور سین اٹیرو ٹوموناگا (Sin-itiro Tomonaga) کے طریقہ ہائے کار کو ازسرنو طبعی حالت میں بیان کرتے ہوئے (renormalization) یکساں برابری کا حامل دکھایا۔ ان میں سے کوئی بھی طریقہ کار غلط نہ تھا ، ان سب کو ازسر نو وضع کرنے کی ضرورت تھی ۔ حتی کہ اس وقت ناگزیر سمجھی جانے والی فائن مین کی ڈایاگرامز بھی زیادہ کارآمد نہ تھیں جب وہ پہلی دفعہ منظرِ عام پر آئیں ۔ وہ پریشان کن تھیں ، اور ان کا استعمال واضح نہ تھا۔ دوبارہ سے ڈائسن ہی ایک نئے تصور کی مقبولیت کا وسیلہ بنا: اس کو ہر ایک کو سکھانا پڑا کہ فائن مین کی تصاویر کس شے کے لیے کارآمد ہیں نیز ان کی اہمیت کو تقدس دینا پڑا ۔ اب جو چیزیں لازمی اور واضح دکھائی دیتی ہیں ، ان کا آغاز کبھی ایسے نہیں ہوا ۔

طبیعیات کو بے شمار انواع کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے

پیچیدگی کو عمدہ طبیعیات میں تبدیل کرنے کے لیے تخلیقی صلاحیت کی حاجت ہوتی ہے ۔ آپ کبھی نہیں بتا سکتے کہ کون سا انوکھا تصور ایک پریشان کن مشاہدے کو واضح کرنے میں مدد دے گا ، یا ایک مساوات کو حل کرنے کی کنجی فراہم کرے گا ۔ تاریخ، تصورات کی ایک عجیب اتھل پتھل کو منکشف کرتی ہے جو طبیعیات کی بڑھوتری کے لیے ناگزیر تھی ۔ حرحرکیات (تھرموڈائنامکس ) کے دوسرے قانون کی مثال لے لیجئے ۔ اس کی زیادہ تر تشکیل و تعبیر کا ذمہ دار لارڈ کیلون (Lord Kelvin) تھا ۔ تاہم کیلون حرحرکیات تک اس طرح نہیں پہنچا کہ وہ خالی سلیٹ تھی ۔ وہ بربادی اور انجیئنرنگ مہارت کے دلدادہ وکٹورین کی حیثیت سے اس قانون تک پہنچا ۔(بعینہ ) وہ اس تک یخ بستہ اختتام ِ کائنات کا مطالعہ کرنے والے مذہبی شخص کی حیثیت سے پہنچا کیونکہ زبور کی آیت نمبر 102ء کے مطابق یہی شے بامعنی لگتی تھی ، جس کے مطابق آسمان و زمین کی ہر ایک شے لباس کی مانند فرسودہ ہو جائے گی ۔ اس کے ذاتی پس منظر نے اس کو ایسے آلات سے لیس کیا جنھیں وہ اس وقت دوسرے قانون کہلانے والے حیرت انگیز مظہر کے ساتھ الجھنے کے ضمن میں استعمال کرنے کا خواہاں تھا ۔آپ کیلون کے مخصوص زاویۂ نگاہ کی اہمیت کو ملاحظہ کر سکتے ہیں جب آپ اس کی تحقیق کا ، یوں کہہ لیجئے، حرحرکیات پر کام کرنے والے ایک جرمن ماہر طبیعیات کی تحقیق کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں ۔ انہوں نے نہایت مختلف تصورات کو پیش کیا اور متفرق تصورات کو متعارف کروایا ۔ کئی طریقہ ہائے کار کے باہمی تعامل نے ہمار ے جدید زاویہ نگاہ کو جنم دیا ، جس کا خیال بھی کیلون کے انوکھے تصورات کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔

انوکھے لیکن نہایت مفید تناظرات اکثر اوقات ایسے شعبوں اور مضامین سے آتے ہیں جن کا بظاہر زیرِ نظر مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔ جیمز کلارک میکس ول (James Clerk Maxwell) نے مؤرخین سے شماریاتی تنوع کے بارے میں اکتساب کیا ۔ جوہری ماہر طبیعیات لوئس الوریز ((Luis Alvarez نےآئسوٹوپ میں اپنی مہارت کو اپنے بیٹے والٹر کی ارضیاتی تحقیق میں استعمال کیا اور ڈائنوسار کی معدومیت کے راز کو حل کرنے میں مدد کی ۔ تاریخ ِ سائنس دکھاتی ہے کہ مختلف شعبوں کے سائنس دانوں کے مابین مکالمہ کتنی اہمیت کا حامل ہے ۔ متفرق گروہوں کے مابین تبادلہ خیال صحت مند سرگرمی ہے ۔ بظاہر ایک دوسرے سے جدا نظر آنے والے مسائل اکثر ایک دوسرے سے قربت رکھتے ہیں ، اور آپ کبھی نہیں جانتے کہ کب آپ کو اپنی دشواریوں کو حل کرنے کی خاطر انوکھے تصورات مل جائیں گے۔

متفرق تصورات کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ایک متفرق معاشرے کا بیج بویا جائے ۔ مختلف اندازِ فکر کے حامل غیرمعروف گروہ اکثر اوقات تازہ معارف اور انوکھے طریقہ ہائے کار کو متعارف کروانے کا ماخذ بنتے ہیں ۔ بے شمار حیرت انگیز مثالیں وجود رکھتی ہیں ، اور انہوں نے محیط پر کام کرنے والے گروہوں کو مرکزی دھارے کے اندر نمایاں مقام حاصل کرنے کی راہ دکھلائی ہے ۔ مثلاً، ماریٹا بلاؤ (Marietta Blau) نے جوہری آمیزش (nuclear emulsion) کی تکنیک کو کیسے پروان چڑھایا جو اس وقت ذراتی طبیعیات (Particle Physics) کہلانے والے شعبے کی پیدائش کے لیے نہایت بنیادی حیثیت کی حامل ہے ، مرکزی دھارے سے باہر کام کرنے والے ایک فرد کا خاصہ تھی ۔ حالتِ جنگ کے آسٹریا سے تعلق رکھنے والی بلاؤ (Blau)کو ایک یہودی خاتون ہونے کی بنیاد پر دہرے اخراج کا سامنا تھا ۔ لیبارٹریوں میں خواتین کا داخلہ اکثر و بیشتر ممنوع تھا ، بعض اوقات اس بنیاد پر کہ ان کے بال بہت جلدی آگ پکڑ لیتے ہیں ۔ نازیوں سے پہلے بھی یہودیوں کو شاذ ہی اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کی اجازت ہوتی تھی ۔ ایسی پابندیوں کا مطلب تھا کہ اگر بلاؤ (Blau) ذرات کا مطالعہ کرنے کی خواہاں تھی تو اس کو نہایت ارزاں اور سفری شناسدہ آلات (detectors) کی ضرورت تھی جنھیں عام طور پر دستیاب مواد کی مدد سےبنایا جا سکتا تھا ۔ اپنی جداگانہ تکنیک کے ساتھ اس نے ایک مشاہداتی آلہ تخلیق کر لیا جو اس زمانے کی طبیعیات کے مرکزی دھارے میں کام کرنے والے بیشتر ماہرین ِ طبیعیات کے لیے ایک مکمل حیرت انگیز شے تھی ۔

قدرے غیر معروف گروہ عام طور سےسماجی جمود یا طویل عرصہ پہلے ہونے والے سوچے سمجھے فیصلوں کی بدولت مرکزی دھارے سے دور ہوتے ہیں ۔ اسی سبب طبیعیات میں تنوع پیدا کرنے کی خاطر کام کرنے والے بہت سے لوگ اپنے آپ کو ایک سماجی غلطی کو سدھارنے کی خاطر مدد فراہم کرنے والوں میں شمار کرتے ہیں ۔ فائن مین کو کولمبیا یونیورسٹی میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا کیونکہ وہاں کسی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ پہلے ہی یہودی طلباء بہت زیادہ ہو گئے ، ایک ایسا فیصلہ جو اس وقت بظاہر مہمل و ناانصافی پر مبنی دکھائی دیتا ہے ۔ یقیناً اس کی مادرِ علمی میساچوسٹس انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی (MIT) نے روایتی معیارات پر کم کم اترنے والے طلباء کو داخلہ دینے سے متعلق اپنے فیصلوں کی بابت فائدہ اٹھایا ۔

2015ء میں امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس اس تصور سے تشویش کا شکار ہو گئے کہ تنوع ، طبیعیات میں مددگار ہو سکتا تھا ۔ رابرٹس کے تبصرات مایوس کن تھے اگرچہ ا ن کے پس پردہ تصور غیرمعمولی نہیں ہے : خالص عقلیت پر مبنی ایک وحدانی شعبے کی حیثیت سے مقصودِ سائنس متفرق تناظرات اور زاویہ ہائے نگاہ کی اہمیت کو نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے ۔ تاہم تاریخ سائنس میں یہ اہمیت نہایت شرح و بسط سےدرج ہے جو ان دونوں باتوں کی توضیح میں مددگار ہو سکتی ہے کہ کیوں سفید فام لوگ ہی سائنس میں آگے ہیں اور کیونکر یہ نکتہ مستقبل میں ہونے والی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ تاریخِ طبیعیات علمی اور شعبہ جاتی تنوع کی اہمیت کے ضمن میں ایک شاندار مثال ہے ۔ ایک مسئلے پر تفکر کے بے شمار متفرق طریقوں کو یکجا کیا جا سکتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply