صاحبانِ ذوق! جانتے ہو یہ مہنگائی کیوں ہے /عثمان انجم زوجان

امیر پکارے، ہائے مہنگائی!
غریب پکارے، ہائے مہنگائی!

میں آج بھی بچپن کے وہ دن یاد کرتی ہوں!

ارے کون سے وہ دن؟

ارے وہی بچپن کے دن! جب ہم چار بھائی بھوک سے نڈھال ہو جاتے تھے!

اچھا تو پھر کیا ہوا؟

ارے بابا ہونا کیا تھا، میری ماں مجھے کبھی پندرہ تو کبھی بیس روپے دیا کرتیں تھیں اور کہتیں تھیں:

”ایلے پیسے تہ نسی کہ کھچ، نان پکوڑے کنی آچھ“

یعنی یہ لو پیسے اور بھاگ کر جاؤ، نان پکوڑے لے آؤ!

میں بھاگی بھاگی نان پکوڑے لے آتیں اور ہم چار بھائی اور پانچویں ماں تین تین پکوڑے نان سے کھاتے اور خوب سیر ہو کر کھاتے تھے!

پہلے تو پندرہ بیس روپے بھی بہت زیادہ تھے اور اب دو ہزار روپے بھی کم پڑ جاتے ہیں!

ارے یہ کوئی مذاق ٹھٹہ نہیں حقائق کی ترجمانی ہے!

وہ کیسے؟

اچھا تو سنو! عید الفطر کے دو تین دن بعد میری دو سہیلیاں ڈڈیال سے میرپور مجھے ملنے آئیں تو میں انہیں نفیس ہوٹل پر لے گی!

کھانے کا پوچھا تو صاف انکار، بہر حال میں بضد رہی کہ چلو کھانا نہ سہی پر چاٹ تو ضرور کھائیں گئیں؟

میں نے ویٹر کو بلایا اور کہا:

”تین سنگل چاٹ لاؤ“

افف میرپور کا مانا جانا مشہور و معروف نفیس ہوٹل اور اتنی بد مزہ چاٹ!

کیوں کیا ہوا؟

ارے بابا! چاٹ بنانے والا نجانے کون خوش بخت تھا، چاٹ بنائی تو ایسی، اللہ اللہ توبہ توبہ، نہ کھا سکتے تھے نہ پھینک اور جانتے ہو؟

چاٹ بھی نہ ہونے کے برابر!

کھانے سے فارغ ہونے پر پانی مانگا تو وہ نیسلے کی بوتل لایا اور پانی پی کر میں بل دینے گئ تو بل تھا، 1720 روپے!

جی ہاں! 1720 روپے جس میں 180 روپے صرف پانی کے تھے!

آج میں ملک کے اندر پائی جانے والی صورتحال کا کچھ ذکر کرنا چاہتی ہوں!

جہاں عوام آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی سے عاجز آتی جا رہی ہیں، حال ہی میں ایک معتبر ادارے کی طرف سے کیے جانے والے عوامی سروے میں جب پوچھا گیا کہ آپ کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

تو عوام کی بھاری اکثریت نے مہنگائی کا نام لیا، کہنے کو اور مسائل بھی ہیں:

جیسے تعلیم و تربیت، صحت و صفائی، بے روزگاری و نوکری، کرپشن و پروموشن، صلح و صفائی، بنیادی و سطحی حقوق، چوری و چاکاری، عدل و انصاف، نکاح و طلاق غرض چاروں طرف طرح طرح کے مسائل بکھرے پڑے ہیں!

لیکن مہنگائی نے غریب امیر کا جینا مرنا عذاب بنا دیا، دل کی تختی پہ اپنے خون سے لکھ لو، اگر اس کو نہ روکا گیا تو ایک طوفان اٹھے گا، جو کسی سے قابو نہ ہو سکے گا!

بقول مفتی محمد راشد ڈسکوی عام طور پر مہنگائی کی ظاہری وجوہات اور ظاہری اسباب پر تو تجزیہ نگار تبصرے فرما رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کی اصل وجوہات اور حقیقی اسباب کی طرف عموماً توجہ نہیں جاتی!

صاحبانِ ذوق! جانتے ہو یہ مہنگائی کیوں ہے؟

ذرا سورہ طہ کی یہ آیت تو تلاوت کیجیے!

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا

ارشاد خداوندی سنیں! جو میرے ذکر سے اعراض برتے گا، میں ضرور اس کی معیشت تنگ کر دوں گا!

معیشت کا تنگ ہونا ہی تو مہنگائی ہے نا، اور یہ مہنگائی اللہ کے ذکر سے روگردانی کی وجہ سے ہے!

ہم ذکر نہیں کرتے ہم فکر نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ہم کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتے!

نہ شاہی میں نہ گدائی میں!

اب سورہ البقرہ کی یہ آیت تلاوت کیجے!

فَاذۡكُرُوۡنِىۡٓ اَذۡكُرۡكُمۡ

ارشاد خداوندی پھر سے سنیں! تو میرا ذکر کر میں تیرا ذکر کروں گا!

تو دعا سے ذکر کر میں عطا کر کروں گا!
تو تعظیم سے سے ذکر کر میں تکریم سے کروں گا!
تو توبہ سے ذکر کر میں مغفرت سے کروں گا!
تو جیسا بھی ہے میرا ذکر کر میں جیسا بھی ہوں تیرا کروں گا!

سنن ابو داؤد کی ایک روایت، جس کے روای حضرت انس ؓ ہیں، میری نظروں سے گزری، ذرا وہ بھی سن پڑھ لیجئے!

لوگوں نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسولﷺ! گرانی یعنی مہنگائی بڑھ گئی ہے، لہٰذا آپ نرخ مقرر فرما دیجیے،

تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے!

اے مورکھو! اربابِ حکومت کو دوش کیوں دیتے ہیں؟

کبھی اپنے گریبان میں جھانک کے تو دیکھو، آخر دوش ہے کس کا؟

وَاذۡكُرِ اسۡمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلۡ اِلَيۡهِ تَبۡتِيۡلًا

اور ذکر کر اپنے رب کا اور ہر شے سے کٹ کر رہ جا!

Advertisements
julia rana solicitors

بس ذکر و فکر میں مشغول رہیں اور ثمرات دیکھیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply