مجھے یاد ہے۔۔۔حامد یزدانی۔۔۔۔(قسط نمبر 20)

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)

جرمنی میں قیام کو تین برس ہوچکے ہیں۔ اس دوران میں یورپ بھر کی سیر کی۔ جرمنی کے مختلف شہروں اور قصبوں کی سیاحت کے مواقع ملے۔ چند پرانے دوست ملے اور کچھ نئی دوستیاں بھی قائم ہوئیں۔ یہاں حلقہ اربابِ ذوق بنایا بھی اور چلایا بھی۔ دوسری ادبی تنظیموں کی تقریبات میں بھی شرکت کی۔ جرمنی کے مشرقی حصے سے بھی ہوآیا جو ابھی مغربی جرمنی سے متحد ہوا ہے۔ اردو، پنجابی اور جرمن شعروادب کا کچھ نہ کچھ مطالعہ بھی کیا ہے۔ لندن اور پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات و جرائد میں بھی لکھتا رہا ہوں۔ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہوچکا۔معاشی طور پر بھی زندگی پہلے سے کہیں مستحکم ہے،مگر دل یہاں لگ نہیں رہا۔

 میں مشاعروں میں یہ غزل ضرور سنایا کرتاہوں:

لاہور کی حسین فضاوں سے دُور ہوں

لگتا ہے جیسے ماں کی دعاؤں سے دُور ہوں

گُم ہوں دیارِِ غیر کے اِس برف زار میں

اپنوں کی پُرتپاک جفاؤں سے دور ہوں

گرمی کی شام موتیا، سردی کی شب گلاب

موسم کی دل فریب اداؤں سے دور ہوں

٭٭٭٭٭

 جناب احمد ندیم قاسمی کو جریدہ فنون کے لیے شاعری بھیجی تو ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ یہاں جی نہیں لگتا۔ ندیم صاحب کا شفقت بھرا خط موصول ہوا جس میں پردیس میں اداسی کے احساسات پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے نمٹنے کا بھی ایک نسخہ تحریر کردیا تھا۔لکھا تھا:”کتاب کو اپنا دوست بنا لیجیے۔ میرا تجربہ ہے کہ پردیس میں یہ انسان کی بہترین رفیق ثابت ہوتی ہے۔‘‘اس مشورہ پر عمل کرنے سے وقت کافی اچھا گزرنے لگا تھا۔ مگر اب ریڈیو “دی وائس آف جرمنی “کی اردو سروس کے ساتھ ملازمت کا محدود معاہدہ بھی اپنی معیاد کی تکمیل کو پہنچ رہا ہے ۔ ریڈیو بنگلہ دیش سے آئے شاعر دوست جاہدالحق اور پاکستان سے بھی کچھ احباب نے ابھی مزید یہیں رکنے کا مشورہ دیا ہے۔ ادبی رسالہ ’’تخلیق‘‘ کے مدیر اظہر جاوید صاحب نے جو ان دنوں روزنامہ امروز سے بھی منسلک ہیں ایک تفصیلی خط بھیجا ہے جس میں پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورت حال اور امروز کے جلد ہی بند ہوجانے کے خدشات کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے جرمنی ہی میں ٹھہرنے کی برادرانہ تلقین کی ہے۔ان سب مخلصانہ مشوروں پر بھی غور کیا ہے اور امی جان کی بگڑتی صحت کی اطلاعات بھی دھیان میں ہیں۔ چناں چہ پاکستان واپسی ہی کا فیصلہ ہوا ہے۔

٭٭٭٭٭

ڈوئچے ویلے میں احباب نے محبت سے الوداعیہ دعوتوں کا رسمی اور غیر رسمی اہتمام کیا ہے۔ ڈاکٹر گوئبل گروس نے پاکستان سے بطور نمائندہ کام کرنے کی پیش کش کی ہے اور اسلام آباد میں رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ میں نے ان کی نصف پیش کش قبول کرلی ہے۔ یعنی بطور نمائندہ پاکستان سے کام تو کروں گامگر اسلام آباد سے نہیں بلکہ ملک کے ثقافتی اور سیاسی مرکز لاہور سے۔ میرے ہم۔ کار سید اعجاز حسین، شہناز حسین، علی  اصغر مداح اور امجد علی اس فیصلہ پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

دو فروری انیس سو ترانوے کو کولون سے براستہ فرینکفرٹ لاہور روانہ ہوگیاہوں۔ جرمنی ہم دو افراد آئے تھے مگر الحمدللہ  تین پاکستان کے سفر پر ہیں۔ کیوں کہ ننھا زرناب بھی تو اب کے ہمارے ساتھ ہے۔

٭٭٭٭٭

گھریلو معاملات سے ہٹ کر لاہور پہنچتے ہی ادبی وصحافتی رابطے اور احباب سے تجدید ملاقات کی صورتیں بن رہی ہیں۔ روزنامہ مساوات میں طارق کامران سے ملانےمجھے عزیز دوست محمد امین لے گئے۔استادِ گرامی شاہد ملک صاحب سے نوازشریف صاحب کی ایک پریس کانفرنس میں اچانک ملاقات ہوگئی۔ خالد احمد صاحب سے ملنے واپڈا ہاؤس گیا تو سامنے ہی ڈاکٹر امجد پرویز صاحب کا دفتر دکھائی دیا تو ان سے بھی مل لیا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب سے ملنے انجمن ترقی ادب کے دفتر گیا۔ہاتھ ملایا۔ گلے ملے اور کہنے لگے:’’حامد، ایک بات ہمیشہ یادرکھیے گا۔ یزدانی صاحب کے برخوردار ہونے کے ناتے آپ میرے بھتیجے ہیں اور اس رشتے سے آپ کا مجھ پرحق بنتا ہے۔آپ جب چاہیں مجھے یاد کرسکتے ہیں۔ مجلس اور فنون کے دروازے آپ کے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔‘‘

مجھے ندیم صاحب کی باتوں سے بہت حوصلہ ملا ہے۔۔

منو بھائی ان دنوں اداکار عابد علی کے ساتھ مل کر ایک نجی ڈرامہ پروڈکشن کمپنی چلا رہے ہیں۔ ان سے ملاقات گلبرگ میں ہوئی۔ منیر نیازی صاحب سے سامنا ایک مشاعرہ میں ہوا۔ وہ بہت محبت سے ملے۔ والد صاحب کی یادیں تازہ کیں اور مجھے گھر پر آکر ملنے کا ’’حکم ‘‘ دیا۔ اشفاق احمد صاحب اور بانو قدسیہ صاحبہ سے ملنے ماڈل ٹاؤن گیا۔ادبی دوست پاک ٹی ہاؤس اور چینیز لنچ ہوم میں مل گئے۔ گورنمنٹ کالج میں اپنے اساتذہ کی زیارت کی۔ پھر ایم اے او کالج کا چکر بھی لگا آیا۔ وہاں بھی بہت سے لکھاری پروفیسروں سے ربطِ ادب ہے۔

٭٭٭٭٭

 ان سب ملاقاتوں سے ہٹ کر ایک خاص مسرت اور طمانیت مجھے نفیر آباد پہنچ کر حاصل ہوئی۔ مجھے اپنے دوست خالد علیم صاحب سے ملنا تھا۔ دستک دی تو دروازہ محترم علیم ناصری صاحب نے کھولا اور محبت سے بغل گیر ہوگئے۔ بولے:’’تم آگئے ہو۔ اب لاہور کی ادبی محفلوں میں یزدانی جالندھری صاحب کی یادیں اور بھی روشن ہوجائیں گی۔ ہم ہر مشاعرہ میں ان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ امید ہے تم اب ان تمام مشاعروں میں آیا کرو گےاور یزدانی صاحب کی نمائندگی کیا کروگے۔‘‘

میں نے ادب سے کہا : ’’ان شااللہ‘‘۔

اتنے میں خالد علیم صاحب بھی باہر آگئے اور مجھے گھر کے اندر لے گئے جہاں ہم نے ذاتی اور ادبی باتوں کے ایک نامختتم سلسلہ آغاز کردیا۔

٭٭٭٭٭

ریڈیو پاکستان لاہور میں پرانے احباب خاص کر بھائی ارشاد حسین صاحب سے ملنے گیا تو وہ بتانے لگے کہ یزدانی صاحب نے زندگی کا آخری مشاعرہ انھی کی دعوت پر ریڈیو پاکستان لاہور پر پڑھا تھا جو مارچ ۱۹۹۰ کو ریکارڈ کیا گیا اور تئیس مارچ یعنی یزدانی صاحب کی رحلت کے روز نشر ہوا۔ گویا ان کی آخری شعری تخلیق وطن کے نام تھی۔اور یہ کہ وہی ریڈیو کی گاڑی میں انھیں مشاعرہ کے لیے لینے گھر گئے تھے اور واپس بھی خود چھوڑنے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علالت کے سبب یزدانی صاحب اور بھی کم زور دکھائی دے رہے تھے مگر نظم پڑھتے ہوئے ان کے لہجے میں پہلے سی کھنک اور تمکنت موجود تھی۔ارشاد بھائی جذبات کی رو میں یہ سب بتاتے چلے گئے تھے اور میں بُت بنا بیٹھا چشمِ تصور سے والدصاحب کو مشاعرہ پڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

٭٭٭٭٭

بورےوالا سے اردو کے ایک نوجوان لیکچرار اور شاعر اکرم عتیق ملنے لاہور آئے ہیں۔ انھوں نے اوریئنٹل کالج لاہور سے ایم اردو کی تکمیل کے لیے جو تحقیقی مقالہ تحریر کیا تھا وہ یزدانی صاحب کی شخصیت و فن پر تھا۔ اس مقالہ کے لیے ان کے نگران ڈاکٹر تحسین فراقی تھے، فراقی صاحب بزرگ نسل کے تخلیق کاروں سے جو محبت و عقیدت رکھتے ہیں ان سے سب آگاہ ہیں۔

٭٭٭٭٭

اختتامِ ہفتہ پر چینیز لنچ ہوم مال روڈ پر حلقہ ادب کے تنقیدی اجلاس کے بعد میں تحسین فراقی صاحب سے محوِ گفتگو ہوں اور والدصاحب پر مقالہ کی تحسین کرتے ہوئے ان کا شکرادا کررہا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تو یزدانی صاحب پر کام کا آغاز ہے۔ وہ ان پر ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھوانے کے خواہاں ہیں۔

مجھے یہ سن کر خوشی ہورہی ہے۔ فراقی صاحب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں یزدانی صاحب کا کام ابھی سامنے ہی نہیں آیا۔ ان کے کیے تراجم کی کتابیں دستیاب نہیں۔ ان کی شاعری مجموعے کی صورت میں ان کی زندگی میں منظر عام پر نہیں آئی۔ وہ طبعاً بھی خاموش طبع اور درویش مزاج تھے۔ اس لیے ان کی شخصیت اور فن پر ان کی زندگی میں وہ کام نہیں ہوسکا جس کے وہ حق دار تھے۔

 ہم لنچ ہوم کی سیڑھیاں اتر کر گرین بیلٹ کے پاس آکھڑے ہوئے ہیں۔ رات کا وقت ہے اور سڑک پر ٹریفک کا شور بھی نہیں۔ فراقی صاحب کی آواز مجھے صاف سنائی دے رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں:

’’مجھے بہت خوش گوار حیرت ہوئی جب بھارت میں بہاریہ مشاعرہ کا آغاز کرتے ہوئے وہاں کے ایک مرکزی وزیر نے یزدانی صاحب کی رباعی سنائی اور کہا کہ ان کے یہ نوجوانی کے شاعر دوست تقسیمِ برصغیر کے بعد پاکستان جاکر کہیں کھو گئے ہیں۔  تب انھیں پاکستان سے گئے مہمانوں نے یزدانی صاحب کی خیریت کی اطلاع دی تو انھوں نے اپنا پتہ فراہم کیا کہ لاہور پہنچ کر ان کا پیغام یزدانی صاحب کو پہنچا دیا جائے۔‘‘

یہ کہہ کر فراقی صاحب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یزدانی صاحب نے بھارتی وزیر کے اس رقعہ کا کیا کیا؟

میں انھیں بتاتا ہوں کہ والدصاحب نے انھیں خیریت کا خط لکھ دیا تھا مگر سفر سے معذرت کرلی تھی۔ میں فراقی صاحب کو بتاتا ہوں کہ اس طرح کی دعوتیں انھیں رسالہ بیسویں صدی مدیرِاعلیٰ خوشتر گرامی صاحب اور ساحر لدھیانوی صاحب کی طرف سے بھی ملی تھیں مگر والدصاحب خواہش کے باوجود جا نہ سکے تھے۔

’’یزدانی صاحب، واقعی ایک سچے درویش تھے جن کی طبیعت کو دنیا داری سے علاقہ ہی نہ تھا۔‘‘

سوچ میں ڈوبے ہوئے فراقی صاحب کہتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

والد صاحب کے قریبی دوست طفیل ہوشیارپوری صاحب نے ادبی جریدہ ’’محفل‘‘ کا خصوصی شمارہ ’’بیادِ یزدانی جالندھری‘‘ شائع کیا ہے۔ یہ وہی جریدہ ہے جس کی ادارت  کے فرائض والدصاحب نے برسوں ادا کیے۔اس کے مسودہ کا انتخاب، پروف ریڈنگ اور کاپی پیسٹنگ تک سب اپنی نگرانی میں کرواتے بلکہ بہت سا کام تو خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے۔ روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں مصروفیات اور پھر اردو ڈائجسٹ سے منسلک ہونے کے بعد ’’محفل‘‘ سے عملی طور پر کچھ دُوری ضرور ہوگئی تھی مگر رابطہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ والد صاحب طفیل ہوشیارپوری صاحب سے اپنی چالیس سالہ دوستی پر ہمیشہ نازاں رہے۔اور طفیل صاحب نے بھی، جنھیں ہم ’’تایا طفیل‘‘ کہتے ہیں والدصاحب سے اپنی دوستی کا حق ادا کیا ہے۔یہ سب محبت والے لوگوں کے قصے ہیں۔یہ زندگی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply