اوم پوری بڑا اداکار نہیں تھا

وہ ایک ایسا ہندوستانی تھا جو ہندوستانی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی بھی تھا۔ سرحدوں سے عاری، محبت کا پجاری، نفرت سے انکاری۔ اوم پوری کے لئے لفظ اداکار کسی طور بھی مناسب نہیں۔ وہ جب بولتا تھا تو حقیقت بولتی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات حقیقی زندگی میں اور فلمی زندگی میں یکساں رہتے تھے۔

جس طرح آواز کی بازگشت سنائی دیتی ہے بالکل اسی طرح کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی بازگشت صدیوں تک سنی جاسکتی ہے۔ اوم پوری کی شخصیت کی بازگشت بھی رہتی دنیا تک سنائی دیتی رہے گی۔ ایک ویران مندر میں گونجنے والی لفظ اوم کی بازگشت کی طرح۔ وہ خاص ہونے کے باوجود کبھی بھی کسی کو خاص نہیں لگا۔ اس کی ہنسی عام آدمیوں جیسی تھی۔ اوم پوری کا کمال یہی تھا کہ وہ فلم میں اکثر نہ ہی جذباتی کردار ادا کرتا تھا نہ ہی کامیڈی کرکے لوگوں کو ہنساتا تھا۔ اس کے باوجود وہ مقبول تھا۔ کیونکہ وہ فلم میں بھی ویسا ہی رہتا تھا جیسا کہ وہ حقیقت میں تھا۔ اُسے فلموں میں اداکاری کرتے دیکھ کر کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ کوئی اداکار ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے اپنے ہی محلے کا کوئی عام سا آدمی ہے جو اپنی ہی دُھن میں بولتا جارہا ہے ایک بھاری آواز کے ساتھ مگر سادہ سے لہجے میں۔ تصنع اور لفاظی سے عاری زبان میں۔ اس کے الفاظ سادہ ہونے کے باوجود دل میں اترجاتے تھے۔ جس طرح وہ فلم میں جذبات سے بالاتر ہوکر بولتا تھا اسی طرح حقیقت میں بھی وہ جذباتی وابستگیوں سے ہٹ کر سوچتا تھا۔ جس کا مظاہرہ اس کے پاکستان کے دوروں کے دوران ہم دیکھ چکے ہیں۔

پاک بھارت تناؤ کے دوران میڈیا ٹاک میں جس طرح کھل کر اس نے پاکستانیوں کی حمایت کی اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ایک غیر معمولی آدمی تھا۔ نفرت کے اندھیروں سے بھرپور معاشرے میں ایک ایسا آدمی جو اپنے حصے کی شمع محبت جلا کر اجالا کردیتا ہو۔ ایک ایسے ماحول میں جب وطن پرستی ہر شخص پر غالب آجاتی ہو تب بھی اگر جذباتیت سے بالاتر ہوکر اگر کوئی شخص عقل و شعور کی روشنیاں بکھیرے تو وہ دادو تحسین کا اصل حقدار ہے۔ اسے معلوم تھا کہ ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے اس کے خلاف کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ مگر پھربھی وہ ان لوگوں کے حق میں بولتا رہا جو اس کے مذہب کی وجہ سے اسے کبھی بھی اپنا نہیں سمجھتے۔ کیونکہ جن کے حق میں وہ بول رہا تھا ان لوگوں کی سوچ کے معیار کی پہلی ترجیحات میں مذہب، رنگ و نسل اور مسلک جیسی چیزیں ہوتی ہیں۔

جس ملک میں اسامہ بن لادن اور رمزی یوسف جیسے لوگ پناہ لیتے ہوں وہاں ایک ہندو اداکار کے حق میں سوچنا، بولنا اور لکھنا ایک فضول سا عمل لگتا ہے۔ عالمی دہشت گردوں کے سہولت کار عرب شہزادے ہمارے معزز مہمان بنتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں شوبِز کے لوگوں کو بازارِ حسن کے لوگ سمجھا جاتا ہو وہاں ایک اداکار جو بھارتی بھی ہو اور اوپر سے ہندو بھی ہو اس کے لئے ہمدردی رکھنے والے محض چند افراد ہی ہو سکتے ہیں۔ جن بھارتی اداکاروں کے نام کے ساتھ “خان” لگتا ہے ان کے لئے تو کچھ ہمدردی ہمارے ہاں پائی جاتی ہے مگر جن کے نام کے ساتھ “اوم” لگے …… اُف توبہ توبہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اوم پوری کو ان تمام باتوں کا علم اور سمجھ بوجھ ہونے کے باوجود کوئی پرواہ نہیں تھی اور وہ مردہ معاشرے کے حق میں ایک زندہ آدمی کی طرح بولتا رہا۔ سرحد کے دونوں پار کے لوگوں کے جذبات کی پرواہ کئے بغیر۔ بڑا آدمی ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر اس سے مل کر اپنے آپ کو کبھی بھی چھوٹا نہ سمجھیں۔ اوم پوری واقعی ایک بڑا اداکار نہیں ایک بڑا آدمی تھا۔ اگر وہ بڑا اداکار ہوتا تو اپنی حقیقی زندگی میں بھی اداکاری کے جوہر دکھاکر جھوٹی محبتیں سمیٹ سکتا تھا۔ ہمیں اوم پوری جیسا بننے کےلئے صدیاں درکار ہیں۔

Facebook Comments

افروز ہمایوں
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ ایک کتاب (ملائیشیا کیسے آگے بڑھا) کے مصنف ہیں جبکہ دوسری کتاب زیرِ تصنیف ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply