باطن اور بالیدگی/ڈاکٹر اظہر وحید

باطن اپنی بالیدگی سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک سنورا ہوا باطن ہی پہچان کا سبب ہوتا ہے۔ ایک روشن چراغ ہی فانوس کی خوبصورتی بیان کر سکتا ہے۔ باطن ہمارے حاضر اور غائب کے درمیان ایک پل کی طرح ہے … اور یہ ایک پل صراط ہے۔ صرف سیدھا چلنے والے ہی اس پر چل سکتے ہیں۔ ٹیڑھے ر استوں کے مسافر اپنی محققانہ جستجومیں عام طور پر گر جاتے ہیں۔ جیومیٹری کا کلیہ ہے … دو نکات کے درمیان مختصر ترین فاصلہ صرف سیدھی لائن بناتی ہے۔ یہ سیدھی لائن … سیدھا راستہ مختصر ترین بھی ہے اور محفوظ ترین بھی!

قرآن کریم میں درج ہے کہ تم اللہ کی سنّت میں، اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔ اللہ کے کلمات اُس کے کلیات بھی ہو سکتے ہیں۔ اُس کے کلیات تبدیل نہیں ہوتے۔ کل کا محفوظ راستہ آج غیر محفوظ نہیں ہو سکتا۔ شریعتِ محمدیؐ کا راستہ کل بھی پیغامِ فوز و فلاح تھا اور آج بھی … اور ہر آنے والے کل میں یہی راستہ انسانی فلاح کا ضامن ہو گا۔ اِسلام اُن تمام تعلیمات کا نام ہے جو ہم تک اللہ کے رسولؐ کے ذریعے پہنچتی ہیں۔ یہ تعلیمات حضرتِ انسان کی انفرادی اور اجتماعی فلاح کی ضمانت ہیں۔

کامیابی اور فلاح میں فرق ہے۔ کامیابی جزوی اور جز وقتی ہوتی ہے، فلاح ہمہ حال ہوتا ہے۔ فلاح ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ انسان کے ساتھ ایک عجب معاملہ ہے۔ باقی مخلوقات کی طرح اگر انسان صرف پیدا اور پھر مر جائے تو کوئی الجھن نہ ہو … پھر اس کے لیے جسم کی دنیا میں کامیابی ہی حتمی سمجھ لی جاتی لیکن انسان کے ساتھ یہ معاملہ عجب ہے کہ انسان پیدا تو ہوتا ہے لیکن مرتا نہیں۔ مر سکتا نہیں۔ اپنے خالق کو پہچاننے والا شعور کیسے مر سکتا ہے۔ انسان صرف ہجرت کرتا ہے … وہ فنا سے بقا کی طرف ہجرت کرتا ہے۔ صورتِ خورشید اِدھر ڈوبتا ہے، اُدھر نکل آتا ہے۔ جسم مضمحل ہوتا ہے تو روح توانا ہو جاتی ہے۔ جسم سو جاتا ہے تو روح بیدار ہو جاتی ہے۔ اضطراری فقر اسے اختیاری فقر کے قریب کر دیتا ہے۔ قوت و اختیار میں کمی اسے بے ربط ہونے سے محفوظ بھی رکھتی ہے۔ الغرض انسان ہر حال میں مکمل ہے۔ ایک طرف موت ہے تو دوسری طرف زندگی ہے۔ ایک طرف کمی ہے تو دوسری طرف فراوانی ہے۔ مال کی کمی حال کی خوش حالی بھی ہے۔

اسلام بھی ظاہر و باطن میں مکمل ہے۔ اسی لیے انسان کے لیے ضابطہِ حیات ہے۔ اسلام جسم اور روح دونوں کی سلامتی کا ضامن ہے۔ ہم نے اسلام کی حفاظت نہیں کرنی، اسلام ہماری حفاظت کرتا ہے۔ اسلام سلامتی کا راستہ ہے … ظاہر و باطن کی سلامتی! اسلام پر چلنے سے ہمارا اپنا ظاہر و باطن سلامت رہے گا … شرط یہ ہے کہ اسے جزوی نہیں، کلّی طور پر اپنایا جائے۔ احکامِ شریعہ کی ظاہر و باطن میں تعمیل و تکمیل کا اہتمام کیا جائے۔ عبادات کے ساتھ معاملات میں بھی شفافیت کا انتظام کیا جائے۔ معاملاتِ انسانی عدل کی میزان پر پرکھے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں واضح ہدایت ہے کہ عدل کرو، عدل تقویٰ کے قریب تر ہے۔ ہم نے مفہوم ِ تقویٰ کو ماتھے پر داغِ سجود تک محدود کر لیا ہے۔
عدل وہ میزان ہے جو اسی دنیا میں نصب ہے۔ جس قوم نے اس میزانِ عدل میں خلل ڈالا، وہ اسی دنیا میں رسوا ہو گئی۔ جس فرد نے میزان میں خسارہ کیا وہ خسارہ پانے والوں میں ہو گیا۔ حکم ربّی ہے … واقیمو الوزن بالقسط ولا تخسرو المیزان … ”قائم کرو اوزان، اور میزان میں خسارہ مت کرو“۔ یہ اَوزان وہ اصول اور کلیات ہیں جن پر انسانی معاشرہ قائم ہے۔ یہ اَوزان و میزان ماپ تول کے بھی ہیں اور معاملات کے بھی! اگر میں اپنے اور پرائے بیٹے میں فرق کرتا ہوں تو گویا میزان میں خلل ڈالتا ہوں، اگر میں کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی نہیں سمجھتا تو گویا فکر و نظر کے میدانِ حشر میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہوں۔ اگر میں اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہیں کرتا جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں تو میزان میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔ اگر میں خود کو ملک و ملّت کے قانون اور آئین کے تابع نہیں کرتا، خود کو فائق اور بالا سمجھتا ہوں، اور قوانین کو اپنی پسند نا پسند کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں تو یقیناً خسارہ اُٹھانے والوں میں ہوں … قریب ہے کہ مستقبل قریب میں خاسرین میں شمار کیا جاؤں اور مستقبل بعید میں اصحاب الشّمال میں شامل ہوں۔ میزانِ عدل کا شعور ملتے ہی انسان سب سے پہلے خود کو اِس میں تولتا ہے۔ جہاں خسارے کا امکان پاتا ہے، وہاں توبہ کرتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اپنے ایک مضمون ”عدل“ میں رقم طراز ہیں: ”عدل کا میدان بڑا وسیع ہے۔ یہ اِنسان کی تنہائی سے شروع ہو کر میدانِ حشر تک پھیلا ہوا ہے۔ جو شخص اپنی تنہائی سے عدل نہیں کرتا، وہ زندگی میں کیا عدل کرے گا؟ یعنی خیال عادل نہ ہو تو عمل عادل نہیں ہو سکتا، کبھی نہیں۔ ظاہر و باطن میں فرق رکھنے والا ہی ظالم ہے“۔
عدل کی ایک آسان سی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ عدل ہر شئے کو اس کی درست جگہ پر رکھنے کا نام ہے۔ عدل کا اُلٹ ظلم ہے۔ اگر بندہ خدا بن جائے، اپنے قول و فعل سے خدائی کا دعویٰ کرنے لگے تو شرک ہو گیا، ظلمِ عظیم ہو گیا … یہ ظلم و فساد اس کے باطن سے شروع ہوا اور باہر برّ و بحر میں ظاہر ہو گیا۔ فرعون ظالم تھا۔ خود کو سب سے اعلیٰ رب سمجھنے لگا … کہنے لگا۔ وہ خیال کرتا تھاکہ اس نظام ِ ربوبیت کو وہ تنِ تنہا چلا رہا ہے۔ ”سبحان ربی الاعلیٰ“ سے نکل کر ”اَنا ربکم الاعلیٰ“ تک کا سفر ایک نارِ سقر ہے۔

عدل کا تقاضا ہے کہ بندہ بندگی کے مقام تک رہے … خود کو طغیان کے طوفان میں نہ ڈالے۔ عصیان سے واپسی ممکن ہے، طغیان سے واپسی نا ممکن … جب نیل کی بے مرام لہریں آنے والے دنوں میں عبرت کا نشان بنا کر اچھال دیں تو رب ِ موسیٰؑ و ہارونؑ پر ایمان لانے کا اعلان کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ بدن کی نجات کافی نہیں۔

روح مقدم ہے اور جسم مؤخر … عدل کا تقاضا ہے کہ روح کے تقاضوں کو مقدم جانا جائے اور جسم کے تقاضوں کو مؤخر کیا جائے۔ روح کا تقاضا لطافت ہے … جسم خوگرِ کثافت! عدل کا تقاضا ہے کہ لطافت کو کثافت پر ترجیح دی جائے۔ روح باطن کی قائم مقام ہے … جسم ظاہر کا مقام ہے۔ باطن کی پاکیزگی پہلے حاصل کی جائے، ظاہر کی آراستگی کی بات بعد میں کی جائے۔ باطن کی خوشبو ظاہر کی کسی بھی خوشبو سے زیادہ تیز اور دیرپا ہے۔ باطن کی خوشبو اتنی دیرپا ہے کہ قبر کو بھی خوشبودار کر دیتی ہے۔ باطن درست ہو جائے تو ظاہر بھی درست ہو جاتا ہے۔ باطن میں نفرت، حسد، بغض اور لالچ ایسی بساند موجود ہو تو معطّر عبا و قبا کچھ کام نہیں آتی۔ یہ صرف ظاہر پرستوں کو متوجہ کرنے کام آتی ہے۔

خوشبو نُور میں ہوتی ہے۔ ظلم اور ظلمت بدبُودار ہوتے ہیں۔ نُور کا نزول باطن میں ہے۔ اِلہامِ نور کی طرف متوجہ ہونے سے باطن خوشبودار ہو جاتا ہے۔ باطن منوّر ہو تو ظاہر اَز خود پُرنور ہو جاتا ہے۔ وہ روشنی جو کائنات کی خوشبو ہے، وہ باطن ہی کی خوشبو ہے۔ اس روشنی سے اعراض تاریکی میں لے جاتا ہے … افکار و کردار کی تاریکی سب سے بھیانک تاریکی ہوتی ہے۔ اس خوشبو پر اعتراض باطن کی خوشبو سے محروم کر دیتا ہے۔ باطن کی بالیدگی مقامِ عدل پر قائم رہنے سے ہے۔ اگر ظاہر و باطن میں عدل کی میزان قائم نہیں … عدل پر ہم قائم نہیں، عدل کے قائل نہیں … تو پیشانی پر داغِ سجود، داغِ ندامت کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جس طرح جسم کی نشو و نما متوازن زمینی غذا کی محتاج ہے، اسی طرح باطن کی بالیدگی براستہ عدل ہے۔ باطن اپنی بالیدگی کے لیے آسمانی ہدایت کا محتاج ہے … اور ظاہری ہدایت سے لے کر باطنی ہدایت تک، ہدایت کے سب عالَم … ہادی ِ عالَمؐ کے نورِ ہدایت کے محتاج ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply