تہذیب کہاں ہے ؟۔۔عمار یاسر

دوستو فسکی اپنے ناول”Notes from the Underground”میں لکھتا ہے۔۔

“ہر صورت میں تہذیب نے انسان کو شرمناک اور گھناؤنے پن کی حد تک خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔ پرانے وقتوں میں اسے خون خرابے میں انصاف نظر آتا تھا اور وہ ضمیر پر بنا کسی بوجھ کے جس کو مناسب سمجھتا  ، اسے قتل کر دیتا تھا۔ آج وہ خون خرابے کو قابل نفرت سمجھتا ہے اور اسی قابل نفرت فعل میں اپنی پوری قوت کے ساتھ مصروف عمل نظر آتا ہے- اب تم خود ہی فیصلہ کرو کہ بدتر صورتی  کون سی ہے؟”

مصنف کے یہ الفاظ بڑےفکر انگیز ہیں۔ زینب اور اس جیسی دوسری بچیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات اور اس پر ہماری     ریا ست اور معاشرے کا اجتماعی رویہ ایسی صورت حال کو جنم دیتے ہیں ، جو ہم سے تہذیب ، اخلاقیات، شعور اور اقدار جیسے الفاظ کے معنی از سر نو دیکھنے اور اپنے معاشرے کا تجزیہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے کہ آیا ہم تہذیبی دور میں داخل بھی ہوئے ہیں یا نہیں ؟

تہذیب بنیادی طور پر کسی بھی معاشرے کی ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ ترقی کے ایسے مخصوص درجے پر ہو جو اسے قانون کا پابند اور وحشت کا مخالف بنائے ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ الفاظ کسی بھی طرح سے ہمارے سماج کے لئے مستعمل نہیں ہونے چاہییں – تہذیب ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقدار کسی بھی سماج میں رہنے والے لوگوں کی طرف سے مرتب کیے گئے اچھائی اور برائی کے معیارات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس کی رو سے اگر دیکھا جائے تو کسی بھی مہذب معاشرے کی مثالی اقدار انصاف، ایمانداری، آزادئ اظہار رائے اور ظلم کے خلاف بلا خوف و خطر آواز اٹھانا اور اس کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہیں اس کے بر عکس اگر دیکھا جائے تو ہمارے سماج میں پرورش پانے والی قدریں خوف، نا انصافی، زباں بندی لا قانویت اور بے حسی پر مشتمل ہیں –

عمرانیات کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہر فرد اپنے سماج کی پیداوار ہے اور ا س کی شخصیت کی تعمیر معاشرہ ہی کرتا ہے اس لئے ایسی صورت میں صرف جرم کرنے والے کو برا کہنا اور تبرہ بازی کر لینا پرلے درجے کی ڈھٹائی اور بے حسی ہے۔ ہم بحیثیت سماج ایسے مکروہ واقعات کے نتیجے میں خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے – ان سب کی ذمہ داری معاشرتی ڈھانچوں اور سماجی اداروں پر عائد ہوتی ہے جن پر کوئی بھی معاشرہ استوار ہوتا ہے۔ عمرانیات کی زبان میں ایسے پانچ بنیادی ادارے جن میں خاندان، تعلیمی ادارہ، معاشی ادارہ ، سیاسی ادارہ اور مذہبی ادارہ شامل ہیں – ان پانچ بنیادی اداروں سے تعامل کی صورت میں کسی فرد کی شخصیت پروان چڑھتی ہے اور یہی اس کی بنیادی تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔

اختصار کی غرض سے میں تین کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اگر ہم خاندان کی ہی مثال لیں تو آج ہمارے والدین کی طرف سے ملنے والی اقدار خوف اور زباں بندی پر مشتمل ہیں اور اگر مثالی طور پر یہ ہمیں نہ بھی سکھائی جائیں تو ان کے رویوں سے یہی جھلکتی ہے کیونکہ قدریں جب تہذیب میں ڈھلتی ہیں  تو رویہ بن جاتی ہیں  ۔مثال کے طور پر جب کوئی بچہ اپنے والدین یا خاندان میں سے کسی کو سڑک پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے دیکھتا ہے تو وہیں سے قوانین توڑنے کا عملی سبق بھی سیکھتا ہے اور پکڑے جانے پر چالان بھرنے کی بجائے جب رشوت کے ذریعے یا کسی بااثر شخصیت کی فون کال کے ذریعے معاملے کو نپٹتا دیکھتا ہے تو لاقانونیت ، رشوت ،سفارش اور قانون نافذ  کرنے والے اداروں پر بداعتمادی جیسی قدریں اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں  اور اسے سمجھ آ جاتی ہے کہ کسی بھی قانون کو توڑنے کی آزادی حاصل کرنے کے لئے اس کے پاس پیسوں اور سفارش کا ہونا ضروری ہے۔

دوسری طرف جب وہ اپنے والدین کو معاشرے میں پیش آنے والے ظلم کے خلا ف خاموش پاتا ہے اور ان سے یہی نصیحت سنتا ہے کہ اپنے خلاف یا معاشرے میں کسی اور کے ساتھ جنسی ہراسانی پر خاموش رہو مبادا کہ خاندان کی بدنامی ہو جائے، تو خوف اور زباں بندی اس بچے یا بچی کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے اور جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ والدین اس زباں بندی کو راہِ  خداوندی سمجھتے ہیں تو زندگی میں کسی بھی چیز پر آواز نہیں اٹھا پاتے ۔حال یہ ہے کہ اگر چند شرپسند اور منہ زور بچے والدین سے چھپ کر آواز اٹھانے کے لئے کسی احتجاج میں شرکت کرتے ہیں تو وہ بھی ( خاص طور پر خواتین) پوسٹرز کے پیچھے اپنا منہ چھپانے پر مجبور ہوتے ہیں مبادا کہ ان کے والدین انہیں احتجاج میں شریک ہوتا ہوا دیکھ لیں-

یہی حال ہمارے تعلیی اداروں کا بھی ہے جہاں کا رسمی ماحول اور مرکزی بیانیہ ہمیں ایسے کسی بھی قدم سے روکتا ہے جو معاشرے کی مقبول تعریف کے مطابق ” نارمل” نہ ہو- ہمارا سیاسی ادارہ جب کسی مظلوم کو سزا دیتا ، طاقتور کو چھوڑ تا اورانصاف فراہم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے تو اس سماج کے ہر فرد کے لاشعور میں لاقانونیت اور بے حسی جیسی قدریں پرورش پاتی ہیں اور پھر ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ ” احتجاج کر کے بھی کیا ہو جائے گا ؟ ” اور مجرم بھی یہی سوچتا ہے کہ ” جرم کرکے پیسے اور سفارش کے ذریعے بچا جا سکتا ہے “۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی وہ قدریں اور رویے ہیں جن پر ایمائل ڈرخائم کے بقول ہمارے سماج کا ” اجتمائی ضمیر” استوار ہے ۔ مجرم اور خاموش تماشائی اسی سماج میں پرورش پاتے ہیں جس کے نتیجے میں ایسے پے درپے واقعات ہوتے چلے جاتے ہیں اورہم سہتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف اگر یہ کہا جائے کہ مثالی تہذیبی قدریں ہمارے شعور میں تو ہیں مگر ہمارے اعمال اور رویوں میں نہیں ہیں تو ہم پر دوگنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم شعور رکھنے کے باوجود بھی ایسے ہیں۔ پھر تو ہمیں دور بربریت میں رہنے والے لوگوں سے تشبیہہ  دینا بھی غلط ہے کیونکہ یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ تہذیب کہاں ہے ؟ اور دوستوفسکی کے الفاظ میں ” تم خود ہی فیصلہ کرو کہ بدتر صورت کون سی ہے “؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”تہذیب کہاں ہے ؟۔۔عمار یاسر

Leave a Reply