موسمِ سرما میں آگ برساتا سورج۔۔سلیم فاروقی

آج کل ملک بھر میں موسمِ سرما ہے۔ کوئی نئی بات نہیں ہر سال ہی ہوتی ہے۔ موسمِ سرما کا خیال آتے ہی جسم میں ٹھنڈک کا احساس ہوجاتا ہے۔ نرم و گرم سوئیٹر، خوبصورت کمبل، روئی بھرے لحاف، بھُنی ہوئی مونگ پھلی، گجک، گرما گرم یخنی، بھاپ اڑاتی چائے، شیر فروش کی کڑاہی میں کڑاکڑاتا ہوا دودھ، جیب میں بھرے خشک میوہ جات، بھینس کا پایا، گاجر کا حلوہ، سلگتے انگاروں کے گرد جمی چوپال، خوشگوار اور گپ شپ کے موڈ کے ساتھ دوستوں اور ہم عمر و ہم مرتبہ دوستوں کے ساتھ چُہلیں، بزرگوں سے ماضی کے قصے سننا اور بچوں کی شرارتوں سے لطف اندوز ہونا اور جانے کون کون سی نعمتیں چشمِ تصور میں گھوم جاتی ہیں اور بے اختیار زبان کہہ اٹھتی ہے:
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
لیکن اگر میں یہ کہوں کہ کسی کو دسمبر کے اس جاڑے میں روح تک کو جھلسا دینے والی گرمی کی حدت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔جھلساتی دھوپ میں چلتی لوُ بھی اچانک تھم کر حبس کا عالم ہوجائے۔ نہ سانس لیتے بنے نہ آنکھوں کے پپوٹوں کو مکمل کھولنے کی ہمت پڑے۔ کیا آپ اس بات کو تسلیم کرلیں گے؟ شائد چند ایک استثنیات کے سوا اکثریت اس کو ماننے کو تیار نہ ہوگی۔ لیکن جناب یہ دنیا ہے، یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ یہاں رب تعالیٰ کی نعمتیں ہی نہیں آزمائشیں بھی اس کی یاد دلاتی ہیں۔
ہاں وہ بھی ایسا ہی یخ بستہ دسمبر تھا۔ موسم کا لطف اپنی جگہ تو لطف دے ہی رہا تھا۔ ساتھ ہی یہ موسم دل کی خوشیوں کو بھی دوبالا کر رہا تھا۔ خاندان کی اگلی پشت بچپن و لڑکپن سے نکل ذمہ دار شہریوں کی صف میں شامل کیے جانے کو تیار تھی۔ جب بھائی کی اکلوتی بیٹی ہو بہن کے بیٹوں میں پہلی بار بارات سجنے کی تیاریاں ہوں تو خاندان میں کون ہوگا جو خوشی سے نہال نہ ہو؟ دادا دادی اور نانا نانی تو اصل سے قیمتی سود کو بار آور ہوتے دیکھ کر ہی جذباتی ہوئے جارہے تھے۔
بارے دسمبر کے آخری ہفتے میں وہ دن بھی آیا جب میری بھتیجی میرے بھانجے کے سنگ زندگی بِتانے کو، اس کا گھر آباد کرنے کو امی ابو ہی نہیں دادا دادی کی ڈبڈباتی آنکھوں سے دعا لے کر روانہ ہوئی۔ اب صرف انتظار تھا کہ دونوں کا ولیمہ ہو اور فرائض مکمل ہوں۔
لیکن کسی کو کیا علم تھا کہ دادا نے اپنی پوتی کو ڈبڈباتی آنکھوں سے ہی نہیں ڈوبتی رگوں سے بھی دعا دے کر رخصت کیا ہے۔ رخصتی کے اگلے ہی دن اس کے دادا، میرے والد شاہ محی الحق فاروقی صاحب دل کے ٹکڑے کی جدائی برداشت نہ کر پانے کی باعث اپنے دل کو پکڑ کر امراض قلب کے ہسپتال میں جا پہنچے۔ چند روز ہسپتال میں رہنے کے بعد اپنی لاڈلی پوتی اور چہیتے نواسے کے ولیمے کا انتظار کیے بنا ہی دسمبر 2011ء کے آخری دن یعنی 31 تاریخ کو ولیمہ تو کیا نئے سال کا سورج دیکھے بغیر ہی اس مالکِ حقیقی کے پاس روانہ ہوگئے جو روزانہ چاند سورج طلوع بھی کرتا ہے اور غروب بھی کرتا ہے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
اس روز مجھ سمیت میرے تمام بہن بھائیوں کو ادراک ہوا کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ جانا ایسے ہی جیسے کسی نے چلچلاتی دھوپ میں سایہ دار چھتری تلے آپ کے لبوں سے لگے ٹھنڈے یخ آبِ شیریں کے کوزے کو چھین کر گرم ریت اڑاتے لق و دق صحرا میں زمانے کی تپش بھگتنے کو یکا و تنہا چھوڑ دیا ہو۔ پھر پتا چلتا ہے کہ جس کی نسبت پر ہم پہچانے جاتے ہیں اگر وہ خود نہ رہے تو زندگی کا سفر کتنا کٹھن ہوتا ہے۔
جس وقت یہ چھتری چھِنتی ہے لگتا ہے کہ شاید اب آئیندہ سفر تو کیا شائد اگلا قدم بھی نہ اٹھ سکے۔ لیکن پھر ایسے وہ شاید دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی ہمیں نہیں بھولتے ہیں۔ وہ تو ہم زندہ لوگوں کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کے زیادہ نزدیک ہوچکے ہوتے ہیں اور وہ وہیں سے ہمارے حق میں کی گئی دعا کو لگے ہاتھوں اللّٰہ سے منظور بھی کروا لیتے ہیں۔ اور ای میل سے بھی زیادہ تیز رفتار کسی رحمت کے فرشتے کے ہاتھوں ہمارے پاس بھیج دیتے ہیں پھر ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ ان کے بغیر جیون کا سفر کیونکر بغیر کسی طوفانی ہچکولے کے جاری رہتا ہے۔
وہ تو دنیا سے جانے کے برسوں بعد آج بھی ہمارے حق میں دعائیں منظور کروانے کے بعد رحمت کے فرشتے کے ہاتھوں ہماری طرف روانہ کرکے ہمیں مشکلات کے احساس سے بھی ہمیں بچا لیتے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ ہم تو اکثر یہ دعا بھی بھلا بیٹھتے ہیں:
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
(صدائے قلبِ سلیم فاروقی)

Facebook Comments