ایک آوارہ کتھارسس(چارے کے شکاری و بیوپاری)- اعظم معراج

جو بِل 2016 میں پی پی پی نے سندھ اسمبلی سے بھاری اکثریت سے پاس کرکے معذرت کرکے ن لیگی قریب المرگ گورنر کی آڑ میں واپس لے لیا تھا۔جس کا ووٹر اور لیڈر گھرانہ و عہدے دار گھرانے قدرے( کھبے) بائیں طرف جھول مارتے ہیں  ۔ اسے پی ٹی آئی کیسے پاس کرتی جس نے دو دفعہ کے پی کے میں حکومت بنائی ہو۔  ؟

مجھے تو کبھی بھی توقع نہ تھی۔ ہاں پہلے زمانوں میں ایسے جبرو ں کے ثمرات صرف مسکین بھگتا کرتے تھے ۔مثلاً سکھ شاہی کی مسلمان رعایا اورپھر ازبک سلاطیں کی ہند و   رعایا۔  پھر دنیا بدلی ،اب بظاہر زور آوروں کو بھی ایسے کاموں کا بھاری خراج دینا پڑتا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں دیا بھی گیا ہے  ۔اس لئے وہ اب نظریاتی سے زیادہ عملی ہوگئے ہیں ۔ امید ہے یہ بات دو تین صدیوں بعد آج کے بظاہر زور آوروں کی آنے والی نسلوں کو سمجھ آ جائے گی ۔ جلدی سمجھنے والے یہ نہیں۔۔۔ اور اسکے شکار۔ ۔ سمجھانے والے مسکین ہیں ۔جن کا  جرم ضیفی ناقابل معافی ہے۔ اور ہزاروں سالوں سے اپنے اجداد کی دھرتی پر اس ضعیفی اور تاریخ کے جبر کا خراج ادا کر رہےہیں ۔طاقت ور سمجھانے والے ٹھیکیدار مصلحت کوش اور مفاد پرست ہیں۔ ورنہ مقصد صرف انسانی ہمدردی ہو تو ایسے کام وہ چٹکیوں میں حل کروا سکتے ہیں۔ان مساکین کو وہ بطور چارا استعمال کرتے ہیں۔لہذا مسکینوں یہ غور طلب بات ہے مچھلی پکڑنے کے لئے کانٹے کی نوک پر کینچوے لگاتے ہوئے شکاری کبھی کینچوے کے انسانی بلکہ جانوری حقوق کا خیال نہیں کرسکتا۔ اور اب تو دور شمال میں ہمالیہ کے پار اربوں مچھلیوں کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔  شکاری کے لئے یہ اسّی نوّے لاکھ کینچوؤں کا چارا کم پڑ جائے گا۔پتہ نہیں شکاریوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑیں، ممکن ہے، مہنگے جھینگے بھی بطورِ چارا استعمال کرنا پڑ جائیں ۔مسکینوں کو بہت حکمت دانائی سے زندہ رہنا ہے۔  سکھا شاہی میں مسلمان ماڈل اور ازبک شاہی میں ہندو  ماڈل پر بھی غور کرنا چاہیے اور جدید دور کے تقاضوں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی اپنائیں۔لیکن صد افسوس ان مسکینوں پر جن میں چارا پکڑ کر شکاریوں کو دینے والے پیشہ ور شکاری بہت پیدا ہوچکے ہیں۔جن کا مقصد بظاہر زور آوروں سے مسکینوں کو بچانا ہی ہے۔لیکن وہ ہیں چارے کے شکاری و بیوپاری۔ وہ صرف اور صرف مچھلیوں کے شکاریوں کو کینچوے بیچتے ہیں ۔ جھینگا ان کی بساط سے باہر ہے ۔۔اس لئے وہ صرف کینچووں کی ہی پرورشِ کرتے اور بیچتے ہیں ۔۔ ان شکاریوں کو متبادل کاروباری ذرائع کی  بھی کوشش کرنی چاہیے، ان کینچوؤں سے کھاد بھی بنائی جاسکتی ہے ۔جس میں سفاکانہ اعمال سے بچا جا سکتا ہے اور منافع بھی زیادہ ہے ۔۔بس روائیتوں محرومیوں کی سوداگری کی صنعت کی جگہ کھاد کی صنعت پر جانا پڑے گا یہ کینچوے زندہ بھی رہیں  گے اور آپ کے لئے پیداواری صلاحیت بھی بڑھائیں  گے  ۔افسوس صد افسوس آپ آئین ِنو سے ڈرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply