جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ /دخل در محصولات(3)-حامد عتیق سرور

مرزا نوشہ ، قرض کی مے پیتے اور انگریز سرکار اور والیان ریاست سے اپنے طرز سخن کی داد بصورت روپیہ وصول کرنے کی کوشش کرتے ۔ انہی حالات میں بادام کی سردائی کھاتے اور عمدہ گوشت نوش جاں کرتے رہے ۔ یہ نہیں کہ پہلے بہادر شاہ ، پھر نواب رامپور اور پھر انگریز سرکار نے استاد کی مشق سخن اور آسانی ء تن کو بنائے نہیں رکھا مگر زندگی کی مجموعی صورت وہی رہی کہ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالب گو کہ لافانی شاعر ہیں مگر ان کا جسمانی وجود اپنی طبعی عمر مکمل کر کے اپنے قرضداروں کے تقاضوں سمیت دیار ابدی کو جا پہنچا۔ مگر ملکوں وغیرہ کو ایسے فوت ہونے کی سہولت میسر نہیں۔ ہم جہاں اپنے ملک کے قائم رہنے پر بہت مسرور رہتے ہیں وہاں یہ حقیقت بھی ہم سے چھپی نہیں کہ افغانستان بھی قائم ہے اور صومالیہ وغیرہ بھی ۔ عمومی طور پر پچھلے پچاس برس میں شاید ہی کسی جغرافیائی طور پر متصل اور مذہبی ، ثقافتی اور تاریخی طور پر ملتے جلتے علاقوں میں جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہو ۔ چیکو سلواکیہ ، یوگوسلاویہ، رشین فیڈریشن کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ شاید تاریخی طور پر علیحدہ قائم رہنے والے ملکوں کا مصنوعی ادغام تھا۔ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی علیحدگی میں مذہبی رنگ نمایاں تھا ۔ مگر ہمارے سب سے قریب افغانستان میں 43 سال کی بین الاقوامی جنگ اور اندرونی خلفشار کے باوجود نہ تو تاجک، ازبک ، شیعہ اور پشتون حصے ہوئے نہ کسی ہمسایہ ملک نے اس پر قبضہ کیا۔ سو ہمیں بھی یہ یقین رہنا چاہئیے کہ ہماری سالمیت اور جغرافیائی وحدت کو کوئی خاص خطرہ در پیش نہیں ۔ یقین کر لیں کہ ہم 24 کروڑ جنونی اور غریب لوگوں پر کوئی ملک بھی قبضہ نہیں کرنا چاہے گا ۔ بلکہ ہمارے بدترین دشمن بھی یہ چاہیں گے ہم اسی ملک میں اور اسی بدحالی میں زندگی گزاریں ۔
نوبت یہ آچکی کہ بڑی ہی مشکل سے جون میں نادہند ہونے سے جان بچی تھی اور دوسری تلوار دسمبر میں سر پر ہے ۔ اس سے نکل بھی گئے تو پھر بھی ہر تین ماہ بعد ہم اسی طور سعودیہ ، امارات۔ چین ، امریکہ اور آئی ایم ایف کے در پر بھکاری بنے کھڑے ہوں گے ۔
ہمارے معاشی حالات کیوں نہیں سنبھلتے ، اس پر ہم نے نہ کبھی غور کرنا ہے اور نہ کوئی عملی قدم اٹھانا ہے ۔ ہماری بیماری کی اصل وجہ بہت سادہ ہے ۔ یعنی ہماری برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی رقم ( 66 ارب ڈالر – 2021/22) ہماری درآمدات (80 ارب) ، قرضے کی واپسی ( 14 ارب ڈالر ) اور باہر بھیجے جانے والی دیگر رقوم ( 2 ارب ڈالر ) سے سالانہ کچھ 30 ارب ڈالر کم ہے ۔ اس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قرضوں سے پورا کرتے کرتے آج وہ منزل آن پہنچی ہے کہ قرض کی قسط ادا کرنے کے لئے امپورٹ کی ایل سی کے پیسے روکنا پڑ رہے ہیں ۔ چاہے اب ہمارے ملک میں فرشتوں کی حکومت آجائے ، یہاں کے معاشی حالات بہت سے غیر مقبول اور تکلیف دہ ترین فیصلوں کے متقاضی ہیں ۔ میری سمجھ میں تو یہ بات ہی نہیں آتی کہ ان غیر مقبول اور سخت گیر فیصلوں کے لئے کون بقائمی ہوش و حواس اس ملک کی حکومت سنبھالنے کی ذمہ داری لینا چاہے گا۔ یقین کیجئے کہ اگلے دس سال اگر مخلص ترین سیاسی قیادت بھی میسر آجائے تو وہ بھی مسلسل عوام کی گالیاں کھانے سے محفوظ نہیں رہ سکے گی ۔
اگر اس ملک کے معاشی حالات کو تھوڑا سا سنبھالا بھی دینا ہے تو اس تیس سے چالیس ارب ڈالر کے خسارے کو دو سال میں قریب 10 ارب ڈالر کے خسارے میں بدلنا ہے۔ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے اگر ہم اپنی بیرونی آمدن کو بڑھا سکیں اور بیرونی اخراجات کو کم کرسکیں ۔
پچھلے بارہ سال میں برآمدات اپنی مقدار میں قریب وہیں کی وہیں پڑی ہیں ۔ 2010 سے 2020 تک تو ان کی ڈالر ویلیو بھی کہیں 25 ارب ڈالر پر رکی رہی تھی ۔ برآمدات بڑھانے کے ہزار جتن کے باوجود کوئی سٹرکچرل سقم ہے جو ہمیں اس طرف کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ اسی طور درآمدات ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال میں چالیس سے اسی ارب ڈالر کو پہنچ گئیں۔ اور اس پر مزید خرابی یہ کہ برآمدات کے لئے درآمد کئے بغیر گزارا نہیں کہ لوہا ، تانبا ، ایلومینیم ، دھاگا ، بٹن ، زپر ، مشین ، پارٹس اور کاٹن کے بغیر برآمدی سامان کی تیاری ممکن نہیں ۔ کارخانے ، گھر اور بس / گاڑی/ موٹر سائیکل چلانے کو پٹرول ، ڈیزل ، کوئلہ ، گیس بھی چاہئیے اور 24 کروڑ کا پیٹ بھرنے کو گندم ، چینی ، دالیں ، کھاد ، چائے اور خوردنی تیل بھی باہر ہی سے آنا ہے ۔ ایسے میں جب آبادی بھی خوفناک رفتار سے بڑھ رہی ہو اور بیرونی قیمتوں میں بھی دگنا اضافہ ہو جائے تو ہمارے جیسے edge پر رہنے والے ملکوں کے لئے دن سے رات کرنا عذاب ہو جاتا ہے ۔
یہ نہیں کہ ان مسائل کا حل نہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ کوئی بھی طبقہ یا جماعت اس حل کی سیاسی اور سماجی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں۔
ذرا سوچئے کہ کوئی بھی شخص یا کمپنی کس صورت میں اپنی بنائی چیزوں کو برآمد کرنے کی کوشش کرے گی ۔ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر پاکستان میں کچھ بیچنے پر 20 فی صد منافع ہو تو برآمد کرنے کا فیصلہ تبھی ہو گا اگر ایکسپورٹ سے متوقع آمدن تیس سے چالیس فی صد ہو ۔ مگر یہاں تو گل احمد ، نشاط وغیرہ جو قریب سب ہی کچھ ایکسپورٹ کر دیتے تھے اب پورے پاکستان کے چپے چپے پر دوکان کھولے،بیٹھے ہیں کہ جب اپنے ملک میں اتنا ہی یا شاید اس کے قریب منافع میسر ہے تو ایکسپورٹ کیوں کریں ۔قریب یہی صورت فیکٹری لگانے اور چلانے میں بھی ہے ۔ اگر سارا سال لیبر ، سرکار ، بینک ، سپلائر اور دکانداروں سے کھینچا تانی کے بعد 18 فی صد منافع کمانا ہے اور اس کے مقابل پلاٹ ، مکان ، پلازہ ، ڈالر ، گاڑیوں کی بکنگ وغیرہ پر تیس سے دو سو،فیصد تک کا منافع دستیاب ہو تو کوئی فاتر العقل ہی فیکٹری کے جھنجھٹ میں پڑے گا۔
بدقسمتی سے اس مسئلے کا حل رئیل سٹیٹ اور فیکٹری سے زیادہ آمدن دینے والی ہر شے پر اتنا ٹیکس لگانا ہے کہ فیکٹری کے آفٹر ٹیکس منافع کی شرح تمام passive آمدنیوں سے زیادہ ہو۔ پھر اس کے بعد ہمیں ایکسپورٹ ٹیکس کو ایسے رکھنا ہے کہ ملک میں بیچنے کی نسبت باہر بیچنا زیادہ بہتر لگے ۔ موجودہ ٹیکس پالیسی اس کے بر عکس ہے ۔ کارخانے والی کمپنی پر اس سال انکم ٹیکس کی شرح 39 فی صد بھی ہے اور رئیل اسٹیٹ میں آمدن پر چار سال کے اندر اندر بیچنے پر کچھ ایک سے دو فیصد کا ٹیکس اور چار سال کے بعد ایک ارب کی آمدن پر بھی صفر ٹیکس ۔ ڈالر اور گاڑی کے آن منی کمانے والوں کا دستاویزی ثبوت ندارد سو،وہاں بھی ٹیکس صفر۔ ایف بی آر والے،بینکوں سے لوگوں کی ٹرانزیکشنز کا ڈیٹا مانگیں تو،بینکوں کے بزنس،ڈوبنے کا خطرہ ۔ خریداری اور فروخت،پر،بیچنے اور،خریدنے،والے،پر،شناختی کارڈ کے اندراج کی شرط لگائیں تو تاجر سڑکوں پر۔
درآمدات کی طرف آئیں تو سمگلنگ اور غلط انوائس کو روکنے کے لئے پورٹ پر،لگانے کے لئے سکینرز کے لئے رقم نہیں ۔
دوسری طرف بنیادی خوراک ، کھاد، برآمدات کے لئے خام مال کے علاوہ تمام امپورٹ کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے ۔وقت آ چکا کہ ایندھن کی امپورٹ کو کم کیا جائے ۔ اس کمی کی صورت بھی بین الاقوامی معاہدوں کی وجہ سے پابندی لگانے کی بجائے ٹیکسوں کے ذریعے قیمت زیادہ کرنے سے ممکن ہے ۔ سیلز ٹیکس اس ضمن میں راشننگ سے زیادہ موثر ہو سکتا ہے ۔
الیکٹرانک اشیا ، گاڑیاں ، فون ، کمپیوٹر، ہسپتالوں کے آٹومیٹڈ بیڈ ، ٹائلز ۔ اور مکانات کی تعمیر میں استعمال ہونے والی ہزاروں اشیا ہیں جو یا تو finished form میں امپورٹ ہوتی ہیں یا قریب بنی بنائی امپورٹ ہوتی ہیں ۔ ان پر زیادہ ٹیکس لگا کر ان کی خرید کو حتی الوسع پہنچ سے باہر بنانا بھی شاید ہماری پالیسی کا حصہ ہونا چاہئے ۔
مشکل کے یہ کچھ سال جیسے گزریں گے اس کی ایک ممکنہ جھلک کچھ ایسے خدوخال والی ہوگی ۔
1۔ اگلے دوسال نئی گاڑی ، نیا ائر کنڈیشنر ، نیا ٹی وی ، فون اور دیگر اشیا قوت خرید سے باہر ہو جائیں اور لوگ اپنے طرز زندگی کو ایک درجہ نچلے لیول پر لے آئیں ۔
2۔ پٹرول مہنگا ہونے سے کار کا کم استعمال یا کار پولنگ ۔
3۔ رئیل اسٹیٹ میں مقامی انویسٹمنت میں خاطر خواہ کمی
4۔ ایکسچینج ریٹ کا دوسو پچاس روپے تک کا ایڈجسٹمنٹ
5 ۔ برآمدات کا تین سال میں 50 ارب ڈالر کا ہدف،
ان باتوں پر بہت سے اعتراضات ممکن ہیں اور وہ اعتراضات اتنے بے جا بھی نہیں ہونگے مگر اگر سیاسی اتفاق رائے ممکن ہو تو کچھ عرصہ نسبتا” غیر ضروری امپورٹ پر confiscatory taxation اور ایکسپورٹ کو سب سے زیادہ منافع والا کاروبار بنانے کے لئے دوسرے تمام تر اور خاص کر،زمین ، جائیداد کی آمدن پر مناسب ٹیکس اور آمدن کے ٹرانزیکشن ریکارڈ تک ایف بی آر،کی موثر رسائی ہی نجات کا واحد ممکن راستہ ہے ۔ اس راستے میں تنگی ہے مگر اس کے آخر میں سر اٹھا کر جینے کا امکان ہے جو موجودہ ڈگر پر رہتے،ہوئے ممکن نہیں۔ یہ مکمل حل نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بہت،سے اور سٹرکچرل ریفارم درکار ہیں مگر کئی ملکوں نے اسی طرح کی کٹھن راہ سے گزر کر اپنی بقا کی جنگ لڑی ہے اور سرفراز ہوئے ہیں ۔ بنگلہ دیش اور ویت نام کی مثال سامنے ہے ۔ اگر کچھ نہیں کرنا تو یہی زندہ باد اور مردہ باد کہتے حکومتیں بدلتے جائیے ۔ ایک مایوس کرے تو،دوسرے سے امید لگائیے،اور،پھر یہی مشق بار بار دوہرائیے ۔
(حامد عتیق سرور)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply