سسکتا بلکتا کراچی/عارف خٹک

کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے مگر بدقسمتی سے آج کراچی کا شمار میکسیکو کے بدنام ترین شہر تیجوانا  میں  کیا جاتا ہے۔ اس شہر نے کشت و خون کا ہر دور دیکھا ہے جہاں روزانہ ایک سو پچاس لوگ تک بنا کسی جرم کے مرتے تھے۔ افغانستان کی پراکسی جنگ یہیں  تک لڑی گئی۔ مسلح تنظیموں نے اس شہر کو ٹارگٹ کیا۔ سیاسی طور پر  ابتری کا شکار اس شہر ناپُرسان کیساتھ کیا کیا نہیں ہوا۔دو ہزار تیرہ اور چودہ کے آپریشن کے بعد کراچی نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ کراچی ایک دفعہ پھر یرغمال بن گیا۔

کراچی میں سب سے زیادہ تکلیفوں کے شکار یہیں کے باسی ہوئے۔ سندھی ووٹ کو بنیاد بنا کر کراچی کے مضافاتی گوٹھوں کو کراچی کا حصہ بنایا گیا جس کیوجہ سے لینڈ گریبنگ کو عروج حاصل ہوا۔ قتل و غارت گری جس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایسے میں کراچی کا عام باسی بے بسی سے ہر طرف دیکھتا رہا ،بالآخر اسی عام باسی نے اس کو تقدیر کا کھیل سمجھ کر خود کو الگ تھلگ کرلیا۔
ہر انسان کو اپنے خاندان کی عزت پیاری ہوتی ہے۔ عزت دار بندہ شہر میں اپنے خاندان کو گھومنے پھیرنے وہیں  لیکر جانے کو ترجیح دیتا ہے جہاں عزت کیساتھ وہ اپنی خواتین کیساتھ تھوڑی دیر تفریح کرسکے۔ کراچی والوں کیلئے تفریح کا سب سے مشہور مقام ساحل سمندر تھا جو اَب ان کیلئے خواب بن چکا ہے۔ کیونکہ وہاں زیادہ تعداد اوباش نوجوانوں کی ہوتی ہے جس میں اکثریت ہماری پشتون برادری کی ہوتی ہے۔ خواتین پر آوازیں کسنا اور چھیڑ چھاڑ ان کیلئے تفریح بن چکی ہے۔ جب سے منشیات کی وافر اور سہل دستیابی کراچی میں ممکن ہوئی ہے، اب تو اسلحہ لیکر سرعام ڈکیتیاں کرنا معمول بن چکا ہے۔ لہذا تفریحی مقامات پر اب فیملیز کا جانا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب لوگ وہاں اپنی فیملیز کیساتھ جانا پسند کرتے ہیں جہاں سکیورٹی ہو اور تحفظ کا احساس ہو۔ مگر کیا یہ تفریح کراچی کے عزت دار لوگوں کیلئے ٹھیک ہے؟۔  یہی  سوال پریشان کن ہے۔

کلفٹن سی ویو پر رات دیر تک جس قسم کے اوباش نوجوانوں کا قبضہ ہوتا ہے وہ سب  جانتے ہیں۔ ہاکس بے پر سیکس ورکرز کی آسان دستیابی کیوجہ سے ہر وقت جرائم پیشہ عناصر کی موجودگی اور ماڑی پور روڈ پر ڈکیتیوں کیوجہ سے تفریح اہلیان کراچی پر حرام ہے۔ بن قاسم پارک میں ہمارے کوئٹہ وال پشتونوں کا سرعام چرس پینا ایک عام بات ہے۔ سفاری پارک کی بھی یہی حالت ہے۔ کراچی چڑیا گھر جانے سے اچھا ہے کہ بندہ لیاری کی  ندی  میں غوطے لگالے ۔ غیر مقامیوں کیوجہ سے کراچی والوں کا پہلے ہی جینا دوبھر تھا اب تو پشتون آبادیوں میں ضم افغان مہاجرین جنہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ تک حاصل کئے ہیں اور منظم قبائلی نظام کے تحت اپنی زندگی پشتون علاقوں میں سسلیئن مافیاز کی طرح گزارتے ہیں۔ کراچی جرائم میں ان کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ سہراب گوٹھ میں مقیم افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کے اندر ایک الگ ریاست قائم کی ہے، جہاں پولیس تو کیا رینجرز بھی جانے سے کتراتی ہے۔ آپریشن سے متاثر پشتون بیلٹ جس میں زیادہ تعداد ہمارے محسود قبیلے کی ہے جوکہ منگھوپیر اور سہراب گوٹھ کے اطراف میں رہائش پذیر ہیں۔ مسلح ڈکیتیوں اور دوران ڈکیتی قتل کی  وارداتوں میں زیادہ تر یہی نوجوان ملوث ہیں۔ اب تو سرائیکی بیلٹ کے لوگ بھی منظم جرائم میں کافی تعداد میں ملوث پائے گئے ہیں۔

ہمارے پشتون نوجوانوں کی جس سوچ کو مہمیز  دی گئی ہے کہ عزت اور غیرت صرف ان کا خاصہ ہے اور باقی اقوام کی خواتین جو اپنا سر نہیں ڈھانپتیں ان کی نظر میں ایسی خواتین پیشہ ور طوائفیں ہیں اور ان کی حرمت ان پر حلال ہے۔ اس سوچ نے ایک ایسی پشتون نسل کو پروان چڑھایا ہے جو کراچی جیسے پڑھے لکھے معاشرے کیلئے ایک زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

عید کے موقع پر ہمارے پشتون لڑکوں نے جو اودھم کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں مچایا وہ ناقابل بیان ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے پشتون نوجوانوں کیوجہ سے اہلیان کراچی نے ساحل سمندر پر کب سے جانا چھوڑ دیا ہے۔ لے دیکر کراچی کی  عزت دار فیملیز پاکستان ایئر فورس میوزیم کارساز کو محفوظ تصور کرتی  تھیں، لہذا بنا کسی ڈر کے وہ اپنے خاندان والوں کیساتھ اس پارک میں شام بِتانے جاتے تھے۔ اس عید پر کچھ افغانی اور پشتون لڑکوں نے اس میوزیم میں ہلڑبازی کی۔ میری  جاننے والی ایک فیملی کا کہنا ہے میوزیم میں انھوں نے لڑکوں کے پاس  پستول تک دیکھے ہیں اور ایک فیملی کیساتھ آئے ہوئے نوجوانوں کے پاس  باکسنگ کلپس تک موجود تھے۔ یہی نوجوان خواتین کو چھیڑ رہے تھے۔ باہر پارکنگ میں کافی سارے افغانی لڑکوں نے خواتین کیساتھ دست درازی تک کی۔ انتظامیہ سے مدد مانگی گئی مگر وہ ٹس سے مس  نہیں ہوئے۔ اگر ایئر فورس کے زیر نگرانی ایک پارک کی یہ صورتحال ہے تو اندازہ لگائیں شہر کراچی کی کیا حالت ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کا فرض بنتا ہے کہ وہ کراچی کی  صورتحال کو سنجیدہ لے اور خود پر لگے ہوئے اس الزام کی نفی کریں کہ اندرون سندھ کے گوٹھوں سے تعلق رکھنے والی جماعت کا شہر قائد سے کیا لینا دینا۔ وزیراعلی ٰسندھ اور وزیرداخلہ ضیاء لنجار کو فوری طور پر سندھ رینجرز کی مدد سے کچی آبادیوں میں بھرپور آپریشن کا آغاز کرنا ہوگا۔ تاکہ آپریشن کے پہلے مرحلے میں کراچی سے اسلحہ کو کم کیا جاسکے اور پھر پروفائلنگ کردہ لوگوں کو سخت ترین سزائیں دیں۔ کیونکہ اب بہتری کی امید مزید تباہی ہے۔ یہ ذمہ داری صرف تن تنہاء ایک جماعت کی نہیں بلکہ کراچی کے ہر اسٹیک ہولڈر کی ہے ورنہ کراچی کا مہاجر اس نظریہ میں حق بجانب ہے کہ کراچی کو الگ انتظامی صوبہ بنا کر غیر مقامیوں سے پاک کیا جائے اور ان کے حوالے کیا جائے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سسکتا بلکتا کراچی/عارف خٹک

  1. بہت دن بعد آپ کی تحریر مکالمہ پہ پڑھی۔
    ہمیشہ کی طرح جیدار اور جان دار تحریر۔اصل مسلے کو قوم زبان رنگ نسل سے اوپر اٹھ کے لکھا۔
    ایسے ہر وہ شخص لکھتا ہے جس کو اپنی قوم کا دکھ ہوتا ہے۔اس کے مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔

    کاش کہ پختون خواہ کی سیاسی قیادت اپنے صوبے اور کراچی میں اپنے نوجوان کے مسائل پہ توجہ کرے۔

    قطر اور دیگر ممالک میں سرمایہ منتقل کرنے کی بجائے۔۔۔صوبہ میں چھوٹی انڈسٹری کو فروغ دے۔اپنے صوبے میں تعلیم عام کرے۔تاکہ نوجوان اتنی دور جاکر نا روزگار کے لئیے خوار ہو نا تعلیم کے لئیے

Leave a Reply