الحاد سے کوانٹم تھیوری تک /ترتیب و انتخاب: علی رضا کوثر

جدید الحاد کی شروعات آج سے تقریباً دو تین سو سال قبل یورپ سے ہوئی جس کی وجہ اس وقت کے عیسائی پادری تھے، ہوا یوں کہ ان پادریوں نے قدیم فلسفیوں کے نظریات اپنے کتابوں میں کچھ اس طرح ڈال دیے کہ گویا وہ بھی عیسائی مذہب کا حصہ بن گئے جن کو نہ ماننا مذہب کے خلاف جانا تھا، یہاں سے مسئلہ بڑھا اور یوں ہوا کہ اگر کوئی سائنسدان یا محقق اپنے نظریات پیش کرتا جو مذہب اور پادریوں کی  کتابوں کے خلاف ہوتے تو ان پر مقدمہ چلایا جاتا ان کو سزائیں دی  جاتیں، ایک ریکارڈ کے مطابق اس سلسلے میں تقریباً تین لاکھ انسانوں کا قتل ہوا جن میں 32000 سائنسدان تھے جنہیں زندہ جلایا گیا تھا ان میں سے ایک مشہور سائنسدان برونو Bruno بھی تھا جسے اس لئے جلایا گیا کہ وہ زمین کی طرح اور سیاروں پر بھی زندگی کے ہونے کا قائل تھا اور گلیلیو کا تو آپ نے سنا ہی ہے۔ اہل کلیسا کی اس وحشت نے انسانوں کو دو گروہوں  بھی بانٹ دیا، مذہبی گروہ اور سائنسی گروہ۔ اور ان اذیتناک سزاؤں سے تنگ آکر سائنسی بندوں نے مذہب سے ہاتھ اٹھانا بہتر سمجھا اور سائنس کو اپنے دامن میں لے کر زندگی گذارنے لگے اور یہ سوچنے لگے کہ مذہب اور سائنس الگ الگ ہیں۔ لیکن مذہب سے بیزار وہ بندے خدا سے بیزار ہرگز نہ تھے۔ وہ کائنات کو دیکھ کر دل ہی دل میں اسکے بنانے والے کا اظہار کرتے ،پھر ڈارون آگے بڑھا اور اس نے اپنا نظریا پیش کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ مادہ تو شروع سے ہی تھا بس کچھ طبیعی تبدیلیوں کے سبب اس مادہ میں اچانک سے ‘جان’ پڑ گئی اور پھر ارتقا ہوتی چلی گئی۔

اب جو جاندار ماحول کی سختی اور مناسب تبدیلیاں برداشت کر پایا وہ ارتقا کرتا چلا گیا ،جو برداشت نہ کر سکا، اس کا سفر وہیں ختم ہوا ۔اسے ڈارون جہدالبقاء یعنی Struggle for Existence کہتا ہے ڈارون کے اس نظریے نے مادہ پرستوں کے جسم میں جیسے روح پھونک دی لیکن پھر بھی ایک سوال جو حل نہ ہو سکا وہ یہ کہ شروع شروع میں جو غیرجاندار مادہ تھا اس میں ‘جان’ کیسے آگئی؟

اس کا جواب دینے کیلئے برگساں کا نظریہ ارتقاء Creative Evolution اور لارڈ مارگن کا نظریہ ارتقا Emergent Evolution سامنے آیا لیکن وہ بھی اس سوال کے جواب سے قاصر رہے اور شاید اسی لئے بیسویں صدی کے عظیم فلسفی برٹرنڈ رسل نے بے ساختہ کہہ دیا کہ ” آج تک کوئی یہ نہ بتا سکا کہ مادہ میں آنے والی میکانیکل تبدیلیاں(Mechanical Changes) کونسی ہیں جن سے اوّل اوّل زندگی پیدا ہوئی” اب نیوٹن آگے بڑھا اور اپنا قانون Law of Gravitation دیا جس سے یہ پتہ چل گیا کہ کشش ثقل ہی وہ میکانکی عمل ہے جس  پر پوری کائنات ڈپینڈنٹ   ہے یہاں سے جان ڈالٹن نے اپنا حصہ ڈالا اور نظریہ پیش کیا جسے ہم Dalton’s Atomic Theory کہتے ہیں جس میں اس نے کہا کہ کائنات مادہ سے بنی ہے اور مادہ ایٹم سے اور پھر لینڈالٹ Landolt نے اپنے تجربوں سے یہ ثابت کیا کہ ‘مادہ ازلی و ابدی ہے، اسے نہ پیدا کیا جاسکتا ہے نہ فنا’ یہاں سے فرانس کے ایک سائنسدان Laplas کو بھی اپنا نظریا پیش کرنے کی سوجھی! جو حقیقت میں نیوٹن اور ڈالٹن کے نظریات سے متاثر ہوا تھا، اس کا کہنا تھا کہ “خدا کی کوئی ضرورت نہیں یہ کائنات بغیر کسی خالق کے فقط میکانکی اصولوں پر چل رہی ہے ” Ref: Modern Belief, V III یہاں سے پھر وہی الحاد  کی جنگ شروع ہوگئی کہ اب تو ثابت ہوگیا کہ واقعی خدا نہیں۔ ریل گاڑی پھر سے اسی اسٹیشن پہ پہنچ گئی جہاں سے چلی تھی۔ اب انتظار تھا کسی نئے نظریے کا اور وہ نظریہ بھی دیر سویر آ ہی گیا۔ یعنی اب میدان میں Quantum Theory کا نظریہ آچکا تھا جس نے ریل گاڑی میں پھر سے پٹرول ڈالا اور وہ ایسی چلی کہ ایک بار پھر مادہ پرستوں کی کمر توڑ دی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈالٹن کے مطابق ہر شے مادہ سے بنی ہے اور مادہ ایٹم سے بنا ہے جو وزن رکھتا ہے اور جگہ بھی لیتا ہے یعنی ثابت ہوا کہ مادہ اور انرجی دو الگ چیزیں ہیں کیونکہ مادہ وزن رکھتا ہے پر انرجی نہ وزن رکھتی ہے نہ والیوم اور نہ ہی مستقل شکل۔ پر آج کے کوانٹم نظریے سے یہ ثابت ہوچلا ہے کہ مادہ اور انرجی دو الگ الگ چیزیں نہیں کیونکہ مادہ انرجی میں جبکہ انرجی مادہ میں تبدیل ہوسکتی ہے اب تو سائنسدانوں نے ایک ایسا پارٹیکل بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو بنیادی طور پر مادہ کا جزو  ہے جو اپنا وجود ایک سیکنڈ کے اربویں حصے کے ہزارویں حصے تک برقرار رکھ پاتا ہے اس پارٹیکل کو Z-Particle کہتے ہیں زیڈ پارٹیکل کو مد نظر رکھتے ہوئے کائنات کے ازلی و ابدی ہونے والا کانسیپٹ رد ہوچکا، اب تو سائنسدان یہ تک بتا رہے ہیں کہ کائنات کتنے سال قبل تھی ہی نہیں اور کب کائنات کا اختتام ہوگا یعنی کوانٹم تھیوری نے مادہ پرستوں کے ایمان کی دھجیاں اڑا دی ہیں لیکن یہاں پر ہم یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ کوانٹم تھیوری حرف آخر ہے کیونکہ ڈارون، نیوٹن، ڈالٹن، لاپلاس ان سب نظریات کو بھی رد کیا گیا اور کیا پتہ کوانٹم تھیوری کو بھی کسی تھیوری سے رد کیا جائے یعنی آگے کیا ہوگا واللہ اعلم۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply