چراغ ِ آخر ِ شب/تبصرہ ۔۔ذوالفقار فرخ

میں بھی کبھی کسو کا سرِ پْر غرور تھا!

محترمہ رفعت ناہید سجاد کے ناول ”چراغِ آخرِ شب“ کے بارے میں میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ آپ اس کو تہذیبی اقدار کے مٹتے نقوش کا نوحہ کہہ لیں، شہر ِآشوب کہہ لیں، مگر اس تحریر کے تیور، اس کی ادا، اس کا سماجی اور تہذیبی پس منظر اور بھرائی ہوئی آنکھوں کے نمکین محلول کا براہ ِ راست تعلق میر تقی میر سے ہے۔ یہ شہر ِ آشوب میر تقی میر کا ہے ہاں اگر اور کوئی پیوند ہے تو مرزا فرحت اللہ بیگ کا ہے۔

عہد تہذیب کے اس المیے کا بھر پور تخلیقی اظہار رفعت ناہید سجاد کے ہاں ملتا ہے جس نے ان تلخیوں کو تھوڑا نم اور پْر جمال کر دیا ہے۔

چراغ ِ آخر ِ شب کم و بیش چھ سو صفحات کا ناول ہے۔ ہمارے بیشتر تعلیم یافتہ افراد اگر نثر لکھیں تو آج بھی ”میرا گاؤں“”میرا سکول“ اور ”ہماری پکنک“ کے ڈیڑھ صفحے کے علاوہ ایک صفحے کی بیماری کی رخصت لکھ سکتے ہیں۔ کونٹینٹ کا برا بھلا ہونا تو بعد کی بحث ہے۔ پہلے کوئی چھ سو صفحات لکھ کر تو دکھائے۔ چھ سو صفحات گننے میں اڑتیس منٹ لگتے ہیں تو کیا اس تخلیقی تحریر کو لکھنے میں چالیس سال نہیں لگے ہوں گے۔؟

رفعت ناہید سجاد کی تحریر کا اصل جوہر یہ ہے کہ ”تاریخ“ ان کے ہاں واقعات کے تسلسل اور بیانیے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ تاریخ ناول کے بنیادی کرداروں میں ایک اہم کردار ہے۔ باقی کرداروں کے نام کچھ بھی ہوں مگر وہ دِہائیاں ہیں، پچاس کی دہائی، ساٹھ کی دہائی، ستر اسی نوے اور دو ہزار کی دہائی۔

میرے نزدیک اتنا ضخیم ناول لکھنا سورماؤں اور جنگجوؤں کا کام ہے اس کے لیے پوری زندگی وقف کرنی پڑتی ہے۔
ناول نگاری ایک شطرنج ہے جس میں پیادے، گھوڑے، توپ، وزیر، بادشاہ، سب پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔

اس ناول کی سب سے بے مثال چیز مذکورہ بالا دہائیوں کی تہذیبی اقدار مٹتے ہوئے نقوش ،صنعتی انقلاب اور ٹیکنالوجی کے بپھرے ہوئے سیلاب میں احساس ِ مروت کا کچلا جانا سب شامل ہے۔

رفعت ناہید سجاد کے ناول میں کرداروں کو اس قدر غیر محسوس مہارت سے استعمال کرتی ہیں کہ ہر کر دار کٹھ پتلی لگتا ہے جسے وہ حسب ِ ضرورت اور حسب ِ ذائقہ جہاں چاہے ظہور پذیر کروا سکتی ہیں اور جہاں چاہے معدوم۔

رفعت ناہید سجاد اپنی شخصیت اور ذات کو ایک سیال نمکین محلول میں متشکل کرتی ہیں جو ایک بڑا تخلیقی تجربہ ہے۔

ایسی تحریریں  میرے مطالعے سے بہت ہی کم گزری ہیں، جہاں پر یہ معلوم ہو سکے کہ یہ تحریر ذات کے سر چشموں سے کہاں تک متعلق ہے اور شخصیت کی حدود میں کہاں تک محدود و محصور ہے۔

اس ناول کی منظر نگاری اور رفعت ناہید سجاد کی تحریر کا جوہر آپ کو خاموشی کی سرحدوں تک لے جاتا ہے۔ جہاں اس سے آگے رفعت ناہید سجاد کے ”یوٹوپیا“ کی سر حدیں آپ کے استقبال کے لیے تیار ہیں۔ اس کی لفظیات آپ کو ان ٹپکے نمکین موتیوں کی اقلیم میں لے جاتی ہیں جہاں اس سے آگے ایک مکمل اور مفصل کائنات موجود ہے۔

اس ناول کی بے مثال منظر نگاری کے علاوہ ایک اور بہت ہی اہم وصف اس ناول کی صوتیات ہے۔ منظر نگاری کو صفحہء  قرطاس پر رقم کرنے کی روایت تو موجود ہے مگر صوتیات کا یہ بولتا شہر ِ خموشاں ایک نئی چیز ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ان آوازوں کی مالا گلے میں پہننی پڑتی ہے اور ان کھڑاؤں  کی ان گھڑ صداؤں میں آپ موسیقی کے لازوال سرچشمے تک پہنچ سکتے ہیں۔

چراغِ آخرِ شب (ناول)۔ مصنفہ: رفعت ناہید سجاد
صفحات: 584۔ قیمت:1400روپے

کتاب ملنے کا پتہ: جمہوری پبلیکیشنز، 2ایوانِ تجارت روڈ، لاہور 0333-4463121

Advertisements
julia rana solicitors london

 ذوالفقار فرخ، پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سینٹر کے پروڈیوسر اور شاعر ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply