پیالی میں طوفان (67) ۔ برف میں جہاز/وہاراامباکر

اگر آپ ناروے کے سب سے شمال والے ساحل پر کھڑے ہو کر شمال کی طرف دیکھیں تو یہ سمندر ہے۔ گرمی کے مہینے میں چوبیس گھنٹے کی دھوپ سمندر پر چھوٹے پودوں کا جنگل بنا دیتی ہے۔ یہ موسمی ضایفت مچھلیوں، وہیل اور سیل کی توجہ کھینچ لیتی ہے۔ جب گرمیاں ختم ہونے لگتی ہیں تو روشنی غائب ہونے لگتی ہے۔ پانی کا درجہ حرارت، جو کہ گرمی کے عروج میں چھ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا اب نیچے آنے لگتا ہے۔ پانی نمکین ہے اور منفی دو ڈگری پر بھی برف نہیں بنا۔ لیکن ایک صاف اور تاریک رات کو برف بننے لگی۔ ایک گالہ جس نے ساتھ پانی کے سست رفتار مالیکیول چپکنے لگے۔ ہر نئے مالیکیول کو خاص جگہ پر ٹھہرنا ہے۔ گھومتے پھرتے مالیکیولز کی جگہ اب کرسٹل نے لے لی۔ یہ پانی کے مالیکیولز کی منظم شکل ہے جو hexagonal lattice کی صورت میں مل گئے ہیں۔ جیسے درجہ حرارت گرتا جائے گا، یہ کرسٹل بڑھتا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی کے کرسٹل کے بارے میں ایک بہت ہی عجیب چیز ہے۔ یہ منظم مالیکیول پہلے سے زیادہ جگہ لیتے ہیں۔ کسی بھی اور شے میں ایسا نہیں ہوتا۔
بڑھنے والا کرسٹل اپنے گرد کے پانی سے کم کثافت رکھتا ہے۔ اور اس لئے یہ تیرنے لگا ہے۔ جمنے کے ساتھ پانی پھیل جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نئی جمنے والی برف تہہ میں غرق ہو جاتی۔ اور اگر ایسا ہوتا تو قطبی سمندروں کی شکل بہت مختلف ہوتی۔ (سردیوں میں یہاں زندگی برقرار رہنا ممکن نہ رہتا)۔ درجہ حرارت گرتا گیا۔ برف پھیلتی گئی اور سمندر نے اپنی سطح پر ٹھوس سفید کوٹ پہن لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر کئی دلچسپ چیزیں ہیں۔ برفانی ریچھ، برف اور آسمان پر رنگارنگ کی شمالی روشنیاں۔ اور اس جمنے والی برف میں ایک چھوٹے اور مضبوط بحری جہاز کی کہانی بھی ہے جس نے قطبی مہمات میں غیرمعمولی سفر کئے ہیں۔ اس جہاز کا نام Fram ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کے اوائل میں قطبِ شمالی مہم جوؤں کی دلچسپی کا باعث تھا۔ کینڈا، ناروے، گرین لینڈ، روس کے شمالی حصوں کا سفر کیا جا چکا تھا۔ کسی حد تک نقشہ بندی بھی کی جا چکی تھی۔ لیکن قطب؟ یہاں پر کیا تھا؟ یہ ایک بڑا اسرار تھا۔ کیا یہاں پر سمندر تھا؟ یا زمین؟ کوئی ادھر پہنچا نہیں تھا تو کسی کو پتا نہیں تھا۔
یہ سفر مہم جوؤں کو شکست دیتا رہا۔ کیونکہ سمندر کی برف گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ موسم بدلنے کے ساتھ سمندری برف کے اوپر مزید برف آ جاتی تھی۔ پہاڑیاں بن جاتی تھی۔ اور برف کی پکڑ جہازوں کو پیس دیتی تھی۔ USS Jeanette کو 1881 میں ایسی قسمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سائبریا کے شمال میں مہینوں تک پھنسا رہا۔ جب موسم سرد ہوا تو سمندری پانی کے مالیکیول برف کے لیٹس کے ساتھ چپکنے لگے۔ مہینوں تک گھٹتی بڑھتی برف جہاز کو دباتی اور چھوڑتی۔ بالآخر یہ جہاز یہ بازی ہار گیا اور کرش ہو گیا۔
وہ مہم جو، جو کہ ٹھوس برف پر چل کر جانے کی کوشش کرتے تھے، ان کو الگ قسم کے خطرات کا سامنا تھا۔ برف پگھل جاتی تھی اور بڑی نہریں کھل جاتی تھیں۔ ان کو پار کرنے کے لئے کشتی کی ضرورت پڑتی تھی۔ اور یہ جگہ کسی بھی ملک سے سینکڑوں کلومیٹر دور تھی۔ برف کی بدلتی شکل ایک بڑی رکاوٹ تھی۔
اپنے ڈوبنے کے تین سال بعد USS Jeanette کا ملبہ غیرمتوقع طور پر گرین لینڈ کے ساحل پر پہنچ گیا۔ یہ ہر لحاظ سے حیران کن تھا۔ کیونکہ اس ملبے نے پورا آرکٹک سمندر ایک طرف سے دوسری طرف تک پار کیا تھا۔ یہ کیسے ہوا؟ اوشنوگرافرز کو اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔
لیکن اس کو دیکھ کر ناروے کے ایک نوجوان سائنسدان فرائجوف نانسن کے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا۔ اگر ایسا جہاز بنا دیا جائے تو برف کا مقابلہ کر سکے تو وہ اس کو سائبیریا لے جائیں گے اور جس جگہ پر یہ جہاز ڈوبا تھا، وہاں پر اس کو کھڑا کر دیں گے۔ کیا یہ جہاز تین سال بعد گرین لینڈ میں نمودار ہو جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو پھر نہ ہی ٹریکنگ کرنا ہو گی، نہ جہازرانی کرنا ہو گی۔ صرف برف اور ہوا کے حوالے کر دیا جائے تو وہ یہ سفر خود ہی کروا دیں گی۔ واحد مسئلہ انتظار کرنے کا ہی تھا۔
نانسن کے آئیڈیا کو پاگل پن کہا گیا لیکن وہ اس کے لئے پیسے اکٹھے کرنے میں کامیاب رہے۔ اور انہوں نے ایک بہترین بحری آرکیٹکٹ کی خدمات حاصل کیں۔ اور یوں Fram وجود میں آیا۔
جب پانی جمتا ہے تو اس کے مالیکیول کو lattice میں خاص جگہ پر لگنا ہے۔ اگر اس کے پاس جگہ نہیں ہو گی تو یہ اپنے قریب کی ہر شے پر دباؤ ڈالاے گا۔ بڑھتی برف کو زیادہ سے زیادہ جگہ چاہیے ہو گی اور اس کا دباؤ پھنسے ہوئے جہاز پر پڑے گا۔ کوئی جہاز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قطب شمالی کے قریب برف کتنی موٹی ہو گی۔
فریم نے اس مسئلے کا بہت سادہ حل نکالا۔ اس کو موٹا اور گول بنایا گیا۔ 128 فٹ لمبا اور 36 فٹ چوڑا۔ یہ گولائی میں تھا۔ اس کے انجن اور رڈر کو پانی سے نکالا جا سکتا تھا۔
جب برف آئی تو یہ جہاز ایک تیرتا ہوا پیالا بن گیا۔ اگر اگر پیالے کو دبائیں گے تو یہ اوپر کی طرف جائے گا۔ اگر برف کا دباؤ زیادہ ہو جائے گا تو یہ اس کے اوپر بیٹھ جائے گا۔ اس کو لکڑی سے بنایا گیا جو کئی جگہ پر تین فٹ چوڑی تھی۔ عملے کو گرم رکھنے کے لئے انسولیشن تھی۔ جون 1983 کو یہ ناروے سے نکلا۔ بہت سی عوامی حمایت اور تیرہ افراد کا عملہ ہمراہ تھا۔ یہ اس مقام تک پہنچ گیا جہاں جینیٹ ڈوبا تھا۔ ستمبر میں 78 درجے شمال کے عرض بلد پر تھا اور پھر برف سے گھِر گیا۔ جب برف نے اسے پھنسایا تو اس نے آہیں اور سسکیاں نکالیں لیکن جب اسے دبوچا تو توقع کے مطابق یہ اوپر کی طرف اٹھ گیا۔ اور یہ اپنے راستے پر گامزن تھا۔
اگلے تین سال میں یہ سمندری برف کے ساتھ تیرتا رہا۔ ایک دن میں ایک میل کی رفتار تھی۔ کئی بار یہ واپسی کا سفر بھی ہوتا یا چکروں کی صورت میں۔ نانسن اور عملہ اپنی سائنسی پیمائشوں میں لگے رہے لیکن رفتار کی سستی سے پریشان تھے۔ جب یہ 84 درجے شمال تک پہنچا تو اب لگ رہا تھا کہ یہ قطب کی طرف نہیں جائے گا۔ قطب سے فاصلہ 410 بحری میل کا تھا۔ نانسن نے اپنے ایک ساتھی کو لیا اور بحری جہاز سے باہر نکل گئے۔ ski کرتے ہوئے وہ شمال کی طرف گئے۔ قطب سے 4 درجے دور تک پہنچے جو اس وقت کا نیا ریکارڈ تھا۔
فریم اور عملے کے باقی گیارہ ممبران جہاز میں رہے۔ جہاز 85.5 درجے شمال تک پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ یہ جہاز کبھی قطب شمالی تک نہ پہنچ سکا لیکن اس سفر میں ہونے والی سائنسی پیمائشوں کا ڈیٹا بیش قیمتم تھا۔ اب ہم جانتے ہیں کہ آرکٹکٹ زمین نہیں بلکہ سمندر ہے۔ قطب شمالی سمندری برف سے دھکا ہوا ہے۔ اور روس اور گرین لینڈ کے درمیان سمندری رو کا بہاؤ ہے۔
فریم نے دو مزید سفر کئے۔ پہلا چار سال کا تھا جس میں کینیڈین آرکٹکٹ کی نقشہ بندی کی گئی۔ اور پھر 1910 میں جب یہ امونڈسن اور ساتھیوں کو اینٹارٹیکا لے کر گیا جہاں پر انہوں نے کیپٹن سکاٹ کی ٹیم کو قطبِ جنوبی تک پہلے پہنچنے میں شکست دی۔
آج یہ اوسلو میں میوزیم میں ہے اور ناروے کی قطبین کی مہم جوئی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اس نے برف سے لڑنے کے بجائے، اس کو دوست بنا کر دنیا کی سیر کی تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply