پرانی شیروانی کا ٹوٹا ہوا ایک بٹن۔۔۔۔مظہر برلاس

مودی تنہائی کا شکار تھے اور وہاں سب سے اہم سمجھے جانے والے پیوٹن کے لئے بھی کوئی اہم تھا، اسی لئے پیوٹن ہر جگہ عمران خان کے ساتھ باتیں کرتے نظر آئے۔ بشکیک میں پاکستانی وزیراعظم نے اپنی کرشماتی شخصیت کا بھرپور جادو جگایا، کئی حکمران ان کے گرویدہ نکلے۔ سادہ سی شلوار قمیص پہننے والے نے قومی لباس پہن کر بڑی سادگی سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ایک غیرت مند اور خوددار قوم ہے، عمران خان نے بیرونی دوروں میں ہمیشہ اس بات کا خاص خیال رکھا کہ وہ ہر جگہ قومی لباس پہنیں کیونکہ لباس بتا دیتا ہے کہ آپ غلام ہیں یا آپ کا تعلق ایک زندہ قوم سے ہے۔ لباس شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ذرا سی دیر پہلے پاکستان پر وہ لوگ حکمران تھے جو اس طرح پینٹ کوٹ پہنتے تھے جیسے ان کے دادا انگلستان کے رہائشی تھے، وہ لوگ بھی سوٹ پہنتے تھے جنہیں یہ سوٹ ہی نہیں کرتا۔ کچھ تو ایسے بھی گزرے جو برانڈڈ سوٹ پہنتے تھے، جن کے لباس سے یہ نہیں لگتا تھا کہ یہ پاکستان کے نمائندے ہیں، یہ کسی غریب قوم کے نمائندے ہیں؟

خواتین و حضرات! جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سمیت دنیا بھر کے حکمران عمران خان سے باتیں کر رہے تھے، ان کی تصاویر سامنے آرہی تھیں تو مجھے نواز شریف کا ایک وزیر بہت یاد آرہا تھا، نواز شریف کے اس وزیر نے اپنے دل کی تسکین کے لئے کہا تھا ’’خان صاحب! وزیراعظم کی کرسی تو دور کی بات، ہم تمہیں وزیراعظم ہائوس میں لٹکی ہوئی کسی پرانی شیروانی کا ٹوٹا ہوا ایک بٹن بھی نہیں دیں گے‘‘ چونکہ یہ جملہ انتہائی تکبر میں کہا گیا تھا اس لئے خاک میں مل گیا اور آج عمران خان تو صاحبِ شیروانی ہیں مگر موصوف وزیر نہیں ہیں۔ ایک زمانے میں یہ سابقہ وزیر پیپلزپارٹی میں ہوا کرتے تھے، پیپلزپارٹی کے دور میں تو انہیں کسی نے وزیر نہ بنایا البتہ ایک خٹک وزیراعلیٰ نے ذاتی پسند کے تحت انہیں مشیر بنایا تھا۔ بعد میں موصوف کو ایک دن ایک معروف صحافی میاں نواز شریف کے پاس لے گئے۔ میاں نواز شریف یہ سمجھے کہ چونکہ یہ شخص نامور صحافی کے توسط سے آیا ہے بس یہی سوچ کر اسے میڈیا کی ذمہ داریاں دے دیں۔

تکبر بری چیز ہے، اس کے قریب سے بھی نہیں گزرنا چاہئے مگر اقتدار کا نشہ لوگوں کو متکبر بنا دیتا ہے۔ دو اڑھائی سال پہلے آزاد کشمیر میں الیکشن ہوئے تو انتخابی نتائج کے بعد مظفر آباد میں جلسے کے دوران ایک شخص نے پی ٹی آئی کی دو نشستوں کا تذکرہ محض دو انگلیوں کا نشان بنا کر کیا اور بڑے تکبر سے کہا ’’صرف دو‘‘۔ وقت نے رعونت پہ خاک ڈالی اور آج وہ شخص کوٹ لکھپت میں جیل بھگت رہا ہے۔

پاکستان کے صدر اور وزیراعظم بن کر بھی پاکستان کا لباس نہ پہننے والے اپنی غلامانہ سوچ کی عکاسی لباس کے ذریعے کرتے رہے ہیں جیسے موجودہ حکومت کے اہم وزیر حالانکہ گدی نشین ہیںلیکن غلامانہ سوچ کی عکاسی تو کوئی بھی کر سکتا ہے اس کے لئے جاگیردار یا گدی نشین ہونا ضروری نہیں، یہ کام کوئی صنعتکار بھی کر سکتا ہے۔

ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم بیرونی دنیا میں قدر کی کس نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ جب وہ منتخب ہوئے تو دنیا بھر سے پیغامات آئے، ابھی حلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کے نمائندے پہنچ گئے۔ شلوار قمیص اور شیروانی میں حلف اٹھانے والا جب عرب ملکوں میں گیا تو ولی عہد محمد بن سلمان خود گاڑی چلاتا رہا، تنہائی میں باتیں کرتا رہا، جب عرب امارات کا رخ کیا تو وہاں کے حکمران فریفتہ نظر آئے۔ ملائیشیا گیا تو ملائیشین وزیراعظم کی اہلیہ نے کس طرح اس کا ہاتھ تھاما، چین کی قیادت نے اس کی آمد پر لمحات کو یادگار بنا دیا، وہ ایران گیا تو ایرانی قیادت فریفتہ نظر آئی۔ اب شنگھائی کانفرنس کے دوران پیوٹن سمیت سب سربراہ اس کی طرف متوجہ رہے، اس دوران حال ہی میں جیت کر آنے والے مودی تنہائی کا شکار رہے۔ شنگھائی کانفرنس سے پہلے اسلام آباد میں متعین بھارتی سفیر نے وزیراعظم کے قریبی حلقوں سے رابطہ کیا تھا، فضائی حدود کے استعمال کی اجازت مانگی اور کانفرنس کے دوران پیش آنے والے امکانی ماحول پر بات چیت کی تھی۔ اب پتہ چلا ہے کہ شنگھائی کانفرنس میں عمران خان اور نریندر مودی کی ملاقات ہوئی، تبادلہ خیال ہوا، اس سے پہلے سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی پاکستانی وزیراعظم سے بطور خاص ملے، انہوں نے بتایا کہ وہ لاہور میں رہتے رہے ہیں، اب وہی افغان صدر اس مہینے کے آخر میں پاکستان آئیں گے۔ اشرف غنی لاہور بھی جائیں گے، ان کا قیام گورنر ہائوس میں ہو گا۔ اسی مہینے امیرِ قطر بھی پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔

او آئی سی اجلاس میں سب سے جاندار تقریر پاکستان کے حصے میں آئی، پاکستانی وزیراعظم نے کانفرنس کے رخ ہی کو موڑ دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ حالات کے رخ موڑ دینے والی شخصیت عمران خان سے اسی مہینے ملنا چاہتے تھے، انہوں نے اپنے تئیں تاریخ بھی رکھ دی تھی مگر عمران خان نے کہا کہ نہیں جون میں ملاقات نہیں ہو سکتی، جون میں ہمارے ہاں بجٹ اجلاس ہو رہا ہوتا ہے، بجٹ پیش ہوتا ہے، اس پر بحث ہوتی ہے اور پھر منظور ہوتا ہے۔ اب عمران خان جولائی میں امریکہ جائیں گے، ٹرمپ سے ملیں گے اور لگتا ہے کہ پرچیاں نہیں پڑھیں گے۔ سفارتی محاذ پر کامیابیاں سمیٹنے والے عمران خان نے تازہ نوید سنائی ہے کہ ’’ملک دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے، معیشت مستحکم ہو گئی ہے، کٹھن راستہ طے کر لیا ہے‘‘۔

بس آج بھولی بسری یادوں میں سے پرانی شیروانی کا ٹوٹا ہوا ایک بٹن یاد آگیا تھا اور ساتھ ہی افتخار عارف کا شعر بھی کہ ؎

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ جنگ اخبار

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply