• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا پاکستان روس کے کیمپ یا بلاک کا حصہ ہے ؟۔۔شہسوار

کیا پاکستان روس کے کیمپ یا بلاک کا حصہ ہے ؟۔۔شہسوار

اس سوال کا جواب 24 فروری 2022 تک نفی میں تھا ۔ کیونکہ پاکستان روس کے ساتھ کبھی بھی باضابطہ یا خفیہ ، کسی طرح بھی کسی بلاک کا حصہ نہیں رہا۔
پاکستان اور روس کے درمیان آج جو کچھ بھی ہے وہ صرف خواہشات ، منصوبوں اور خوابوں کا ایک گلدستہ ہے جس سے ہم نے آئندہ کیلئے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں ۔ اسی لیے یہ سب ” گا” گے”گی “کے مترادف ہے ۔۔ موجودہ صورت حال میں سواۓ ملاقاتوں اور پاکستان کے سب سے بڑے اتحادی چین اور روس کے تعلقات کے بارے اندازوں کے کچھ نہیں ہے۔ اور جب گزرے ہوئے “کل ” کی طرف دیکھا جائے تو پاکستان اور روس کے مابین کچھ بھی ممکن نظر نہیں آتا ۔

تصویر کا دوسرا رخ اور مکمل منظر نامے کو سمجھنے کیلئے تاریخ سے بات شروع کرتے ہیں ۔
اگر تکمیل پاکستان کے نامکمل ایجنڈے مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر قیام پاکستان کے مقاصد کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کا وجود ہی روس کی توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے تھا اور ہے ۔ یہ بات تاریخ سے ناواقف لوگوں کیلئے سمجھنا اور قبول کرنا ذرا مشکل ہے ۔ اس لیے آپ کو آلہ آباد کے اس خطبے کو پورا پڑھنا ہوگا جس میں علامہ محمد اقبال نے پاکستان کا خاکہ پیش کیا تھا ۔ اسی تقریر میں جہاں اس ملک کے قیام کا خاکہ پیش کیا گیا وہیں اس کے ساتھ ہی اس ریاست کےمقاصد ،اسکے وجود کو ممکنہ خطرات اور ان سے نمٹنے کا راستہ بھی متعین کر دیا تھا۔ پاکستان کی تخلیق اپنے نظریاتی اور جغرافیائی اعتبار سے سوویت یونین کیلئے ایک چیلنج تھی۔ اس حقیقت سے ناواقف لوگ ہی لیاقت علی خان کے پڑوسی روس کو چھوڑ کر امریکہ کا اتحادی بننے پر اعتراض کرتے ہیں ۔
روس کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ روس کی توسیع پسندانہ پالیسیاں یکسر طور پر تمام ادوار میں جاری رہی ہے۔ سولہویں صدی ہی سے زار روس کے شاہی روسی سلطنت نے وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں نو آبادیاتی طرز پر لاتعداد ریاستوں پر قبضہ جمایا ۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے شاہی روس کی اس توسیع پسندانہ عزائم کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا ۔ نہ صرف وسطی ایشیاء میں قازقستان سے لے کر ازبکستان تک سات ریاستوں پر اس نے نو آبادیاتی تسلط قائم کیا بلکہ خلافت عثمانیہ سے مسلم اکثریت کے متعدد علاقوں پر بھی اس نے قبضہ کیا ۔ جن میں تاتارستان، داگستان، چچنیا، بشخورستان ، انگوشتیا ، کراچے اور کابردینو شامل ہیں ۔ یہاں آپ کو یہ بات بھی جان کر حیرانگی ہو کہ کرائمیہ خانیت بھی عثمانی سلطنت کا حصہ اور مسلم اکثریتی علاقہ ہوا کرتا تھا جس پر 1856 میں روس نے قبضہ کر لیا تھا ۔

ان علاقوں پر قبضے کے دوران اور قبضے کے بعد مسلمانوں کی نسل کشی کی باقاعدہ مہمات چلائ گئیں۔چچن جانباز اور مجاھد امام شامل کی روسی غاصبانہ قبضہ کے خلاف جدو جہد اور اسکو کچلنے کیلئے کیا گیا زار کا ظلم تاریخ کا حصہ ہے ۔ ان ترکستان ریاستوں پر قبضے کے بعد 1865 میں روس نے ویسا ہی نظام نافذ کیا تھا جیسا کچھ عرصہ پہلے سیاہ فام لوگوں کیلئے جنوبی افریقہ میں رائج تھا۔
زار کا ظلم 1917 میں ختم ہونے کے بعد جب روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تو کچھ سالوں کیلئے ان ریاستوں نے آزادی کی شکل دیکھی مگر 1922 میں لینن کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد وسطی ایشیاء اور ترکستان کی ان ریاستوں پر پھر سے روس نے قبضہ کر لیا ۔ اس دفعہ بات قبضے پر ختم نہیں ہوئی بلکہ لادین کمیونسٹ نظریات کے حامل غاصبوں نے ان ریاستوں میں اسلام کا نام لینا بھی مشکل کر دیا ۔ اس کے علاوہ محکوم قوموں پر خاص کر مسلمانوں پر جو نسل کش مظالم برپا کئے گئے اسکی دنیا کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔ مسلمانوں کی تہذیب اور دین کو ختم کرنے کیلئے کمونسٹ حکومت نے سائبریا کے جمے جنگلوں میں ہزارو مسلم علما اور مشائخ کو قید کر دیا تھا جہاں سے ان میں سے گنتی کے چند لوگ زندہ لوٹے تھے ۔ سوویت صدر جوزف اسٹالن نے 1931 سے 1936 کے دوران وسطی ایشیاء ریاستوں سے لاکھوں مسلمانوں کو نکال کر روس کے دوسرے حصوں میں زبردستی آباد کیا تھا ۔ زیادہ تر کو دریائے وولگا کے ساتھ قائم کردہ نئے صنعتی یونٹوں میں بطور مزدور کام کرنے لایا گیا تھا ۔ اس نقل مکانی سے ایک اندازے کے مطابق صرف ازبکستان اور تاجکستان کی آبادی میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔1912 میں روس میں 26000 سے زائد مساجد تھیں جو 1970 میں ایک سروے کے مطابق 500 رہ گئی  تھیں۔

یہ وہ طوفان تھا جس کے آگے بند باندھنے کیلئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمان کو اللّٰہ نے چنا تھا ۔ جسے اقبال کا خواب کہا گیا وہ کسی بھی فریضے سے کم نہیں تھا۔پاکستان کو اسلام کا قلعہ اسی لیے کہا گیا تھا کہ نا صرف یہ برصغیر کے مسلمان کی بقاء کیلئے بنا تھا بلکہ گرم پانیوں سے روس کو روک کر پاکستان نے مشرق وسطیٰ کو روس کی توسیع پسندانہ عزائم سے بچاۓ رکھا تھا ۔

لہذا قیام پاکستان کے بعد کسی غلطی سے نہیں بلکہ محمد علی جناح اور ٹرومین کے مابین خط وکتابت کے سلسلے سے رہنمائی حاصل کر کے لیاقت علی خان نے محمد علی جناح کے منشاء کے عین مطابق امریکہ کے ساتھ اتحاد میں جانے کا فیصلہ کیا ۔ اس زمانے میں امریکہ کے صدر آئزن ہاور نے پاکستان کو وہ ضروری تعاون فراہم کیا جس کی اسے اشد ضرورت تھی ۔ کچھ لوگوں کا ابھی تک یہ خیال ہے کہ شاید پاکستان نے یہ تعاون خالص لین دین کی بنیاد پر رکھا تھا ۔ لیکن اسلام کے نام پر بنی ریاست کیلئے لادین سوویت یونین کے سامنے کھڑے ہونے کیلئے اہل کتاب مغربی سے مدد لینا کبھی بھی کوئی مشکل فیصلہ نہیں تھا ۔

چنانچہ سوویت یونین نے شاہی روس کی توسیع پسندانہ پالیسیاں نا صرف جاری رکھیں بلکہ اس میں مزید شدت اور طاقت کا استعمال بھی کیا ۔ خاص کر مشرقی یورپ میں سوویت یونین نے سات ریاستوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ جن میں یوکرین،مولدووا ،بلاروس، استونیا،لتھویا ،لٹویا شامل تھیں ۔ انکے علاؤہ پولینڈ ، مشرقی جرمنی ، چیکوسلواکیہ، ہنگری ،رومانیہ ، بلغاریہ، البانیہ اور یوگوسلاویہ اسکے آئرن کرٹن کے تلے دبے ہوئے تھے ۔ جن کی خارجہ پالیسی اور دفاع پر مکمل طور پر ماسکو کا کنٹرول تھا ۔

پاکستان کے بننے کے بعد سوویت یونین پاکستان کو ہمیشہ سے ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ رہا ہے چاہیے افغانستان کا 50 اور 60 کی دہائی میں دراندازی اور پختونستان کی سازش ہو یا پھر بلوچ علیحدگی پسندوں کا 70 کی دہائی  میں سر اٹھانا۔ ان سب کے پیچھے روس اور اسکے اتحادیوں کا باقاعدہ ہاتھ ثابت ہے۔ سب سے بڑھ کر مشرقی پاکستان میں ہندوستان کی دراندازی کو سویت یونین کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ اس دوران اقوام متحدہ میں سویت یونین نے سیز فائر یا مسئلے کے سیاسی حل کی ہر کوشش کو ناکام بنایا تاکہ ہندوستان فوجی جارحیت کے ذریعے مشرقی پاکستان میں مداخلت کر سکے۔ اس دوران جب امریکہ نے پاکستان کی طرف سے مداخلت کی دھمکی کی کوشش کی سویت یونین نے بھی بھارت کی طرف سے باقاعدہ مداخلت کی دھمکی دی تھی ۔ یہی سب سے بڑی وجہ تھی جس بناء پر امریکہ اپنا بحری بیڑے کو مشرقی پاکستان بھیجنے میں ناکام رہا ۔

پھر 1973 میں سویت یونین نے افغانستان میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر داؤد خان کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب کی راہ ہموار کی ۔ کمیونسٹ نظریات کو افغانستان کی مذہبی معاشرے میں بھرپور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور 1975 ہی میں افغانستان میں اسلام پسند گروہوں نے سوشلسٹ حکومت کے خلاف مسلح جدو جہد شروع کر دی تھی۔ داؤد کو بھی احساس ہوتا چلا جا رہا تھا کہ سوشلسٹ نظریات کی افغان معاشرے میں کوئی  جگہ نہیں ہے تو اس نے بھی سوشلسٹ نظریات کی ترویج کو چھوڑنے کی کوشش کی ۔ اس سے پہلے کہ داؤد کچھ کرتا کمیونسٹ پارٹی افغانستان جسے PDPA کہا جاتا تھا اس نے KGB کے ذریعے سورر انقلاب کے ذریعے داؤد کا تختہ الٹ دیا ۔ نور محمد ترکئ کو نئے سیٹ اپ کا چیئرمین نامزد کر دیا گیا ۔ لیکن ایک سال سے کم عرصے میں اسے بھی قتل کروا کر حفیظ اللہ امین کو چیئرمین بنا دیا گیا۔ جس کی اصل وجہ نور محمد کا سوشلسٹ نظریات کی ترویج میں سست روی تھی ۔ جی وہی سست روی جس کی وجہ سے پہلے داؤد کو روسی خفیہ ایجنسی نے خاندان سمیت قتل کر دیا تھا ۔ حفیظ اللہ امین جانتا تھا کہ ماسکو کو کیا چاہیے اس لئے اس نے 1978 میں اقتدار سنبھالتے ہی بھرپور طریقے سے مارکسسٹ – لیننسٹ ایجنڈا نافذ کیا۔ اس نے مذہبی اور روایتی قوانین کو سیکولر اور مارکسسٹ-لیننسٹ قوانین سے بدل دیا۔ مردوں کو داڑھی کاٹنے کا پابند کیا گیا، عورتیں چادر نہیں پہن سکتی تھیں، اور مساجد کو بند کرنا شروع کر دیا ۔یہ سب دیکھ کر اسلام پسندوں کی تحریک میں بھی بھرپور جان پڑ چکی تھی جنہوں نے کابل انتظامیہ کو رفتہ رفتہ کابل تک محدود کر دیا تھا ۔

کابل کی PDPA انتظامیہ اسکا جواب میں مذہبی رہنماؤں اور دانشوروں کو قتل اور قید کر کے دیا ۔ افغان حکومت نے پرتشدد جبر کی مہم شروع کی، جس میں تقریباً 10,000 سے 27,000 افراد مارے گئے اور 14,000 سے 20,000 مزید کو قید کیا گیا، زیادہ تر پل چرخی جیل میں تشدد اور ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی صورتحال اس کے کنٹرول سے باہر تھی ۔ بالآخر دسمبر 1979 میں سویت یونین نے کابل انتظامیہ کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے براہِ راست افغانستان میں مداخلت کا فیصلہ کیا ۔ ان تمام حالات و واقعات کے دوران پاکستان اس مسئلے میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا ۔ پروفیسر برہان الدین ربانی اور حکمت یار روسی مداخلت سے پہلے ہی 1974 سے افغان جہاد سے منسلک ہو چکے تھے ۔ پاکستان کیلئے اپنے پڑوس میں لادین قوت کا یہ سرخ انقلاب کسی بھی طرح قابل قبول نہیں تھا کیونکہ روسی افغانستان کی بنجر وادیوں میں پتھر اور مٹی سر پر ڈالنے کیلئے نہیں آئے تھے۔

پھر جب دس سال کی خون ریزی کے بعد افغان مجاہدین نے پاکستان اور اتحادی کی مدد سے سویت یونین کو شکست دی تو سوویت یونین بھی 1991 میں تحلیل ہوگیا ۔
اب 1991 کے بعد برائے نام جمہوری روس کا آغاز ہوتا ہے جس نے باوجود سویت اور شاہی روس کی نفی کرنے کے عملی طور ر اسکی ناجائز توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھا ۔ سب سے پہلے 1991 میں روس نے جورجیا میں آزادی کے فوری بعد ہونے والی خانہ جنگی میں مداخلت کی ۔ اسکی کے ساتھ اس نے آرمینیا کے ساتھ مل کر آذربائجان سے ناگورو کاراباخ پر قبضہ کر لیا ۔ چیچنیا اور ابخازیہ نے 1994 میں آزادی کا اعلان کیا تو ان تحریکوں کو طاقت کے زور سے کچلنے کیلئے پوری قوت لگا دی گئی ۔ باوجود اسکے کہ روس نے باقاعدہ معاہدے کے بعد چیچنیا کی آزادی کو تسلیم کر لیا تھا اس نے 1999 میں ایک بار پھر اس پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ۔ چیچنیا کے ساتھ یہ خون ریزی جنگ چھے سال تک جاری رہی جو ایک وقت میں اس علاقے کے دوسری مسلم مقبوضہ ریاستوں تک بھی پھیل گئی تھیں۔
اس کے بعد 2008 میں روس ایک بار پھر جارجیا پر حملہ کیا اور اس سے اوسیٹیا کے علاقے چھین لیے۔ 2011 کے بعد جب عرب مملک میں انقلابی تبدیلیاں رونماء ہونے لگی تو روس نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جس نے اپنی ہی عوام پر روسی طیاروں سے بمباری کی اور لاکھوں شہریوں کو ہلاک کیا۔
پھر اچانک 2014 میں روس کو یاد آیا کہ یوکرین کی آزادی تاریخ کی غلطی ہے جسے درست کرنا اس پر فرض ہے ۔ لہذا پہلے کرائمیا پر قبضہ کیا گیا اور ساتھ ہی باغیوں کے ذریعے ڈونباس کے علاقوں میں شورش پیدا کر کے اسے زبردستی یوکرین سے لگ کر دیا ۔جس کا کام 2022 میں اس وقت مکمل کیا جا رہا ۔

شاہی روس ، سویت یونین اور جمھوری رشین فیڈریشن کی اس جامع توسیع پسندانہ تاریخ پر اس لیے روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ آپ پر یہ واضح کیا جا سکے کہ موجودہ روس اور سویت یونین میں صرف نام کا فرق ہے عملی طور پر اسکے عزائم اور مقاصد وہی ہیں جو اس سے پہلے سویت یونین اور زار روس کے تھے ۔ ہمارے جو لوگ اس غلط فہمی کے شکار ہیں کہ شاید روس وہ روس نہیں جس سے 70 اور 80 کی دہائی میں ہمیں سالمیت کو خطرہ تھا تو یہ آپ کی بھول ہے ۔
کیونکہ روس جببھی ہندوستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔ دیکھ لیں گے روس کو جب وہ ہندوستان کو اسلحہ فراہم کرنے کو کشمیر کی آزادی یا کشمیر میں انسانی حقوق کی غلاف ورزی سے منصوب کرے گا ۔ جب وہ ایسا کرے گا ہم بھی اسے بھرپور پذیرائی دیں گے ۔ لیکن جب تک ان خواہشات کو روس کی طرف سے عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا ۔ روس کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں کوئی  فائدہ نہیں ۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ کیونکہ وسطی ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے بعد روس سے ہمیں اب کوئی  خطرہ نہیں لہذا  اس سے فائدے ضرور اٹھانے چاہیے ۔ انکی توجہ میں پچھلے سال افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد تاجکستان میں روسی اور تاج افواج کی مشترکہ تعیناتی کی طرف دلانا چاہتا ہوں ۔ ساتھ کچھ ہی عرصے پہلے قازقستان میں ہونے والے فسادات میں روسیبفوج کی فوری طور ایکشن سے بھی بہت سے نئے محرکات کا اندازہ ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب روس کے بارے میں یہ سب باتیں جان کر اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں کوئی  امریکہ کا حامی ہوں تو یہ میری غلطی نہیں ۔ لیکن البتہ میں روس اور امریکہ میں انتخاب کرنے پر امریکہ کو اور امریکہ اور چین میں انتخاب کرنے پر چین کو پاکستان کیلئے ترجیہ دوں گا ۔ عقل والوں کیلئے اس فارمولے میں کافی نشانیاں ہیں ۔ باقی آپ کی مرضی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply