ادھار محبت کی قینچی ہے۔۔۔۔محمد وقاص

ہم اپنی زندگیوں میں پیسے کا لین دین کرتے ہیں، یہ ہماری زندگی کا معمول ہے، جیسے ضرورت کے وقت ہم رشتہ داروں یا دوستوں سے کسی مقررہ مدت کے لئے پیسے قرض لے لیتے ہیں، جسے ہم ادھار کہتے ہیں – قرض لینے یا دینے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن معاملہ تب بگڑتا ہے جب ہم دونوں فریق ادھار لی اور دی ہوئی رقم اپنے پاس لکھتے نہیں ہیں – ہم عموماََ پیسے اسی سے ادھار لیتے ہیں جس سے ہماری اچھی خاصی جان پہچان ہوتی ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مقررہ مدت میں ہم رقم واپس لوٹا نہیں پاتے اور پھر قرض لی گئی اصل رقم بھول جاتے ہیں، قرض دینے والا مروتاً قرض کی واپسی کا تقاضا نہیں کرتا اور کبھی قرض لینے والا کسی غلط فہمی کی وجہ سے  اس شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ شاید فلاں فلاں وقت میں قرض کی مکمل رقم یا کچھ رقم واپس کر چکا ہے –

دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ہم قرض لیتے یا دیتے وقت ایک دوسرے کے سامنے رقم گنتے نہیں ہیں کہ اگلا شاید یہ سوچے گا کہ اسے مجھ پر بھروسا نہیں ہے – حالانکہ یہاں بات بھروسے کی ہے ہی نہیں، جو شخص آپکو اپنا پیسہ مشکل وقت میں استعمال کرنے کے لئے دے رہا ہے وہ کسی بھروسے پر ہی دے رہا ہے، اگر اسے یہ یقین ہو کہ آپ اسکی رقم کبھی نہیں لوٹائیں گے تو وہ آپکو کبھی قرض نہیں دے گا-

اب چونکہ مذکورہ بالا تمام صورتوں میں ہم صرف اپنی یادداشت کی بنیاد پر قرض لیتے ،دیتے وقت نہ ہی لکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی گواہ بناتے ہیں، اور پھر قرض کی رقم واپس نہ ملنے کی صورت میں تعلق توڑ بیٹھتے ہیں، یا پھر ایکدوسرے کے سامنے رقم نہ گننے والی مروت برت کر اپنے اپنے اذہان میں شکوک وشبہات کو گنجائش دینے کی راہ ہموار کرتے ہیں، قرض لوٹانے والا جب پیسے دیکر واپس چلا جاتا ہے تو بعد میں رقم گنتے ہیں، کچھ پیسے کم نکلے تو یا تو جھگڑا ہوتا ہے اور اگر خاموشی بھی اختیار کر لیں تو بدگمان ضرور ہو جاتے ہیں – ہم ان معاملات میں صرف اپنی یادداشت پہ بھروسا کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ اگر گھر سے بیوی آٹھ دس اشیاء کی لسٹ لکھ کر بھی ہمیں بازار سے لانے کے لئے کہے تو پھر بھی ہم ایک آدھ چیز بھول جاتے ہیں –

ہم ان معاملات میں بے احتیاطی اختیار کر کے ایک ایسا تعلق توڑ بیٹھتے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے ہمارے انتہائی مشکل وقت میں ہمیں کام آیا تھا –

بظاہر قرض لینے اور دینے والا انتہائی چھوٹا اور معمولی معاملہ ہے لیکن اللہ جو ہمارا خالق ہے وہی جانتا ہے کہ ہم ایسے معاملات میں کن مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں اسی وجہ سے یہ معاملہ جو ہماری نظروں میں بہت چھوٹا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے کتنے آسان الفاظ میں ہمیں سمجھایا ہے، تاکہ ہمیں زندگی گزارنے میں آسانی ہو – ملاحظہ کیجئے –

“اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، املا نہ کرا سکتا ہو، تواس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہیں  کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کے  تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ” – سورہ البقرہ آیت نمبر 282-

Advertisements
julia rana solicitors

اب خود فیصلہ کیجیے کہ کونسا طریقہ آسان ہے، اللہ تعالیٰ کا یا ہمارا؟
اگر ہم زیادہ نہیں کر سکتے تو اس چیز کی عادت ضرور بنائیں کہ قرض دیتے وقت اپنے سامنے قرض لینے والے کو پیسے گن کر ادا کریں اور اس سے بھی مطالبہ کریں کہ وہ آپکے سامنے ہی رقم گن لے – چند سو روپے یا چند ہزار روپوں کے لئے خوبصورت تعلقات مت گنوائیں – کیونکہ جو مروت آپ قرض لیتے دیتے وقت برت رہے ہیں بدگمانی کی صورت میں وہ مروت دونوں فریقین بھول کر ایک دوسرے کے دست وگریباں ہو جائیں گے –
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپکو قرآن پاک کے آسان ترین طریقوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے – آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply