میر تقی میر کے ساتھ ایک نشست/سید عبدالوحید فانی

فانی: معزز خواتین و حضرات السلام علیکم!

آج ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت موجود ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے ان کا نام سنا ہو گا اور کافی لوگ ان کے کلام سے واقف بھی ہوں گے۔ بہر حال میں اپنے  اس تحریری انٹرویو کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب میر تقی میر کو اکیسویں صدی میں خوش آمدید کہتا ہوں۔

میر صاحب! سب سے پہلے میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو گزرے ہوئے زمانے سے تشریف لانے کی زحمت دی۔ اس کی وجہ ہمارا مادہ پرست اور ترقی پسند زمانہ ہے جو پیچھے دیکھنا    گوارا نہیں کرتا۔ بلکہ وہ تو ماضی کو بھی مستقبل میں منتقل کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ کہاں اٹھارہویں صدی کی سادہ زندگی کے وہ خوبصورت مناظر، وہ دہلی کی بارونق گلیاں، وہ لکھنو کے پُر شوق مشاعرے اور ان مشاعروں میں بڑے سنجیدہ الفاظ میں باندھے گئے اشعار کی گونج اور ہر طرف سے ”واہ واہ، کیا بات“ کی پُرذوق صدائیں۔ ہر محفل میں حقے کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ وہ فصیح و بلیغ لہجے میں گفتگو۔ اور وہ مزاج کی نزاکت، ذہن کی بلوغت اور فکر کی سنجیدگی،اور کہاں اکیسویں صدی کی بے جا مصروفیات  ۔۔ جہاں خوشی غمی بانٹنے کے لیے بھی فرصت نہیں۔ یہاں تو ماں کو اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے بھی تقرر لینا پڑتا ہے۔

پھر بھی میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کو اپنے زمانے سے تین صدی آگے کا مستقبل کیسا لگا؟

میر تقی میر: بہت شکریہ فانی صاحب! میں آپ کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے دعوت دی اور یاں بلا کر میری حوصلہ افزائی کی۔ آپ کے سوال کا جواب دینے سے قبل میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ میں ان سبھو ناقدین سے گلہ مند ہوں جنھوں نے میرے کلام پر تنقیدی نظر ڈالی لیکن کبھو مجھ سے میری رائے پوچھنے کی زحمت تک نہ کی۔ آخر میرا بھی تو پورا حق بنتا ہے کہ اپنے کلام کے حوالے سے سبھو قارئین کے اعتراضات اور الجھنیں دور کر سکوں۔

فانی: قطع کلامی کے لیے معذرت! میر صاحب آپ کی دور اندیشی کی داد دینی پڑے گی کیونکہ ہماری  آج کی نشست کا موضوع بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ لیکن اس سے پہلے آپ اپنی بات پوری کریں۔

میر: جی! رہا آپ کا سوال کہ مجھے میرا مستقبل یعنی آپ حضرات کا زمانہ کیسا لگا؟ تو اس کا بہت سادہ سا جواب ہے کہ مادی طور پر تو بہت ترقی یافتہ لیکن ادبی، اخلاقی اور جمالیاتی لحاظ سے میرے زمانے کے مقابلے میں نہایت ہی پست حالی کا شکار۔

فانی: میر صاحب! آپ نے اپنی سخن گوئی کی طرح اس جواب کی سادگی میں بھی ایسی گہری فلسفیانہ بات کہہ دی جس میں واقعی ہمارے زمانے کے باشندوں خصوصاً ادبی حلقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے قابل ِغور خبرداری ہے۔

اب میں آپ سے ایک رسمی سوال پوچھنا چاہوں گا کہ آپ ہمارے ان قارئین کے لیے خود اپنا تعارف کرائیں جو ابھی تک اس الجھن میں پھنسے ہوئے ہیں کہ میر تقی میر آخر ہے کون؟

میر: میاں اپنا تعارف کیا کرواؤں۔ بس دو اشعار عرض کرتا ہوں :
درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
رنگ رو جس کے کبھو منہ نہ چڑھا ،میں ہی ہوں
اپنے کوچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات
وہ جگر سوختہ و سینہ جلا ،میں ہی ہوں

فانی: آہ! آپ نے تو تعارف میں اپنی زندگی کی درد بھری داستان سنا دی۔ اور میرا ماننا ہے کہ اس درد کے مجرم ہم ہی ہیں۔ اس جرم کا اعتراف میں آپ کے ایک شعر میں کچھ رد و بدل کر کے پیش کرتا ہوں :

تم پہ کرتے جو سدا جور و جفا ہم ہی ہیں
پھر بھی جن کو ہے گماں تم سے وفا ہم ہی ہیں

میر صاحب! کافی عرصے سے میری یہ تمنا تھی کہ میں آپ سے بذات خود اس بات کی تصدیق یا تردید کروں جو اکثر ناقدین آپ کے کلام کی فنی و فکری خصوصیات میں ہمیشہ بیان کرتے ہیں کہ میر صاحب یعنی آپ سہل الممتنع کے شاعر ہیں۔ اور آپ ہر بات سامنے سے کہہ دیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک میرا مطالعہ ہے، ہر بار آپ کے آسان شعروں نے ہی مجھے گہری سوچ میں ڈالا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ سہل الممتنع کے شاعر ہیں تو آپ کے الفاظ کی ظاہری ساخت کے ساتھ ساتھ اس میں پوشیدہ فکر یا پیغام سمجھنا بھی سہل ہونا چاہیے، جو ہے نہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

میر: آپ کی طرف سے پیش کیا گیا میرا تحریف شدہ شعر کو اصلی حالت میں ان ناقدین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا جو آپ کے سوال کا ایک لحاظ سے اشارتاً جواب ہو گا:

جس پہ کرتے ہو سدا جور و جفا میں ہی ہوں
پھر بھی جس کو ہے گماں تم سے وفا میں ہی ہوں

فانی: بہت اعلیٰ! مگر میر صاحب اگر آپ اپنی اسی رائے کو کچھ اور وضاحت کے ساتھ ہمیں بیان کریں گے تو ہمارے کند ذہنوں میں یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ بیٹھ جائے گی۔

میر: جی فانی صاحب۔ میں نے اپنے دیوان اوّ کے ایک شعر میں واضح الفاظ میں کہا تھا:

سہل اس قدر نہیں ہے مشکل پسندی میری

اب خدا جانے میرے قارئین اور ناقدین کو یہ مصرع کہیں پڑھنے کو نہیں ملا یا پھر میری مشکل پسندی انھیں سہل لگی۔ یا شاید ان کے حالات و تجربات میرے حالات سے زیادہ شدید ہوں، اس لیے سہل الممتنع کہہ دیا۔

فانی: آپ نے بجا فرمایا۔ آپ کے کلام سے متعارف ہونے کے  ابتدائی دنوں میں کچھ اسی قسم کی غلط فہمی مجھے بھی ہوئی، مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو ایک طلسم نگاری ہے جس کے شکنجے میں آنے کے بعد قاری اس فریب کا شکار ہو جاتا ہے کہ یہ تو آسان فہم اشعار ہیں اور یہیں پر وہ دھوکا کھا جاتا ہے۔ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں اس پہلو سے آپ کو دھوکے باز شاعر کا خطاب دینا چاہوں گا۔ کیونکہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ میں نے سمجھ لیا مگر حقیقت میں کچھ بھی سمجھا نہیں ہوتا۔ آپ ہی کا تو شعر ہے :

کوئی سادہ ہی اس کو سادہ کہے
لگے ہے ہمیں تو وہ عیار سا

میر: میں بھی آئے دن اس قسم کے تبصروں سے تنگ آ گیا ہوں۔ اور کبھو کبھو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ واقعی میرے جذبات و احساسات اتنے پھیکے تھے کہ میرے اشعار ہر کسو کے سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ میں نے کہا تھا:

شعر میرے ہیں سب خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ ہر کوئی میرے الفاظ کی تہ تک پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ میرے اشعار شعور کی ایک مخصوص منزلت سے ہیں۔ جس کو سمجھنے کے لیے اس مقام میں ہونا چاہیے تاکہ قاری یا ناقد کے   جذبات کی  میرے کلام کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو۔ اگر میرا کلام اتنا ہی سہل ہوتا جتنا ناقدین پیش کر رہے ہیں تو ابراہیم ذوق ہر گز یہ کہنے پر مجبور نہ ہوتا:

نہ ہوا، پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

میں نے تب بھی کہا تھا اور آج پھر سے یہ دعویٰ کر رہا ہوں :
سہل ہے میر کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے

فانی: ”واہ اور آہ“ کا معمہ پھر کبھی۔ لیکن ابھی آپ کی گفتگو سننے کے بعد زبان سے بے اختیار ”واہ واہ“ نکلنے لگا ہے۔ میں آپ کا ایک شعر عرض کرنا چاہوں گا۔ اسی شعر نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ سہل الممتنع کے شاعر ہوں  یا نہ ہوں ،  مگر آپ کے اشعار سمجھنا بہت ہی مشکل ہیں۔ عرض کیا ہے!

میر: ارشاد!
فانی: مت سہل سمجھو ایسے ہیں ہم کیا ورے دھرے
ظاہر تو پاس بیٹھے ہیں پر ہیں بہت دور

میر صاحب! ہم آج کی نشست وقت کی کمی کی وجہ سے برخاست کر رہے ہیں۔ لیکن جانے سے پیشتر ایک آخری سوال پوچھنا چاہوں گا کہ آج ہماری بحث اسی موضوع پر ہوئی کہ آپ کا کلام کیا سہل الممتنع ہے یا نہیں؟ اور آپ کے فصیح و بلیغ جوابات نے اس کی حقیقت بھی ظاہر کر دی۔ اب آپ کی کیا تجویز ہے اپنے قارئین کے لیے کہ کیسے وہ آپ کی شاعری سے لطف حاصل کر سکتے ہیں؟

میر: جب تک وہ ان تجربات سے نہ گزرے ہوں جو مجھ پر گزرے تب تک کوئی تجویز نہیں۔ البتہ ایک شعر عرض ہے :
ہر چند جذب عشق سے تشریف یاں بھی لائے وہ
پر خود گم ایسا نہیں جو سہل مجھ کو پائے وہ
فانی: زبردست! تجویز نہ دے کر بھی میر صاحب نے تجویز دے دی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین! آج ہم اپنی نشست یہیں پر برخاست کرتے ہیں اور میر صاحب کو بھی بہت دور جانا ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply