فلسطین (33) ۔ ایک ریاستی حل۔۔وہاراامباکر

دو ریاستی حل کی امید ماند پڑ جانے سے ایک ریاستی حل میں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی بہت پرانا آئیڈیا ہے۔ جب فلسطینی اور صیہونی نیشنلسٹ کے درمیان مسلح ٹکراوٗ شروع ہوا تھا تو برٹش انتظامیہ نے ایک ریاستی حل تجویز کیا تھا (جو ناکام رہا تھا)۔ اس کے مطابق ایک ہی ریاست میں عرب اور یہودی اقتدار میں شرکت کریں۔ یہودی دانشوروں نے ایک گروپ بنایا تھا جس میں فلسفی مارٹن بوبر بھی تھے۔ برٹ شالوم (امن کا اتحاد) نامی اس گروپ کا منشور یہودی اور عرب مشترک ریاست کا قیام تھا۔ سوشلسٹ صیہونی تنظیم ہاشومر ہاتزیر (نوجوان سپاہی) نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ کسی وقت میں صیہونی لیڈر بن گوریان بھی اس کی حمایت میں رہے تھے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد اسرائیل میں اس کی حمایت بہت کم رہ گئی۔
فلسطین کی طرف سے اس بارے میں رائے تبدیل ہوتی رہی ہے۔ جب 1965 میں پی ایل او قائم ہوئی تھی تو اس کا اصل منشور ایک متحد ریاست بنانا تھا جو جمہوری اور سیکولر ہو۔ پی ایل او نے اپنے موقف کو 1988 میں ترک کر دیا اور دو ریاستی حل کو تسلیم کر لیا۔
غزہ اور مغربی کنارے کے زیادہ تر فلسطینیوں نے بھی اوسلو معاہدے کے بعد دو ریاستی حل کو تسلیم کر لیا۔ اس توقع میں کہ یہ ریاست جلد قائم ہو جائے گی۔ لیکن جب ان میں ناکامی ہوئی اور اسرائیلی آبادیاں پھیلتی گئیں تو واپس ایک ریاستی حل کی بات ہونے لگی۔
اس کی ایک وجہ مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ ہے جو دو ریاستی حل میں ممکن نہیں۔
ایک ریاستی حل کو فلسطین میں توجہ مل رہی ہے۔ اس کی بڑی اپیل یہ ہے کہ ایک ریاست تو پہلے سے موجود ہے۔ اسرائیل عملی طور پر بحیرہ روم سے دریائے اردن کے درمیان کی تمام زمین پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اس موجود حقیقت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے بجائے کیوں نہ اسرائیل میں ضم ہو جایا جائے۔ اس طرح یہاں رہنے والوں کو اسرائیلی شہریوں والے حقوق حاصل ہو جائیں گے۔
اسرائیلی حکمرانی میں برابر کے حقوق ہوں تو پھر امن مذاکرات کی ضرورت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یروشلم کی تقسیم اور کنٹرول کی بات بے معنی ہو جاتی ہے۔ کئی پیچیدہ ایشو خود بخود غائب ہو جاتے ہیں۔
اس کے حامی تجویز کرتے ہیں کہ فلسطینی سول رائٹس تحریک چلائیں جیسا کہ امریکہ میں کیا گیا تھا۔ ایک ریاست میں “ایک شخص، ایک ووٹ” تمام مسائل کا حل ہے۔ اس سے دنیا میں حمایت بھی آسانی سے مل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حل کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی اس کے حق میں نہیں۔ زیادہ تر اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کے ساتھ ایک ریاست میں نہیں رہنا چاہتے۔ یہ حل دانشوروں میں مقبول رہا ہے لیکن اسرائیلی یہودی اور فلسطینی عوام میں نہیں۔ اسرائیلی یہودیوں کے لئے اس کا مطلب اسرائیل کے تصور کا خاتمہ ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہودی خود اکثریت نہیں ہوں گے۔ ایسی جمہوریت قبول کرنا قومی خودکشی ہو گی۔
جس قسم کا ایک ریاستی حل اسرائیلی پالیسی سازوں کو قابلِ قبول ہو سکتا ہے، وہ ہے جس میں فلسطینیوں کو مکمل شہریت نہ ہو اور برابر کا حق نہ ہو۔
حالیہ برسوں میں اسرائیل کے رائٹ ونگ گروپ کے کچھ ممبران نے کئی طرح کے ایک ریاستی حل تجویز کئے ہیں۔ جیوش ہوم پارٹی (جس سے اسرائیل کے موجودہ وزیرِ اعظم نفتالی بینیٹ کا تعلق ہے) نے یہ تجویز کیا ہے کہ اسرائیل تمام فلسطینی علاقے کو ضم کر کے فلسطینیوں کو اسرائیلی شہریت دے دے لیکن قومی اسمبلی کے انتخاب میں ووٹ کا حق کبھی نہ دیا جائے۔ انہیں صرف مقامی انتخابات میں ووٹ کا حق ہو۔
اس کے مخالفین کی طرف سے عام طور پر لبنان، سیریا، عراق، یمن اور اس سے پہلے بوسنیا اور کوسووو کی مثال دی جاتی ہے کہ الگ قوموں کا ایک ملک میں اکٹھے رہنا پرخطر کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں اس وقت بہت بڑا معاشی گیپ ہے۔ اسرائیل کا جی ڈی پی فی کس 37000 ڈالر ہے جبکہ غزہ اور مغربی کنارے کا 3000 ڈالر سے کم۔ ایک ریاست میں یہ الگ معاشی طبقات بن جائیں گے۔
عام طور پر ایک ریاستی حل کو لبرل یوٹوپیا سمجھا جاتا ہے یا پھر تنازعے کے دونوں طرف کے انتہاپسند اس کے حق میں رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ صورتحال “ایک ریاستی حالت” کی طرف جا رہی ہے لیکن “ایک ریاستی حل” کی طرف نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply