حریم کی موت خٹک زینے کی موت۔۔اے وسیم خٹک

لکھنے کو کیا لکھا جائے ۔۔اور کیوں لکھا جائے، جب ہمارے لکھے الفاظ سے کچھ بھی نہیں ہونے والا ۔درندگی ختم ہوتی تو لکھتے مگر یہاں تو ٹرینڈ کے ٹرینڈ بنتے ہیں ۔ایشو اتنا آگے جاتا ہے کہ الرٹ تک بنائے جاتے ہیں ۔مگر پھر کہیں نہ کہیں سے ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے ،ایک نئی بربریت کی داستان رقم ہوتی ہے ۔ایک نیا کردار ہماری مردانگی پر تھپڑ ماردیتا ہے ۔ایک نیامعصوم چہرہ ہمارے ذہنوں پر نقش ہوجاتا ہے ،جس کے سامنے ہم بے بس ہوجاتے ہیں ۔

میں اس موضوع پر اب بالکل بھی نہیں لکھتا کیونکہ کلیجہ پھٹتا ہے ۔دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے ۔مجھے اپنا آپ قاتل نظر آتا ہے کیونکہ جس کے قاتل نامعلوم ہوں اس کی قاتل ریاست ہوتی ہے، اور ہم سب اس ریاست کا حصہ ہیں ،جس کو آج کے دور میں ریاست ِ مدینہ سے تشبیہ  دی جاتی ہے ۔میں خوش تھا کہ جنوبی اضلاع میں اب تک ایسا دردناک واقعہ پیش نہیں آیا ۔ہم لوگ ابھی تہذیب یافتہ ہیں، مردان، چارسدہ، سوات، ایبٹ  آباد، ہری پور پشاور میں بچوں سے جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے آئے ۔ملک کے دیگر حصوں گوجرانوالہ،گجرات وغیرہ سمیت ہر جگہ درندگی کے واقعات ریکارڈ پر آئے ۔جنوبی اضلاع اس کے اثر سے محفوظ تھا ۔۔ مگر گزشتہ روز جب میڈیا میں کوہاٹ کی حریم کی تصویر سامنے آئی تو دعا مانگی کاش یہ ویسا واقعہ نہ ہو ، مگر ک ہونی  کو کون ٹال سکتا ہے ۔درندے ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔یہ بھی اُس جیسا ہی واقعہ تھا ۔ زینب کی تصویر کے ساتھ حریم کی تصویر کا بھی اضافہ ہوگیا ۔ اور حریم ضلع کُرک کی نکلی ،جس نے ابھی کلی بن کر کھلنا تھا ۔کس کرب سے حریم گزری ہوگی ۔وہ کون سا عذاب کا لمحہ ہوگا کس طرح کسی درندے نے حریم پر نظر ڈالی ہوگی اور رگ حیوانیت نے مجبور کیا ہوگا ۔اور نجانے کس بہانے سے اس نے حریم کو اُکسایا ہوگا ۔

یہ سوچتے ہوئے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔نجانے کیوں کر قانون ہمیں ان درندوں کو سرِ عام پھانسی سے روکے رکھتی ہے ۔کیوں کر قوانین میں ہم ترامیم نہیں کرسکتے کہ ایسے مجرموں کو بیچ چوراہے پر ہی سر ِ عام نشان عبرت بنایا جائے ۔صرف پھانسی اس کا حل نہیں ۔حکومت نے ایک ہفتہ قبل ہی دو جنونیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے انہیں سزائے موت  سنائی ہے ۔اور یہ ایک اچھا قدم ہے ۔ان جنونیوں  اور  درندوں کو جتنی جلدی ہوسکے پھانسی کی سولی پر لٹکادیا جائے اور ملک کے جتنے بھی الیکٹرانک چینل ہیں اس جرم میں ملوث لوگوں کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کریں ۔تاکہ ایسی عبرتناک موت کو دنیا دیکھے تو کسی کو یہ جرم کرنے کی ہمت نہیں ہوگی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب قانون بن گیا ہے مگر اس قانون کے تحت مجرم عرصہ تک پابند سلاسل رہتا ہے حالانکہ ایسے جانور کو جینے کا کوئی حق ہی نہیں ہو نا چاہیے  ۔اس کا پل پل جہنم بنایا جائے ۔جس کے لئے جتنے سخت قوانین ہوں بنانے چاہئیں اگر عالمی دنیا اس پر پابندی لگاتی ہے تو انہیں بھی کرا کرا جواب دینا چاہیے ۔شاید اب یہ ظلم مٹنے کے قریب آگیا ہے ۔نجانے مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ یہ حریم کی موت نہیں پورے خٹک زینے کی موت ہے جو حریم کے قاتلوں کی گرفتاری کے ساتھ ہی دوبارہ دوسرا جنم لےگا۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply