• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ , سیاسی جماعتیں اور عوام کی روایتی سیاست سے بیزاری۔۔۔قمر عباس

گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ , سیاسی جماعتیں اور عوام کی روایتی سیاست سے بیزاری۔۔۔قمر عباس

گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ باقی چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر سے بالکل ہی مختلف ہے ۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسری وجہ عوام کا سیاسی نابالغ ہونا ہے اور اس کے ساتھ اور دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ۔۔۔ بہت سے لوگ اس بات کا انکار نہیں  کریں گے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں زیرک اور بڑے قابل سیاسی لیڈرز پیدا ہوتے رہے ہیں اور ان لوگوں نے عوام کی فلاح کے لئے جدوجہد کی اور پاکستان اور جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اپنا کردار ادا کیا ۔آپ لاکھ  بار  ان لوگوں سے سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ صوبہ پنجاب سے  نواز شریف ،شہباز شریف وغیرہ اور صوبہ سندھ سے ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر ، الطاف حسین ، زرداری وغیرہ اور صوبہ پختون خوا  سے باچا خان ، مفتی محمود , اسفند دیار ولی , فضل ارحمان ,عمران خان اور دیگر سیاسی قائدین شامل ہیں اور صوبہ بلوچستان سے بھی اکبر بگٹی و دیگر سیاسی قائدین شامل ہیں ۔ چاہے یہ لوگ صحیح ہوں یا غلط  لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد انھیں پسند کرتی ہے ۔ان سیاسی قائدین کا یہاں اس لئے نام لیا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی ان کو اپنا لیڈر مانتی ہے اور یہ بات تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن افسوس ! آج تک گلگت بلتستان میں کوئی  سیاسی لیڈر پیدا نہیں  ہوا جو عوام کی بات کریں اور پاکستان اور عوام کی خدمت کے لئے جدوجہد کی ہو یا اپنا کوئی  کردار ادا کیا ہوں؟۔۔اسی لئے آج گلگت بلتستان جن مسائل کا شکار ہےاس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے لوگ سیاسی نابالغ ہیں۔

گلگت بلتستان وہ واحد صوبہ  ہے جسے علاقے کی عوام نے بزور بازو  ڈوگرہ راج سے آزاد کروایا اور عوام نے پاکستانیت کا ثبوت دیتے ہوۓ بخوشی علاقے کو پاکستان کے ساتھ الحاق کروایا۔۔۔ اگر ہم گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائے تو پتہ چلتا ہے کہ گورنمنٹ آف پاکستان نے گلگت اور بلتستان کو 1947 سے لے کر 1970 تک اسے “ایجنسی” کا نام دیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کو “ناردن ایریاز کونسل” کو اسٹیبلش کیا جس کا انتظام ڈائریکٹ “فیڈرل گورنمنٹ” سے چلایا جاتا تھا اور اسے “FANA” کا نام دیا گیا۔ 1947 سے 1970 کے دوران جو واقعات رونما ہوۓ بہت سے باشعور لوگوں کی یہ راۓ ہے کہ عام عوام کو سیاسی معاملات کے بارے میں سرے سے ہی کچھ پتہ ہی نہیں  تھا اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اس وقت  کچھ زیادہ  پڑھیے لکھے نہیں  تھے اور زیادہ تر لوگ غربت کا شکار تھے اور ایک اہم بات” لوگ سیاسی نابالغ بھی تھے”۔ اسی لئے ہم سے کوہستان اور چترال (جو کہ تاریخی لحاظ سے گلگت بلتستان کے حصے ہیں )کی سائیڈ  کو بھی چھینا گیا اور یہ سب کچھ سیاسی لاشعوری کی وجہ سے ہوا۔

اب اگر آپ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کو 1970 کے بعد دیکھیں تو آپ کو واضح  تبدیلی  نظر آۓ گی ۔۔ 1974 کو جب FCR کا کالا قانون ختم کیا گیا تو پھر گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں بھی تبدیلی آئی  اور عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کے اس ا قدام کو خوب سراہا۔۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی عوام نے FCR کے قانون کے خلاف احتجاج کیا اور غزر کے علاقے میں 7 لوگ جاں بحق ہوۓ۔۔ اور پھر ہنزہ اور نگر میں بھی اس قانون کے خلاف لوگ سڑکوں پر آۓ۔۔ گلگت بلتستان میں سب سے پہلے قائد گلگت ایڈووکیٹ جوہر علی خان نے1950 کی  شروعات میں ایک نیشنلسٹ پارٹی ” ملت پارٹی” بنائی  اور سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا لیکن FCR کے قانون کی وجہ سے ان کی سیاسی تحریک کچھ زیادہ کامیاب نہیں  ہو سکی۔ پھر جب بھٹو نے قائد گلگت کے ساتھ وعدہ کیا کہ FCR کا قانون ختم کیا جاۓ گا تو “قائد گلگت” نے اپنی پارٹی کو ppp کے ساتھ جوڑ دیا  اور میری نظر میں یہی انکی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی  اور ان کی سیاست بھی اسی وقت دفن ہوگئی ۔۔ اور پھر بعد میں ppp کے پہلے صدر منتخب ہوۓ اور آج بھی ان کو گلگت بلتستان میں ppp کے founder members میں شمار کیا جاتا ہے۔۔۔

اب اس سے بھی آگے اگر ہم 1977 سے آگے جائیں تو زیادہ تر لوگوں کو پتہ ہے کہ ضیاالحق کا دور شروع ہوا اور آج بھی گلگت بلتستان کے زیادہ تر لوگ اس دور کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔۔۔ پھر 1990 کے بعد گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا دور بھی شروع ہوا جسے میں ” new modern political era” کا نام دوں گا۔۔ اور اسی دور میں 1994 کو سب سے پہلے جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوا۔۔ ۔ پھر آگے پرویز مشرف نے جمہوریت پر شب خون مارا اور اقتدارکو اپنے قبضے میں لیا اور گلگت بلتستان کے بعض لوگ اس اقدام کو سراہتے ہیں لیکن ان کو یہ نہیں  پتہ کہ

” a worst democracy ıs better than best military dictatorship” ۔۔۔۔

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے  کہ 1947 سے لے کر 2008 تک ناردن ایریاز کے عوام کی کوئی  شناخت نہیں  تھی اور عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا پھر ppp کی گورنمنٹ نے self governance order” کے تحت پہلی بار گلگت بلتستان کو براۓ نام پانچویں صوبے کا درجہ دیا اور اس صوبے کا نام “گلگت بلتستان ” رکھا۔۔۔ پھر جب مشرف کے ڈکٹیٹرشپ کے بعد آئین بحال ہوا تو ppp کے دور میں گلگت بلتستان میں 2009 میں الیکشن منعقد ہوۓ جس میں ppp کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی  اور پھر 2015 میں ن لیگ کے دور حکومت میں الیکشن کراۓ گئے  تو پھر ن لیگ نے ہی گلگت بلتستان میں حکومت سنبھالی۔۔۔

اگر ہم اس تمام سیاسی تاریخ اور سیاسی حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ آج تک گلگت بلتستان میں کوئی  عوام دوست “سیاسی لیڈر” پیدا ہی نہیں  ہوا جس کی اپنی سیاسی پارٹی ہو اور اپنا سیاسی نظریہ ہو؟؟؟؟ اس وقت گلگت بلتستان میں تین قسم کی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ایشو”آئینی حقوق” اور دیگر مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔۔

 1۔وفاقی سیاسی جماعتیں:- ان میں وہ پارٹیز بھی  شامل ہیں جو پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی  ہیں( مشلاً  ن لیگ , پی پی پی، پی ٹی آئی  وغیرہ)۔۔۔ باشعور لوگ اس بات کو جان گئے ہوں گے کہ یہ جماعتیں تب اقتدار میں آتی ہیں جب وفاق میں آلریڈی ان کی حکومت ہو  جیسے جب پی پی پی وفاق میں آئی  تو 2009 میں گلگت بلتستان میں الیکشن منعقد ہوۓ جس میں پی پی پی ہی بھاری اکثریت لے گئی  اسی  طرح جب ن لیگ وفاق میں آئی  تو 2015 میں گلگت بلتستان میں الیکشن منعقد ہوۓ جس میں ن لیگ ہی نے  بھاری اکثریت حاصل کی ۔۔ اب PTI کی وفاق میں گورنمنٹ ہے تو  پھر جب 2020 میں گلگت بلتستان  میں الیکشن ہوں گے تو حسب روایت یقیناً  پی ٹی آئی  ہی جیتے گی۔کسی کو کوئی  شک ہے تو 2020 تک انتظار کریں۔۔۔۔۔ اور یہ پارٹیاں عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی  ہیں اور یہ پارٹیاں عوام کا ساتھ دینے کے بجاۓ اپنے   پارٹی چیئر مین  کی  ہاں میں ہاں ملاتی ہیں تو پھر گلگت بلتستان کے عوام کی خدمت کیسے ہوئی ؟

 2۔مذہبی جماعتیں:- ان میں (جماعت اسلامی ,  جے یو آئی  وغیرہ شامل ہیں ) یہ تمام پارٹیز صرف مذہب کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں   اور ایسی پارٹیاں صرف کسی خاص مسلک کی ترجمانی کرتی ہیں  اور مسلکی بنیادوں پر ووٹ حاصل کرتی ہیں جو ریاست اور سیاست کے قوانین کے منافی ہے۔

 3۔نیشنلسٹ جماعتیں:- اس قسم کی پارٹیوں میں   بی این ایف  اور دوسری نیشنلسٹ جماعتیں شامل ہیں ) ۔ نیشنلسٹ جماعتوں کی بدقسمتی بھی  ہے کہ انٹیلی  جنس ادارے ان پر  را کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور زیادہ تر لوگ ان کے طرز سیاست سے ہی اختلاف کرتے ہیں اور بمشکل ان کی اسمبلی میں  ایک  ہی سیٹ ہے جو  بی این ایف  کے چیئرمین ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام میں نیشنلسٹ پارٹیزکی کوئی  خاص اہمیت نہیں  کیونکہ لوگ جانتے  ہیں کہ ان کا نظریہ ہی غلط ہے ورنہ عوام ان کو کب کا اقتدار سونپ دیتے؟

اسی لئے گلگت بلتستان کے عوام کو جان لینا چاہیے  کہ یہ ساری جماعتیں  ” آئینی حقوق” دلانے میں بری طرح ناکام ہوئی  ہیں جو کہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ایشو ہے اور باقی ایجوکیشن ، صحت ، تعلیم اور دیگر مسائل بھی وہیں  کے وہیں  ہیں۔۔۔ اور ساتھ ہی ساتھ پی پی پی اور ن لیگ کو عوام آزما بھی چکے ہیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس تمام سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے اب گلگت بلتستان کے بہت سے باشعور لوگوں کا یہ واضح موقف ہے کہ روایتی سیاست کو دفن کرنے کے لئے اب گلگت بلتستان میں ایک New Democratic political party ” کا قیام لازم ہے اور اس پارٹی کے وجود میں آنے سے گلگت بلتستان کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں  خصوصاً  یہ پارٹی “آئینی حقوق” کے لئے بھرپور جدوجہد کرے گی اور یہ پارٹی گلگت بلتستان اور پاکستان کے عوام کی صحیح ترجمانی کرے گی اور یہ new political leadership عوام گلگت بلتستان و پاکستان کی خدمت کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی ۔ اور یقیناً  ایک نئی پارٹی کے وجود میں آنے سے پاکستان کی جمہوریت مضبوط ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply