• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پردہ آنکھ, دل اور نیت کا تو فحاشی و عریانی کس کی؟۔۔بلال شوکت آزاد

پردہ آنکھ, دل اور نیت کا تو فحاشی و عریانی کس کی؟۔۔بلال شوکت آزاد

کبھی گدھے کا گوشت پکڑلیا تو کبھی کتے کا,کبھی مردہ جانوروں کا تو کبھی سور کا۔قوم خریدتی رہی حرام بکتا رہا۔مطلب جو آنکھ دیکھتی ہے وہ بھی نظر نہیں آتا۔سننا سنانا تو بہت دور کی بات ہے لیکن حیرانی اور پریشانی یہ ہے کہ زندہ لاشوں کا گوشت بکتا ہے پر کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔نوچ کھسوٹ جاری ہے لٹنا لٹانا جاری ہے پر کسی کو فرق نہیں پڑتا،جی وہ عام محاورہ جو بنادیا گیا  ہے کہ پردہ آنکھ کا ہوتا ہے, نیت کا ہوتا ہے, دل کا ہوتا ہے لہذا عورت ننگی ہوکر بھی سامنے آجائے تو مرد کی پتلیاں نہ سکڑیں, دل نہ دھڑکے اور نیت میں فتور نہ آئے۔

چلو مان لیا بلکہ تمھاری نشاندہی پر قرآن کا حکم سر آنکھوں پر۔اسی حکم سے آگے والا حکم بھی دو منٹ کو تمھاری طرح پس انداز کردیتے ہیں کہ آج تمھاری آنکھ, دل اور نیت کا ذرا ٹھوک بجا کر پوسٹ مارٹم کرلیا جائے۔اگر پردہ آنکھوں کا ہے تو صاحب فحاشی بھی نگاہوں میں پناہ گزین ہے۔اگر پردہ دل کا ہے تو محترمہ عریانی بھی دل میں ہی بستی ہے۔اگر پردہ نیت کا ہے تو صاحبان واحیات جنسی طلب بھی تو نیت کا ہی ثمر ہے۔ہمیں فیشن اور آزادی کے نام پر عورت کی کم لباسی عریانی لگتی ہے۔ہمیں عورت کو خریدوفروخت کی چیز بناکر اشتہار بازی فحاشی لگتی ہے۔ہمیں مرد عورت کا مخلوط محافل سجاکر جذبات کو برانگیختہ کرنا جنسی طلب بنانا لگتا ہے۔جبکہ تمھیں عام اور مذہبی عورت پورے پردے اور برقے میں قید نظر آتی ہے۔تمھیں عورت کا پردہ مرد کی تنگ نظری محسوس ہوتی ہے۔تمھیں پردے کے مذہبی احکامات ظلم عظیم لگتے ہیں۔تو مہربان قدردان بات تو ساری آنکھ دل اور نیت کے گرد آکر ٹھہر گئی۔

تمھاری آنکھ تمھارا دل اور تمھاری نیت اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کے نافرمان اور منکر ہیں تبھی تمھیں جو دکھنا چاہیے وہ نہیں دکھتا بلکہ وہ نظر آتا ہے جس کی ممانعت  ہے۔دوسری طرف ہماری آنکھ, ہمارا دل اور ہماری نیت صاف ہے تو ہم جو دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں وہی نظر آتا ہے باوجود اس کے کہ تم ہمیں کیا کچھ دکھانے کے جتن کرتے ہو۔اس بے ہودہ معاشرتی و لبرل قانون کہ  پردہ آنکھ, دل اور نیت کا ہوتا ہے نے بے شمار گھر اور معصوم زندگیاں برباد کردی ہیں۔معاشرا انارکی اور تباہی کی طرف گامزن ہو گیا ہے۔

اخبار رسائل میگزین کتب الیکٹرونک میڈیا اور اب سوشل میڈیا فقط عریانی و فحاشی کے ورچوئل اڈے بن گئے ہیں۔کسی اخبار کو پکڑ لیں اور مشاہدہ کریں ، اندرونی صفحات فحش و نامعقول اشتہارات  سے اٹا ہوگا۔فحش فلموں اور فحش سٹیج اداکاراؤں سے مزین شہر کے مرکزی حصے میں واقع تھیٹرز اور سینما کے اشتہارات چمک رہے ہوتے ہیں۔ہفتہ وار خاص اشاعت کے اخباری میگزین کھول لیں تو حکمت و طب کے نام پر فحش گوئی اور بکواس کے علاوہ  کچھ نہیں ملتا۔

ماہانہ بین الاقوامی طرز کے اردو میگزین پکڑ لیں تو فرنٹ پر کسی تباہ معصوم زندگی کا بگڑا ہوا اور باغی چہرہ لیپا پوتی سے مزین بڑے سارے گرافک کی صورت نظر آئے گا اور اندر جھانکیں گے تو کسی زینب کسی نور کسی طیبہ کسی تہمینہ کی کہانی بیان کرکے منافقت کا عظیم ریکارڈ بنایا گیا ہوگا لیکن اس کے باوجود وہ  خاتون  میگزین کے سینٹر میں دیگر ناقابل بیان لباس زیب تن کیے الگ الگ انداز میں لیٹ اور کھڑی ہوکر تصاویر کھنچواتی نظر آئے گی کسی نامحرم کے سامنے جو فرنٹ پر موجود تھی۔اور ذرا ٹیلی ویژن کھولیں تو انٹرٹینمنٹ کے نام پر جو قیامت برپا کی گئی ہے اس کو دیکھ کر شیطان تک انگلیاں دانتوں تلے دبا لیتا ہوگا کہ بھیا میں نے تو اتنی    توقع بھی نہیں کی  تھی۔

کہیں مارننگ شوز میں ایسی  خواتین نے میلہ سجایا ہوا ہے  جو دوسری عورتوں کو  آزادی کے نام پر بغاوت کا درس دے رہی ہیں۔بغاوت اخلاقیات سے،بغاوت مرد ذات سے،بغاوت معاشرت سے،بغاوت مذہب و روایات سے،اور کہیں کوئی خواجہ سرا بننے کی کوشش کرتا  کوئی اچھا بھلا آدمی   صبح صبح ٹھیک اس صبح کی اگلی صبح اپنے پست ذہن ہونے کا مکمل ثبوت دے رہا ہوتا ہے جب زینب اور اس جیسی دو تین معصوم زندگیاں تار تار ہوکر اپنی عزت اور زندگی گنوا چکی ہوتی ہیں۔

اسی صبح کی اگلی صبح وہ کراچی و دیگر شہروں کی مزید معصوم زینبوں کو میڈیا کی طاقت اور چکا چوند کے لالچ میں گھروں سے ان کی مرضی سے   باہر نکالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔پھر ان معصوم  بچیوں کو سارے زمانے ک ےسامنے تماشا بنایا جاتا ہے۔ناچنے کو بھارتی گانے بیک گراؤنڈ پر چلوائے جاتے ہیں  ،جو ہیجانی  اور حیوانی  ماحول بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔اس سارے حیوانی ڈانس مقابلے سے قوم اور دین پرست طبقے کو بس یہی پیغام دینا مقصود تھا کہ لو یہ ایک اور کھیپ تیار کردی اب لوٹنے والے درکار ہیں۔

جس قدر بے ہنگم اور فحش انداز کا رقصی مقابلہ ہوا اللہ کی امان یقیناً بھارتیوں کو بھی دانتوں تلے پسینا آگیا ہوگا۔اسی طرح آپ پرائم ٹائم ڈرامہ سیریلز کے شو گن لیں تو نام سے لے کر ان میں موجود اداکاروں کے کام اور کہانی سب مذہب بیزار اور معاشرے کو بغاوت سے ہمکنار کرنے کی سعی ہے۔بچوں کو سستی تفریح کے نام پر کارٹون چینلزکا رسیا بنانے والے والدین آج بیٹھ کر کارٹون بھی بچوں کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے جومجسم غیرفطری, غیر انسانی, غیر مذہبی اور غیراخلاقی نظریات کے پرچارک اور براہ راست ثقافتی حملہ ہیں نئی نسل پر۔خبریں دیکھنے کی غرض سے نیوز چینل کھول لیں تو وہ بھی چلتی پھرتی عریانی و فحاشی کی دعوت ہی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔کسی کی عزت اور جان جاتی ہے پر میڈیا مرچ مصالحے کا تڑکہ لگا رہا ہوتا ہے۔

اتنی دفعہ عزت لوٹنے والے نے متاثرہ کو  بے لباس نہیں کیا ہوتا, عزت نہیں لوٹی ہوتی جتنی دفعہ  یہ بکاؤ اور بے رحم میڈیا بریکنگ نیوز, ریٹنگ اور نام نہاد انصاف کی آڑ میں متاثرہ انسان کو بے عزت کردیتا ہے۔

بند کرو یہ منافقانہ تماشہ۔یہ جو زینب لٹی جو طیبہ لٹی جو تہمینہ لٹی جو نور لٹی جو دیگر اور معصوم بچیاں لٹی پھر کٹی سب کے اصل قاتل اور ذمہ دار تم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اور لبرل بیانیے والے ہو۔اب بھی تمھاری خونی  پیاس اور ہوس  نہیں بجھی اور سیکس ایجوکیشن کا ٹنٹنا لے کر بجانا شروع کردیا۔مطلب جو لوگ جو معصوم اور بھولی زندگیاں اب تک تمھاری اس شیطانی و دجالی دنیا سے مخفوظ تھیں اب وہ بھی  اس کا شکار ہوں۔میڈیا آزاد کردو شخصی آزادی دے دو، جمہوریت لاؤ کے نعرے لگا کر کون سا تیر مارا ہے اب تک تم نے جو اب سیکس ایجوکیشن سے ماروگے, جو اب عورت کی آزادی سے ماروگے اور جو تم لبرل بیانیے سے ماروگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیوقوف عوام تم ہی ہوش کے ناخن لو۔تمھاری زینبیں اب اور غیر محفوظ ہوں گی۔اور تم خود ان کے لٹنے کا سامان کروگے اگر اب بھی غفلت کا شکار رہوگے۔کسی ساحر لودھی اور کسی شائستہ کو جرات اور ہمت نہ ہو تمھاری بیٹیوں کو سرعام نچانے کی اگر تم میں غیرت, حمیت اور شرم کا فقدان نہ  ہو تو؟جب تمھاری بیٹیوں کو تم شرم و حیا دوگے تو وہ محفوظ رہیں گی۔اگر تم ہی ان سے شرم و حیا چھین لوگے اتنی سی عمر میں وہ یا تو زینب کی طرح لٹ کر ایک دن مریں گی یا تمھاری ناک کٹوا کر کسی کوٹھے کی زینت بنیں گی۔تم خود ہی فیصلہ کرلوکہ تم نے اپنی بیٹیوں کو کیا بنانا ہے۔عزت دار بیٹی یا پھر مظلوم زینب ۔بیٹی آپ کی, سوچ آپ کی اور فیصلہ آپ کا۔ذرا نہیں پورا سوچیے!

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply