نئے نویلے “مقدسات”/حیدر جاوید سیّد

گو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے اپنے بیان میں قومی کرکٹ ٹیم کے ایک سابق کپتان شاہد آفریدی کے خلاف اپنی جماعت کے سوشل میڈیا مجاہدین کی مہم پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خود سے منسوب شاہد آفریدی کے خلاف بیان کی بھی تردید کی ہے، لیکن پچھلے دو دنوں کے دوران ماضی کے “ڈیلیوری بوائے” اور پی ٹی آئی کے قومی یوٹیوبر عمران ریاض اور دوسرے وی لاگرز کے ساتھ مجاہدین زمان پارک کی شاہد آفریدی کے خلاف غلیظ مہم بدستور جاری ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی والوں کے نزدیک عمران خان ایک مقدس ہستی ہیں ان پر تنقید یا ان کے سیاسی کردار کے مختلف پہلوؤں کا ناقدانہ جائزہ لینے سے ناقد و ناقدین کا ایمان بھرشٹ ہوجاتا ہے۔

حالیہ دشنام طرازی مہم اس مخصوص سوچ سے عبارت ہے کہ “ہم ہیں سادھو سنت ہمارے سوا سارے غلط ہیں”۔ یہ پہلا موقع نہیں جب نو انصافیوں نے کسی کو ہدف ملامت بناتے ہوئے اس کی کردار کشی کی ہو اس معاملے میں ایک عام نو انصافی کی زبان دانی تو رہی اپنی جگہ خود عمران خان بھی کسی سے کم نہیں ان کی سیاسی اٹھان ہی دوسرے کی تحقیر و تذلیل سے عبارت ہے۔

ویسے اس کے ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کے وہ کردار ہیں جنہوں نے ماضی میں”خالص اپنی جماعت” بنانے بنوانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے اور ففتھ جنریشن وار کے نام پر ایک بدزبان مخلوق تیار کی، عمران خان اور ان کے حامی روز اوّل سے ہی مخالفین و ناقدین کے لئے ہر حد عبور کرنے کے شوق میں مبتلا ہیں، ان کے خیال میں اونچی آواز میں اوئے توئے دشنام طرازی و کردار کشی سے اس کا نشانہ بننے والے شخص میں جواب دینے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔

وہ لوگ جو اس طوفان بدتمیزی کی بنیاد میں 1988ء میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر اس کی جانشینی کی حقدار مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں تلاش کرکے کہتے ہیں کہ یہ سب تو پہلے بھی ہوتا تھا ایک جھوٹ سے جی بہلاتے ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد اور مسلم لیگ (ن) کی 1988ء سے اکتوبر 1999ء تک کی دشنار طرازی کی سیاست دو محترم خواتین یا یوں کہہ لیجئے بھٹو خاندان کے گرد گھومتی تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے اگلے برسوں میں وقت سے سبق سیکھا لیکن انصافی وقت کے ساتھ مخالفین کو سبق سیکھانے کے لئے اتاولے ہوئے جارہے ہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں 2018ء میں پی ٹی آئی کو اقتدار دلائے جانے کے بعد ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین اور انصافیوں نے جو اٙت اٹھائے رکھی وہ کس سے پوشیدہ ہے؟

ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین اور انصافیوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی بڑی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری، معروف ٹی وی اینکر سیدہ عاصمہ شیرازی کے بارے میں جو مہم چلائی اور جس طرح کی گھٹیاں زبان استعمال کی وہ سب ریکارڈ پر ہے۔ خود عمران خان ڈی چوک کے جلسوں اور دیگر مواقع پر اپنے مخالفین کی نقلیں اتارتے ان کا تمسخر اڑاتے رہے ان کے حامیوں نے اپنے قائد کی پیروی کی۔

مثال کے طور پر 2018ء سے اب تک انصافیوں نے اپنے سیاسی مخالف میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف سوشل میڈیا پر جو غلیظ ٹرینڈز چلائے انہیں دیکھ پڑھ کر ہی رونا آتا تھا۔

سوشل میڈیا کے انصافی مجاہدین کی تین اقسام ہیں اولاً عمران خان کے مولا جٹ اسٹائل سے متاثرین، ثانیاً وہ عمومی مزاج رکھنے والے جن کے خیال میں مخالفین پر دشنام طرازی “حج اکبر” کے مساوی ثواب کا باعث ہے اس طبقے میں سابق جیالے خاندانوں کی نئی نسل کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کبھی سیاستدانوں کو ملک دشمن قرار دیتے ہوئے صرف اور صرف فوج کو اس ملک کی محافظ دیانتدار وغیرہ سمجھتے تھے۔

تیسری قسم میں ففتھ جنریشن وار کے وہ مجاہدین ہیں جو نمبرون کےدفتروں میں پالے پوسے گئے آج کل یہ ا پنے خالق کی بجائے عمران خان کے ساتھ ہیں۔

پہلی قسم کے علاوہ دوسری اور تیسری قسم کے لوگ برسوں تک یہ کہتے رہے کہ “فوج سے محبت کے لئے باپ کا ایک اور ماں کا نیک ہونا ضروری ہے”۔

لیکن آجکل انہیں سارے جرائم تباہیوں وغیرہ وغیرہ کی ذمہ دار وہی پرانی محبوب فوج لگتی ہے۔

بات شاہد آفریدی کے خلاف جاری حالیہ غلیظ مہم چنددن قبل شروع ہوئی تھی جس پر خود تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت بھی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے دیکھائی دے رہے ہیں مگر انصافی سوشل میڈیا کی تینوں اقسام کے مجاہدین کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔

معروف صحافی شکیل انجم نے گزشتہ روز لکھے گئے اپنے کالم میں انصافی سوشل میڈیا مجاہدین کی اس مہم پر دوٹوک انداز میں بات کی۔

معاملہ صرف شاہد آفریدی کا ہی نہیں ایک خاتون ٹی وی اینکر جنہیں خود انصاف صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے 14 اگست 2023ء کو دی گئی منظوری کے بعد گزشتہ روز ایوارڈ ملا اس کے خلاف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا مجاہدین کی نہ ختم ہونے والی عامیانہ مہم جاری ہے بلکہ ان کے بارے میں جو الفاظ اور اصطلاحیں استعمال کی جارہی ہیں ان میں سے ایک لفظ بھی اگر ان مجاہدین کے محبوب قائد کے خاندان یا خود ان کی خواتین کی طرف پلٹادیا جائے تو یہ مرنے مارنے پر اتر آئیں گے۔

اس صورتحال میں کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ عمران خان ماضی میں جو کہا کرتے تھے کہ “خدا نے مجھے پیغمبروں کی طرح تیار کیا ہے” ان کے حامی عقیدت مند اور مجاہدین کی تینوں اقسام میں شامل خواتین و حضرات اس پر صدق دل سے ایمان لے آئے ہیں۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ اب عمران خان کے مخالف و ناقد کی حب الوطنی ایمان اور دینی جذبے پر حملے کرتے ہیں بلکہ عمران خان کی اتحادی ایک مذہبی جماعت کے حامی تو مخالفین کو یزیدی ٹولہ قرار دیتے نہیں تھکتے۔

دو اڑھائی برس قبل ان سطور میں سیاسی مخالفین اور ناقد خواتین صحافیوں کے خلاف انصافیوں کی سوشل میڈیا مہم پر عرض کرتے ہوئے اس مہم میں استعمال کئے جانے والے بعض الفاظ پر گرفت کی تھی تب بعض انصافی حضرات کا موقف تھا کہ اس مہم کا ہماری پارٹی سے کوئی تعلق نہیں مگر کڑوا سچ یہی ہے کہ مخالفین و ناقدین کے خلاف ہر غلیظ مہم پارٹی قیادت کی رضامندی سے ہی چلائی جاتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ انصافیوں کے اپنے دور میں جب ایک اداکارہ مہوش حیات کو ایوارڈ دیئے جانے پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے تو جواباً ایسی زبان برتی گئی کہ سوالات اٹھانے والوں کو توبہ کرنا پڑی۔

بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مقدسات کی فہرست میں شامل ہوئی اس نئی نویلی شخصیت کے عقیدت مندوں اور حامیوں کو گالی بریگیڈ کا کردار اپناتے ہوئے یہ ضرور ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کی مقدس قرار پائی شخصیت بھی شیشے کے گھر میں ہی مقیم ہے۔

آپ سوشل میڈیا پر ان تینوں اقسام کے انصافی مجاہدین کے اکائونٹس کو دیکھ لیجئے یہاں تک کہ شاہین صہبائی اوریا مقبول جان وغیرہ اپنے ماضی کے ان داتائوں کے خلاف نئی محبت کی اسیری میں جو زبان استعمال کرتے ہیں اس پر حیرانی ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ سیاسی مخافلین کے لئے عدم برداشت کا رویہ انصافیوں کی تخلیق سے قبل بھی اس ملک میں موجود تھا مگر انصافیوں نے اسے چار چاند لگادیئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالت یہ ہے کہ بطور سپیکر ناراض ہوجانے والے دوست کو صوابی سے پولیس کے ذریعے واپس اسلام آباد بلوانے والے اسد قیصر کی باسی کڑی میں بھی ابال آیا ہوا ہے۔ امید ہے کہ اگر مستقبل میں پی ٹی آئی کو کبھی اقتدار ملا تو سب سے پہلے وہ “نشان دشنام طرازی” متعارف کرائے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply