• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دنیا پاکستانیوں کی جہالت پر تالی بجا رہی ہے۔۔اسد مفتی

دنیا پاکستانیوں کی جہالت پر تالی بجا رہی ہے۔۔اسد مفتی

کسی سیانے کے کہا تھا کہ “اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں اتنے سال زندہ رہوں گا تو اپنی صحت کا خیال رکھتا”۔
یہ سن کر ایک دوسرا سیانہ بولا”ہم شہزادے پیدا ہوئے تھے،مگر تہذیب نے ہمیں مینڈک بنا دیا”۔
دراصل۔۔اصل اقدار اس چیز کی نہیں ہوتی جو ہمارے پاس ہے،اس کی ہوتی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ہمارے ملک عزیز کے معاشرے میں جہاں دیگر شعبوں میں بدقماش افراد نے اپنی کالی کرتوتوں کے باعث بے اطمینانی،عدم اعتماد اور نفسیاتی بے چارگی کی فضا پیدا کررکھی ہے،وہاں اب دیارِ غیر میں یہی بدقماش لوگ اپنے پر پُرزے نکالنے اور پاؤں جمانے لگے ہیں۔
برطانیہ سے نکلنے والے اردو اخبارات و رسائل اٹھا کر دیکھیے تو آپ کو بہت سے اشتہارات یسے نظر آئیں گے جو سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بنانے اور ان کو اُنکی خواہشات کے جال میں جکڑنے کے حربے ہوں گے۔
مثلاً۔۔شادی سے پہلے اور بعد۔۔۔۔کون نہیں جاناتا۔۔”کامیاب اور مکمل علاج”حیرت انگیز کرامات والا نقش۔۔”کون کہتا ہے کلام بے اثر ہے”۔۔”ہر اُلجھن کا خاتمہ،تقدیر کو بدل دیتی ہے دعا”۔۔”دُبئی پار سے کُھلا خط”۔۔”بنگال کے مشہور عامل کا کُھلا خط”۔ “آئیے آپ کو جوان بنا دوں “۔۔”کس پر یقین کریں اور کس پر نہ کریں “۔۔انسانی مسائل کا فوری حل،وغیرہ وغیرہ۔۔
یہ قسمت کا چکر بھی عجیب ہے،مہربان ہوجائے تو فقیر کے سر پر تاج رکھ کر اُسے شاہوں کا شاہ بنادیتی ہے،اور نامہربان ہوتو تخت نشینوں کو خاک نشیں بنانے میں ذرا دیر نہیں کرتی۔جس انسان سے پوچھو وہ قسمت کا شاکی نظر آئے گا،اور خواہشیں ہیں کہ دم نہیں لینے دیتیں۔ہر خواہش کی یہ خواہش کہ مستقبل کے جھروکے سے جھانک کر آنے والے لمحات کی ایک جھلک دیکھ لی جائے۔آنے والے دنوں کا خوف انسان و چین سے بیٹھنے نہیں دیتا،اور وہ ہے کہ بے چین ہوہوکر سہارے ڈھونڈتا ہے،عاملوں نجومیوں،جوتشیوں،پیروں فقیروں،اور شعبدے بازوں کی چوکھٹوں پر حاضری دیتا ہے،اور ان کے ہاتھوں لُٹ کر خوش رہتا ہے۔
یہ لوگ۔۔یہ شعبدے باز لوگ آپ کی قسمت کا حال بتا سکتے ہیں،لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ آج تاریخ کونسی ہے۔محبت میں کامیابی کا گُر بتا سکتے ہیں اور خود کسی کی محبت تک نہ پاسکے۔
یورپ میں چونکہ سائنسی ترقی کا دور دورہ ہے،اور نقل و حمل کے جدید ذرائع میسر ہیں،اس لیے اب کسی عامل،جوتشی،یا نجومی کے روبرو حاضری ضروری نہیں رہی،بلکہ نجومی حضرات نے نقل و حمل کے جدید ذرائع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیلی ویژن،فیکس،ای میل اور بذریعہ ڈاک بھی اپنے کاروبار کو وسعت دے رکھی ہے،مثلاً آپ کسی کورے کاغذ کے ایک طرف حالِ دل بیان کرکے اُسے سپردِڈا کردیں اور آپ کا کام ختم،لیکن یاد رہے کہ لفافے میں مطلوبہ فیس ڈالنا نہ بھولیے،ورنہ آپ جواب سے محروم رہیں گے،اگر یہ سب کچھ ٹھیک طور پر انجام دیا تو آپ مطمئن رہیں وہ یقیناً آپ کو مایوس نہیں لوٹائیں گے،
میں کچھ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو یورپ میں بالخصوص انگلینڈ میں ایسے عاملوں اور جوتشیوں اور شعبدے بازوں کے ہتھے چڑھ کر نہ صرف بہت سی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،بلکہ بنا بنایا کام بھی بگاڑ چکے ہیں۔
ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ میں لندن میں رہتا ہوں نوکری چھوٹ جانے کی وجہ سے میں ذہنی طور پر پریشان رہتا تھا۔یہ پریشانی آہستہ آہستہ سر درد میں ڈھل گئی۔جو مستقل رہنے لگا۔۔میں نے اپنے ڈاکٹر سے بہت علاج کروایا،مگر افاقہ نہ ہوا،ایک رسامے میں “سو فیصد علاج”کا شتہار دیکھ کر وہاں پہنچا۔۔ایک عمارت کے گراؤنڈ فلور پر ڈاکٹر صاحب کا کلینک تھا۔قد آدم کے شیشوں سے گزر کر پہلے مجھے استقبالیہ نشست سے واسطہ پڑا،یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا،جس کی پشت پر ڈاکٹر صاحب کا کمرہ تھا جس کا دروازہ اس استقبالیہ میں کھلتا تھا،استقبالیہ نشست پر ایک اچھا پہلوان کے برادر خوار بیٹھے ہوئے تھے،مجھ سے پہلے وہاں ایک خو ش پوش اور بظاہر پڑھے لکھے تعلیم یافتہ قسم کے ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے،اب دوسرا مریض میں تھا۔۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ تعلیم یافتہ صاحب اُٹھ کر چل دیے،اور پھر نہ جانے کیوں واپس نہ آئے۔۔میں کچھ دیر انتظار کرتا رہا،اور کمرے کا جائزہ لیتا رہا،کمرے میں دو عد د شوکیس رکھے تھے،جن میں فاصلہ رکھ کر ترتیب سے چند خالی ڈبے اور کچھ خالی شیشیاں رکھی ہوئی تھیں،دیوار پر حرمین شریف کی تصویر چوبی فریم میں لٹکائی ہوئی تھی،دس منٹ بعد اس “برادرخوار”نے مجھے ڈاکٹر کے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا،
میں اندر داخل ہوا تو ڈاکٹر صاحب میز کے پیچھے اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے،بولے،فرمائیے۔۔۔
جناب ایک مسئلہ درپیش ہے۔۔وہ دن جائے اور آج کا دن آئے،میرے سر کا درد جوں کا توں ہے،مگر میں تین سو پاؤنڈ سے ہاتھ دھو چکا ہوں۔
اسی قسم کے بہت سے واقعات میری نظر سے گزرے ہیں اور جاننے والوں کی زبانی سنے ہیں۔
میری رائے میں ابھی پانی سر سے نہیں گزرا،اگر ابھی سے ہم لوگوں نے یورپ میں کاروبار کرنے والے ان عاملوں،شعبدے بازوں اور جعلی پیروں فقیروں کی روک تھام نہ کی تو ایک دن آئے گا یہ جعلی لوگ سادہ لوح عوام کی ضرورت بن جائیں گے۔لیکن اُس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔۔
اس لیے میں برطانیہ کے اربابِ اختیار،کمیونٹی رضاکاروں اور پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے سوشل ورکروں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ ان عطائیوں سے لوگوں کو بچائیں،جو ان کی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں،اور یہ لوگ محض دولت بٹورنے کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں۔
برطانیہ کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان عناصر کی بیخ کنی کے لیے خصوصی اقدامات اٹھاتے ہوئے ایسے جعلی ڈاکٹروں کی تعلیمی قابلیت جانچے،جو لوگوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صر ف ان کی صحت سے کھیل رہے ہیں،بلکہ جعل سازی کے بھی مرتکب ہورہے ہیں،یہ متعلقہ محکموں کو اس ضمن میں ترجیحی بنیادوں پر خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply