ایک شخصیت، ایک ادارہ/سعدیہ بشیر

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا معاہدہ حکومتی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس پارٹنر شپ کے بے شمار ماڈل ہیں جو ترقی یافتہ ممالک سے ادبی تحریکوں کی صورت مختلف اداروں یا منصوبہ جات میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ تعلیمی سطح پر پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی ایسا ہی متحرک ماڈل ہے۔ ایک شخص مساوی ایک ادارہ کی مثال ادارے کی سی ای او میڈم سفینہ صدیق پر صادق آتی ہے جن کی مسلسل تعمیری پالیسیوں نے اس ادارے میں جان ڈال دی ہے۔

2018 سے رینگتے ہوئے اس ماڈل نے اونچی اڑان بھری اور اپنی کارکردگی سے پنجاب میں جدید ممکنہ تعلیمی اصطلاحات نہ صرف متعارف کروائیں بلکہ تجرباتی سطح پر انھیں قابل عمل بھی ثابت کروایا۔ عوامی سیکٹر میں پھیلی بے دلی، سستی اور غیر مربوط کارکردگی کو نئے سرے سے پر عزم بنانے میں پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی کا اہم کردار ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یوں کہیے کہ پیما پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا ابتدائی ماڈل ہے جو موثر بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ اس ادارہ نے ریاست کے غیر فعال سکولوں کو تجرباتی بنیادوں پر مثالی سکول بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔

ابتدائی سطح پیما نے ان سکولز پر کام کرنا شروع کیا جو طلبہ کی کم تعداد، کم زور کارکردگی اور اساتذہ کی غیر موجودگی کے باعث کھنڈر یا گھوسٹ سکول بن رہے تھے۔ پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی افرادی اور این جی اوز کے ساتھ معاہدہ کی نہ صرف ضامن ہے بلکہ ہمہ وقت اس دوطرفہ معاہدے کی نگہبان بھی ہے۔

حال ہی میں چار ہزار سے زائد پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر ان معاہدوں کی تجدید تاریخ ساز عمل ہے۔ جس میں فاصلاتی اسائنمنٹ کے تحت یہ دشوار اور نازک فریضہ بروئے کار لایا گیا۔ میڈم سفینہ صدیق نے ادارے کے تحت چلنے والے سکولز کی ای مانیٹرنگ پر زور دیا۔ سرپرائز کے طور پر ای مانیٹرنگ کے عمل میں انفراسٹرکچر، صفائی، طلبہ کی حالت، اساتذہ کی موجودگی اور پڑھائے جانے والے نصاب اور طریق تعلیم سے آگاہی ادارے کی شفافیت کا بنیادی مظہر ہے۔

اس وقت پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی نہ صرف تعلیمی امور میں اتھارٹی کا درجہ رکھتا ہے بلکہ یہ ادارہ افرادی سطح پر اور این جی اوز کی کارکردگی پر طائرانہ تجزیہ کار کی مضبوط حیثیت کا حامل بھی ہے۔ یوں کہیے یہ ادارہ ایک detective اور تعلیمی اسپتال کا درجہ رکھتا ہے جو زمینی اور معاشرتی سطح پر گہری نظر رکھے ہوئے مسائل و سماجی امراض کی بیج کنی پر آمادہ عمل ہے۔

ادارہ کے تحت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ نے بہت سے اذہان کی مشترکہ کاوش کو فروغ دیا ہے۔ اس میں ایک طرف تو افرادی و ادارہ جات کی متحرک اور مثالی کارکردگی سامنے آتی ہے دوسری طرف ان دو طرفہ معاہدے کے تحت بہت سے ایسے اداروں کی قلعی بھی کھلتی ہے جو اونچی دکان، پھیکا پکوان کا تاثر ابھارتے ہیں۔ سی ای او میڈم سفینہ صدیق (پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی) کو ان امور کا بخوبی ادراک ہے۔ انھوں نے اس پارٹنر شپ کے تحت تعلیمی نظام میں تعمیری تخلیقی پالیسیوں کو مرتب کرنے پر زور دیا ہے۔

یوں سمجھیے ان کی بدولت اس وقت پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی فری آف کاسٹ ٹریننگ کا ادارہ ہے۔ جہاں کام کرنے والے افراد کو میڈم صاحبہ پرائمری تعلیمی مسائل کو سمجھنے کا شعور دیتی ہیں۔ اس وقت پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی کی ترجیحات واضح ہیں اور ان میں بنیادی طور پر تعلیم کی اہمیت کا احساس اجاگر کرتے ہوئے طلبہ کی تعداد میں اضافہ، تعلیمی عمل کو موثر بنانا اور اس میں جامعیت کا فروغ۔

اساتذہ کی ٹریننگ تا کہ تعلیمی عمل کو دلچسپ بنایا جائے اور طلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق شعوری ادراک دیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے ہر سال اساتذہ کی ٹریننگ کروائی جاتی ہے۔ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے اس معاہدے کے تحت خاص طور پرپسماندہ علاقوں میں کتنے ہی لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ یوں یہ ادارہ بے روزگاری کے خاتمہ میں بھی موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ سی ای او میڈم سفینہ صدیق کا کہنا ہے کہ ادارہ ایسے اسکولز کو مثالی بنانے اور ان کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جہاں ایک بھی طالب علم یا استاد نہیں۔

پنجاب ایجوکیشن انیشی ایٹو مینجمنٹ اتھارٹی منظور شدہ پراجیکٹ پر اپنی تختی لگانے یا تختیوں پر اپنا نام لکھنے کی بجائے خاکستر سے نیا جہان تخلیق کرنے پر یقین رکھتا ہے جہاں تعلیمی عمل کو خوش گوار ہوا کا جھونکا محسوس کیا جائے۔ اس ادارہ کی روح رواں سی ای او صاحبہ ہیں جو ہمہ وقت ادارے کی مربوط اور ٹھوس بنیادوں پر وسعت کے لیے کوشاں ہیں تا کہ حکومتی اور عوامی سطح پر باہمی اعتماد کو فروغ دیا جا سکے۔ ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ پاکستان

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply