طلب کے لمحے۔۔آغر ؔندیم سحر

اس نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو پاس بلایا اور بولا”مائی ڈیئر ینگ مین! جس کھیل میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے زمین نظروں سے اوجھل ہو جائے،وہ کھیل نہیں کھیلنا چاہتا“۔سیکرٹری نے اس جملے کے پیچھے چھپی کہانی پوچھی تو وہ باوقار بیرسٹر ماضی میں جا پہنچا۔”جب کھاردار کے ایک پرانے مکان کی چھت پر وہ ایک  لااُبالی لڑکے کی صورت کھڑا پتنگ اڑا رہا تھا۔وہ اپنی پتنگ کی اڑان پر نازاں پیچ لڑا رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اس کی پتنگ کی ڈور کاٹ دی۔مسلسل آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے زمین اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تھی اس لیے اسے ڈور کٹ جانے کا علم نہ ہوااور وہ پتنگ کو ڈور دیتا رہا،یہاں تک کہ پتنگ اس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ یہی وہ دن تھے جب اس نے زندگی میں کوئی ایسا کھیل نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا تھا جس میں آسمان پر نگاہیں جم جانے سے زمین نظروں سے اوجھل جاتی ہو۔اب وہ اس لمحے کو یاد کرتا ہے تو اس کی زندگی میں اس پتنگ کے بعدکسی ڈور کے کٹ جانے کا کوئی سراغ نہیں ملتا“۔

”یہی نوجوان ایک دفعہ گلی میں اپنے  ساتھیوں  کے ہمراہ گولیاں کھیل رہاتھا‘اس کے ہاتھ گندے ہو گئے‘وہ ہاتھ جھاڑتا ہوا اٹھا اور دوستوں کو فیصلہ سنایا کہ وہ آئندہ کوئی ایسا کھیل نہیں کھیلے گا جس میں اس کے ہاتھ گندے ہوں“۔ پھر تاریخ نے دیکھا‘اس نے واقعی کوئی ایسا کھیل نہ کھیلا جس میں نظروں کا رشتہ زمین سے کٹ جائے یا جس میں کھیل میں اس کے ہاتھ گندے ہو جائیں۔

اسی نوجوان کا ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔”ایک دفعہ کثرتِ غیر حاضری کے باعث اس کا نام سکول سے خارج کر دیا گیا‘سکول سے نام کے اخراج نے اسے مایوس نہ کیا‘اس نے محنت جاری رکھی۔ان دنوں وہ نیو نہم روڈ کے ایک مکان کی بالائی منزل پر اپنے گھر کے آٹھ افراد کے ہمراہ دو کمروں میں رہتا تھا۔رات کو جب بچے سو جاتے تو وہ دفنی کا ایک ٹکڑالیمپ کے ساتھ کھڑا کر دیتا تاکہ لیمپ کی روشنی سوئے ہوئے بچوں کی نیند خراب نہ کرے۔ایک رات اسی طرح وہ دفنی کے لیمپ کی روشنی میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک آواز آئی،”بچے اتنا نہ پڑھا کر!بیمار ہو جائے گا“۔یہ اس کی بھابھی کی آواز تھی، بھیگتی رات میں اچانک جن کی آنکھ کھل گئی تھی۔اس نوجوان نے جواب دیا کہ ”بھابھی!اگر میں اب محنت نہیں کروں گا تو زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکوں گا“۔اسی محنت اور کارکردگی کی بنیاد پر اسے سکول میں دوبارہ داخلہ مل گیا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ یہ نوجوان جس کا نام محمد علی جناح تھا‘اسلامی دنیا میں قائد اعظم کہلایا۔

قارئین یہ تینوں واقعات جناح کے بارے میں مشہور ہیں۔

”طلب کے لمحے“کا مطالعہ کرتے ہوئے جناح‘سر سید احمد خان‘حالی‘اقبال‘شبلی‘حسرت موہانی‘ظفر علی خان سمیت کتنے ہی نابغوں کے بارے انتہائی دل چسپ واقعات میری نظروں سے گزرے۔کئی واقعات تو ایک سے زائد بار بھی پڑھے اور لطف اٹھایا۔مصنف نے جس عمدگی سے پاکستان کے عظیم مفکرین اور رہنماؤں کے بچپن کے واقعات کو قلم بند کیا ہے‘یقیناً  یہ انہی کا خاصہ ہے۔ہماری نئی نسل کا کتاب سے تعلق اور اپنے ہیروز سے محبت سکھانے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ انہیں ایسی کتب تحفے میں دی جائیں یا گھر کی ”منی لائبریرز“ میں ایسی کتب رکھی جائیں‘جن کی موجودگی سے بچوں میں کتابوں سے محبت بھی پیدا ہواور اپنی تابناک تاریخ سے بھی واقفیت میں اضافہ ہو۔

ہمارے ہاں عمومی طور پر بچوں کی تربیت میں کمی کی وجہ میڈیائی ذرائع کو ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ سب سے پہلی ذمہ داری والدین کی ہے‘گھروں میں ٹی وی یا انٹرنیٹ آنا تو بعد کی بات ہے‘کتب خانوں کا کلچر بھی ختم ہو گیا۔اب بھی کئی گھروں میں چھوٹے چھوٹے کتب خانے موجود ہیں جنہیں ہم ”منی لائبریری“کہتے ہیں‘بچوں کی تربیت میں ”منی لائبریریز“ بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اگر گھروں میں بچوں کو ”طلب کے لمحے“جیسی کتابیں پڑھائی جائیں جن میں مزاح بھی ہے‘علم و شعور بھی ہے اور تاریخ و تہذیب سے متعلق گہرا علم بھی‘تو یقیناً  نئی نسل میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت جنم لیتی ہے۔

سابق صدر ممنون حسین اس کتاب کے بارے یوں رقم طراز ہیں:
یہ ایک بالکل نیا خیال ہے کہ نام ور لوگوں کوان کے بچپن یا ان کے دورِ طالب علمی کی مدد سے جانا جائے۔زاہد منیر عامر نے اس کتاب میں ایسی تصویریں پیش کی ہیں جنھیں پڑھ کر اس کتاب کے قارئین اور خاص طور پر نوجوان اور طالب علم یہ سیکھ سکیں گے کہ بڑے لوگ بھی بچپن میں عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں۔یہ ان کی اَن تھک محنت اور منزل پانے کا شعور ہوتا ہے جو انھیں عام لوگوں کی صف سے نکال کر بڑے لوگوں کی صفوں میں پہنچا دیتا ہے،یہ اس کتاب کا تربیتی رخ ہے“۔

کتابیں تو ہمارے ہاں بے تحاشا لکھی اور بیچی جا رہی ہیں،بلکہ لکھوائی بھی جا رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کون سی کتب کتنی اہمیت رکھتی ہیں اور کن کتب سے ہماری نئی نسل کی مثبت ذہن سازی اور تربیت ہو رہی ہے؟۔میں اگر ان چند کتابوں کا نام لکھوں جنہیں نوجوان نسل کو پڑھنا چاہیے اور جن سے نوجوانوں کی مثبت تربیت بھی ہو اور وہ اپنی تاریخ و تہذیب سے واقفیت بھی حاصل کر سکیں‘تو ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب ”طلب کے لمحے“ان میں نمایاں مقام پر ہوگی۔میں گزشتہ کئی روز سے اسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوں اور کتاب کلچر کے فروغ کے لیے اپنے کئی دوستوں اور شاگردوں کو بھی اس کتاب کاتعارف کروا چکا ہوں۔کچھ عزیز شاگردوں کو یہ کتاب تحفے میں بھی بھجوائی تاکہ نوجوانوں کی کتابوں سے دل چسپی قائم کی جائے۔

دقیق اور مشکل موضوعات یا لڑکیوں کو ڈائجسٹ مارکہ خواتین کے ناولوں کی فہرست بتانے کی بجائے کلاسوں میں علمی و ادبی موضوعات پر کتب کی تبلیغ کی جائے۔میری کلاسز میں اکثر یہ سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ ہمیں کون سی کتاب پڑھنی چاہیے‘میں بچوں کو خواتین ناول نگاروں کی فہرست بتانے کی بجائے چند ایسی کتابوں کے نام بتا دیتا ہوں جن میں علم و آگہی کے ساتھ کچھ سیکھنے کو بھی مل رہا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

گزشتہ ایک ماہ میں درجنوں بار کلاسز میں ”طلب کے لمحے“کا ذکر کر چکا ہوں ۔کتاب کے مصنف ایک مایہ ناز مفکر اور دانش ور ہیں‘انہوں نے اتنے اہم اور یونیک موضوع پر اسی لیے کام کیا کہ نوجوانوں کو ایسی کتب کی ضرورت تھی۔کتاب قلم فاؤندڈیشن،بینک سٹاپ،والٹن روڈ لاہور کینٹ نے شائع کی جس کی قیمت بھی انتہائی مناسب رکھی گئی ہے۔

Facebook Comments