ہم سات ، ایک ساتھ , سفر نامہ(6)-زید محسن حفید سلطان

لاہور کی سیر کیلئے ہم نے بس اتنا ہی وقت رکھا تھا اس لئے اب وقت ہوا چاہتا تھا کہ لاہور کو الوداع کہا جائے اور اہلیانِ دل کے شہر سے آگے اپنے کارواں کو بڑھایا جائے۔۔۔۔بقول اقبال (تھوڑی تبدیلی کے بعد)
لاہور سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی سفر کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
سو ہم نے بغیر کوئی دقیقہ فروگزاشت کئے پیدل ہی لاری اڈے کا رخ کیا ، اوراگلے سفر کیلئے مانسہرہ کی گاڑی تلاش کی ، کچھ دیر کی تگ و دو کے بعد ہم dewoo bus کی سات سیٹیں بک کروا چکے تھے۔۔۔۔لیکن ابھی گاڑی چلنے میں کوئی دو ڈھائی گھنٹے باقی تھے اور ہمارا سامان بھی مہمان خانہ (جس کو انگریزی میں “گیسٹ ہاؤس” کہتے ہیں) میں ہی رکھا ہوا تھا سو ہم نے سوچا کیوں نا سامان بھی اٹھا لیا جائے اور کچھ کھا پی بھی لیا جائے ، لیکن اب واپس ہوٹل تک کیسے جانا ہے؟

یہ سوال یوں اٹھا کہ لاہور میں سواریاں بہت ہیں ، ایک طرف بائکیا وغیرہ کا زور ہے تو ساتھ ہی رکشہ ، ٹیکسی ، اور کئی ایک طرح کی بسیں بھی مل جاتی ہیں کہیں روڈوں پر لال رنگ کی بسیں رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں تو کہیں سر کے اوپر سے اورنج لائن فراٹے بھرتے ہوئے جھلک دکھا جاتی ہے ، پھر لوکل اپنی جگہ ہے ، اس کے باوجود سب سے زیادہ چلنے والی بلکہ دندناتی پھرنے والی جو سواری ہے وہ چنگچی رکشہ ہی ہے ، جس کے حوالے سے ہر نئی حکومت اور ہر نیا مقرر شدہ وزیر و مشیر خاتمے کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس چنگچی رکشے اور اپنے ہاں کے کھٹملوں کا حال ایک سا ہی معلوم ہوتا ہے ، در اصل ہمارے ہاں کھٹملوں کے حوالے سے ایک فلسفہ بڑا مشہور ہے کہ ان کو مارنا نہیں چاہئے کیونکہ ایک کھٹمل کے خون سے سو کھٹمل مزید پیدا ہو جاتے ہیں ، (یہاں پر اصلی والے کھٹمل کی بات ہو رہی ہے ، ویسے اگر آپ کچھ اور سمجھ رہے ہیں تو وہ بھی صحیح ہے) لگتا ہے ایسا ہی کھٹملوں والا حال کچھ چنگچی مافیا کا بھی ہے کیونکہ ہمیں ہر دفعہ چنگچیوں کی تعداد پچھلی دفعہ سے زیادہ ہی محسوس ہوتی ہے حالانکہ وعدہ تو خاتمے کا ہوتا ہے ، یوں بھی اکثر چنگچیاں اپنی رنگت میں بھی کھٹملوں سے کافی مشابہت رکھتی ہیں ، بہر کیف ہمارا بھی آخری انتخاب ایک چنگچی ہی ٹھہری اور ہم سارے ایک چنگچی میں بیٹھ کر سامان لینے کیلئے روانہ ہو گئے ، سامان اٹھا کر بھوک کا احساس کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تو قریب ہی نظریں گھمائیں کہ پتا نہیں کب لاہور آنا ہو ، کچھ اچھا سا کھانا کھا لیتے ہیں ، قریب ہی “دین تکہ” کی بڑی سی تختی آویزاں نظر آئی اور ہم تھوڑی دیر بعد ایک شاندار ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے ، اندر کافی صاف ستھرا ماحول تھا فاصلے فاصلے سے چار افراد کی ٹیبلیں سجی ہوئی تھیں ، جن میں سے دو کو ملا کر ہمارے لئے تیار کیا گیا اور پھر بیرا ہمارے حکم (آرڈر) کے انتظار میں مؤدبانہ انداز سے کھڑا ہو گیا ، یوں تو ہوٹل کی صفائی ستھرائی سے لگ رہا تھا کہ گدھے کا گوشت نہیں بکتا ہوگا اس کے باوجود ہم نے “احتیاط افسوس سے بہتر” سے دامن گیر ہوتے ہوئے مرغی پر ہی اکتفا کیا اور کڑاہی کے ساتھ تکوں کا بھی آرڈر دے ڈالا کہ آخر ہوٹل کا نام جو “Deen’s Tikka” تھا ، اب بیرہ تو چلا گیا ہے آرڈر لینے، آئیں اب ایک اہم سوال پر غور کرتے ہیں۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ جب مرغی میں کوئی وائرس پھوٹ جاتا ہے ان دنوں لاہور والوں کو کتنی مشکلات ہو جاتی ہوں گی؟ کہ گوشت پر تو پہلے ہی کھوتے کا ہونے کا شائبہ اور مرغی کھانے کے قابل نہیں! یہ تو واقعی کافی نازک صورتحال ہو گئی!
ہے نا جی؟
چلیں آپ سوال کا جواب سوچیں ہم اتنی دیر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔یہاں کا کھانا اچھا شاندار ہے لیکن آپ اس کے نام سے دھوکے میں نہیں آئیے گا کیونکہ اس کے نام میں آپ کو “تکہ” ضرور لکھا ہوا نظر آئے گا لیکن اس کے تکے میں آپ کو تکے کا ذائقہ نہیں مل پائے گا ، اور یہ صرف یہاں کا حال نہیں ہے بلکہ جس طرح مفتی طارق مسعود صاحب فرماتے ہیں نا کہ: “کراچی سے آگے بریانی کے نام پر صرف مذاق بکتا ہے” بالکل ایسا ہی حال تکے کا بھی نظر آیا کہ یا تو تکہ بکتا ہی نہیں یا پھر تکے کے نام پر مذاق بکتا ہے۔۔۔
خیر جی ذائقے اور مذاق کی باتیں پھر ہوتی رہیں گی ، فی الحال ہم چلتے ہیں لاری اڈے کو ورنہ ہمارے ساتھ سیریس والا مذاق ہو جائے گا اور گاڑی نکل جائے گی۔۔۔۔
لاری اڈے پہنچے تو بس تقریباً تیار تھی ہم نے بیگ وغیرہ رکھوائے اور کچھ ہی دیر میں بس میں موجود تقریبا تمام ہی فیچرز استعمال کر لئے ، کسی نے سیٹ پیچھے کر کے پیچھے والے کو ستایا تو کوئی تیز آواز میں گانا یا پھر نشید وبیان وغیرہ لگا کر برابر والے کو ستاتا ہوا نظر آیا ، اتنے میں اوپر سے ایک بوتل گری اور کسی کے سر پر دھماکہ ہو گیا ، پھر کوئی ویڈیوز وغیرہ میں مشغول ہو گیا ، کوئی گیم کھیلنے لگا اور کسی نے رات کی آخری تلاوت کی اور آنکھیں موند کر سو گیا۔۔۔۔۔
گاڑی چلتی رہی اور رات گہری ہوتی رہی ، پھر رات کسی جگہ پر گاڑی رکی تو سب نیچے اتر گئے کہ کچھ ٹانگیں ہی سیدھی کر لیں۔۔۔
“ارے واہ یہاں تو سردی ہے” لاہور کی گرمی سے پریشان میرے منہ سے ایک دم نکلا۔
یار ذرا دیکھو تو سہی کہ کون سی جگہ ہے ،جب دیکھا تو یہ وہ جگہ نکلی جس کے بارے میں اگر میں نعیمہ مہجور کے الفاظ لکھوں تو وہ یہ ہیں کہ یہ ایک “رنگ برنگے پہاڑوں میں گھرے جھیلوں کی گود میں سرسبز سون وادی” ہے۔
یہ ایک ایسی وادی ہے جس کی تاریخ بڑی قدیم ہے ، جس پر گزرنے والوں میں ہمیں سنکدر اعظم سے لے کر زید محسن تک بڑے بڑے نام نظر آتے ہیں ، ایک روایت کے مطابق راجہ داہر کا کوئی بیٹا محمد بن قاسم (رحمہ اللّہ) سے بھاگ کر اس طرف چلا آیا تھا ، بلکہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے تو خود اپنی خود نوشت “تزکِ بابری” میں اس وادی کا ذکر “کلدہ کنار” کے نام سے کیا ہے۔۔۔۔
جی ہاں ، یہ علاقہ پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک کنارے پر واقع کلر کہار کا خوبصورت علاقہ ہے ، جہاں کبھی ظہیر الدین بابر آرام کی غرض سے رکا کرتے تھے اور آج ہم فقط ٹانگیں سیدھی کرنے رکے تھے ، یہیں پر بابر کا تخت “تختِ بابری” اور ایک باغ بھی موجود ہے ، جس کو ٹھنڈی اور صاف ہوا کی وجہ سے بابر “الصفا” کا نام دیا تھا ، یہ باغ آج بھی موجود ہے اور ۲۰۱۹ میں یہاں پر پانچ سو سال گزرنے پر ایک تقریب بھی منعقد ہوئی تھی ، البتہ ہم نہ ہی “تختِ بابری” دیکھ سکتے تھے اور نہ ہی وہ ہوادار باغ البتہ اتنا ضرور تھا کہ اس شاندار ہوا کے چند ٹھنڈے جھونکوں سے ضرور لطف اندوز ہو سکتے تھے ، سو پندرہ منٹ کے اس وقفے میں ٹھنڈ کا خوبصورت احساس ہو گیا تھا اور تھوڑی دیر میں ہم شالیں سنبھالے دوبارہ بس میں بیٹھ رہے تھے ، ایک بار پھر سفر شروع ہو چکا تھا اور ہم پہاڑوں کی وادیوں سے گزرتے ہوئے نیند کی وادیوں میں غوطہ زن ہو کر محوِ سفر تھے۔۔۔
صبح جب آنکھ کھلی تو ہم خیبر پختونخوا میں داخل ہو چکے تھے ، ہلکی ہلکی بارش سے موٹروے چمک اٹھی تھی ، دائیں جانب دلکش پہاڑوں پر بنے ہوئے پُر فریب نقوش دل کو سکون بخش رہے تھے تو بائیں جانب وادیوں میں لہلہاتے خوبصورت کھیت اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے کافی تھے ، اسی اثنا میں گاڑی نے تھوڑا سا رخ بدلا تو سورج کی کرنوں آنکھ مچولی شروع کر دی ، سامنے دو پہاڑوں کے درمیان سے صبح کا ستارہ سر اٹھا رہا تھا ، اور اس کے دائیں جانب ذرا پیچھے کو گلیشئر توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔۔۔۔
کافی دیر تک یہی مناظر ہمارے ساتھ چلتے رہے ، پھر ہماری بس موٹروے کو چھوڑ کر دائیں جانب اندر جانے والے روڈ پر گامزن ہو گئی ، اور پھر کچھ ہی دیر بعد ایک پیٹرول پمپ پر گاڑی رک گئی ، نیچے اترے تو معلوم ہوا اڈہ آنے والا ہے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم مانسہرہ کے مین بازار میں پہنچ چکے تھے ، جہاں موسلادھار بارش نے ہمارا استقبال کیا کہ:
آئیے آپ کا ہی انتظار تھا

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

cover photo by CTI

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply