انقلاب تراشی سے پہلے انقلاب شناسی/نذر حافی

کہتے ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی شروعات تھیں۔ یہ عشق، جنون اور دیوانگی کے زمانے کی بات ہے۔ نماز ظہرین کا وقت تھا۔ انقلاب ابھی نیا نیا تھا۔ مسجد میں صفیں درست ہوچکی تھیں۔ اُدھر پیش نماز صاحب نے تکبیرۃ الاحرام کہی۔ ادھر نمازیوں نے اللہ اکبر کہنا شروع کر دیا۔ ان نمازیوں کے درمیان ایک گرما گرم انقلابی بھی تھا۔ اُس نے باآوز بلند کہا “اللہ اکبر خمینی ؒ رہبر” اور نماز شروع کر دی۔ ظہر کی نماز ختم ہوئی تو ساتھ میں بیٹھے مولانا صاحب نے بڑے پیار سے اُسے سمجھایا کہ حضرت امام خمینی ؒ کا مقام و مرتبہ اپنی جگہ مسلمہ اور عظیم ہے، لیکن تکبیرۃ الاحرام میں اللہ اکبر کے ساتھ خمینی رہبر کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ وہ گرما گرم انقلابی بڑے آرام سے سُنتا رہا۔ جب دوسری نماز یعنی عصر کی نماز کیلئے امام نے تکبیرۃ الاحرام کہی تو اس جوان نے “اللہ اکبر خمینی رہبر” کے ساتھ مولانا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے “مرگ بر دشمنِ ولایت فقیہ” کہہ کر عصر کی نماز شروع کر دی۔

ممکن ہے یہ محض ایک حکایت ہی ہو۔ تاہم یہ حکایت حقیقت کے بہت قریب ہے۔ ایران میں ایسے انقلابیوں میں سے بعض نے آگے چل کر توازن اور اعتدال کی راہ اختیار کر لی اور جو اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکے، اُن میں سے بعض تو اتنے منحرف ہوگئے کہ پھر منافقین کی صفوں میں چلے گئے۔ جوش و جنون سر آنکھوں پر، لیکن نظریاتی تربیت اور پُختگی کے بغیر یہی جوش و جنون وبال بن جاتا ہے۔ مجاہدینِ خلق کو ہی لیجئے۔ ابتدا میں یہ ایک مذہبی نقطہ نظر رکھنے والی تنظیم تھی۔ ایران میں انہوں نے پہلوی حکومت کے مظالم کا مسلحانہ جواب دینے کا راستہ اختیار کیا۔ اس کے بانیوں محمد حنیف نژاد، سعید محسن اور عبدالرضا نیکبین کو پھانسی دے دی گئی۔ اپنی قربانیوں کی وجہ سے یہ لوگ اپنے آپ کو ایران میں انقلاب کا وارث سمجھتے تھے۔ اِن کے ہاں نظریاتی تربیت کا فقدان اُس وقت سامنے آیا، جب انہوں نے حضرت امام خمینیؒ سے فاصلہ اختیار کیا۔ ان کا آج بھی یہی نعرہ ہے فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ أَجْرًا عَظِیمًا: “اللہ نے مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں پر فضیلت اور اجر عظیم عطا کیا ہے۔” اسلامی انقلاب کے مقابلے میں ان کے اس نعرے کی وہی حیثیت ہے، جو خوارج کے نعرے “لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّه: اللہ کے حکم کے سوا کوئی حکم نہیں ہے” کی تھی۔

بعد ازاں یہ لوگ اپنی نظریاتی خامیوں، تُند مزاجی اور کجروی کے باعث انقلاب کے محافظ بننے کے بجائے ضِد انقلاب لوگوں کا جتھہ بن گئے۔ اسی طرح گروہ فرقان جس نے محمد قرنی، مرتضیٰ مطهری شہید، ہاشمی‌ رفسنجانی (دو گولیاں لگنے کے باوجود زندہ بچ گئے) حاجی طرخانی، رضی شیرازی، مهدی و حسام عراقی، حسین مهدیان، آیت اللہ محمد علی قاضی طباطبائی جیسی متعدد شخصیات کو دہشتگردی کا نشانہ بنا کر اسلامی انقلاب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، یہ کوئی ان پڑھ یا دین کے دشمن نوجوان نہیں تھے بلکہ اس کے برعکس انتہائی نیک اور صاحبِ مطالعہ شمار ہوتے تھے۔ اُن کا سربراہ اکبر گودرزی صرف بیس سال کی عمر میں قرآن مجید کی تفسیر لکھنے میں مشغول تھا۔ اُس نے اپنا گروہ ہی تفسیرِ قرآن کے نام پر اکٹھا کیا تھا۔ یہ گروہ کسی کی بات پر کان ہی نہیں دھرتا تھا اور اپنے علاوہ باقی سب کو منحرف سمجھتا تھا۔ اس گروہ کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس گروہ نے اسلامی انقلاب کے عظیم مفکر شہید مطہری کو بھی ضدِ انقلاب کہہ کر شہید کر دیا۔

آج ایران میں اسلامی انقلاب کامیابیوں کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ ایران کی پُختہ اور معتدل انقلابی قیادت ہر امتحان اور آزمایش میں پوری اُتر رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے اندر بھی انقلاب اور تبدیلی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ البتہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آج بھی پیش نماز کے پیچھے تکبیرۃ الاحرام میں “اللہ اکبر خمینی رہبر” اور “مُردہ باد دُشمنِ ولایت فقیہہ” کہنے والے مرحلے پر ہی رُکے ہوئے ہوں۔ ہمیں بھی انقلاب کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سامنے گذشتہ چوالیس سال میں ایرانی انقلاب نے دنیا میں اپنی فہم و فراست اور حُسنِ تدبیر کا لوہا منوایا ہے۔ شام و عراق اور افغانستان میں ایران نے کھلم کھلا اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں۔ ایران کی کامیاب سفارتکاری نے سعودی عرب اور اُس کے حلیفوں کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ عالمی استعمار ایران کے مقابلے میں بُری طرح زِچ ہوچکا ہے۔ رہی اقتصادی مشکلات کی بات تو روس، چین اور ایران کا اقتصادی اتحاد عنقریب دنیا میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بننے والا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے میں ہمیں فرضی انقلاب تراشی کے بجائے حقیقی انقلاب شناسی سے کام لینا چاہیئے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیئے کہ پاکستان جیسے ایک مختلف مسالک و مذاہب والے ملک نیز پسماندہ مگر ایٹمی طاقت کے حامل دیس میں اسلامی، علمی، سائنسی، نظریاتی، عوامی اور حقیقی انقلاب کے تقاضے اور مقدمات کیا ہیں!؟ جب تک ہم حقیقی معنوں میں زمینی حقائق کے مطابق انقلاب شناسی نہیں کریں گے، تب تک محض زبانی کلامی انقلاب تراشی ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ ہم اپنے طور پر جتنے مرضی ہے انقلاب کے نمونے اور ڈیزائن تراشتے رہیں، اس سے کوئی انقلاب نہیں آسکتا۔ ہمیں ایران کے اسلامی انقلاب سے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح انقلاب کو خواب سے کتاب میں، کتاب سے آرزو میں، آرزو سے خون میں، خون سے داستان میں، داستان سے شعر میں، شعر سے نعرے میں، نعرے سے نظریئے میں، نظریئے سے عمل میں اور عمل سے نسل میں ڈھالا جاتا ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ‌وَر پیدا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply