غلطی کی معافی ہے, گناہ کی نہیں/عثمان انجم زوجان

اللہ احد الصمد کا قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے؛

وَ لَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ فِيۡمَاۤ اَخۡطَاۡ تُمۡ بِهٖۙ وَلٰكِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ‌ ؕ ۞

(القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب – آیت نمبر 5)

ترجمہ:
اور تم سے جو خطا ( یعنی انجانے میں ایسا غلط کام جسے غلطی کہا جاتا ہے) ہو جائے تو تم پر (اس بارے میں) کوئی گرفت نہیں۔ لیکن وہ جو تمہارے قلب کے ارادے سے ہو ( اس پر گرفت ہے کیونکہ انجانے میں کی جانے والی غلطی کی معافی ہے نہ کہ گناہ کی)۔

اس سے ظاہر ہے کہ خَطَأٌ اس غلطی کو کہتے ہیں جو سہواً یعنی انجانے میں ہو جائے اور اس میں قلب کا ارادہ شامل نہ ہو۔ اسی قسم کی بلا عمد خطائیں تھیں جن کے متعلق حضرت ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ خدا انہیں ان کے مضر اثرات سے محفوظ رکھے گا۔

وَالَّذِىۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَ لِىۡ خَطِٓیْـئَـتِىۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِ ۞

(القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء – آیت نمبر 82)

ترجمہ:

اور وہ ذات جس سے میں طمع کرتا ہوں کہ نظام کے دن میری خطاؤں پر پردہ پوشی کرے گا۔

تصریحات بالا سے ظاہر ہے کہ خَطَأٌ اس غلطی کے لیے بھی آتا ہے جو سہواً ہو، اور اس کے لیے بھی جو بالا رادہ ہو۔ جو بالا رادہ ہو، وہ جرم و گناہ ہو گا اور اس کی معافی نہیں۔

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ
”نہ میں آسمان پہ آتا ہوں اور نہ زمیں پر بلکہ میں اپنے بندے کے قلب میں آتا ہوں ۔ ”

مسلمان کا قلب اللہ تعالی کا عرش ہے،جس میں اللہ تعالی اپنی محبت کو اتارتا ہے،لیکن ہمارا قلب؟

شیشے میں تھوڑا سا داغ پڑ جائے تو نوکر سے کہتے ہیں کہ شیشے کو صاف کرو،کپڑا میلا ہو جائے تو اتار کر پھینک دیتے ہیں کہ اس کو دھو کر صاف کرو،گھر میں گندگی نظر آجائے تو گھر والوں کی شامت کہ آج صفائی نہیں ہوئی،اور قلب اتنا گندہ کیا ہوا ہے کہ جیسے اس کی فکر ہی نہیں۔

اگر ہم اپنے لیے گندہ کپڑا / گندہ مکان پسند نہیں کرتے تو اللہ تعالی کے لیے گندہ قلب کیوں پسند کیا ہوا ہے، اپنے قلب کو بدلنا ہو گا۔

جب انسان کا قلب گناہ کے  اثرات سے ناپاک ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات سے قلب انسانی پر سیاہی چھا جاتی اور اس کا باطن تاریک ہوجاتا ہے۔

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’بے شک بندہ جب غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے، اگر وہ اس سے باز آجائے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کے دل کو صاف کردیا جاتا ہے ۔ اگر وہ اس غلطی کا بار بار ارتکاب کرے تو اس سیاہی میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس غلطی کا دوبارہ ارتکاب کرے تو یہ سیاہی اس کے پورے قلب پر چھاجاتی ہے۔‘‘

( ابن ماجه، السنن : 724، رقم : 4244، کتاب الزهد، باب ذکر الذنوب)

یہی وہ ’الران‘ زنگ لگنے کی کيفیت ہے جس کو قرآن میں اللہ  رب العزت نے یوں ذکر فرمایا :

کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَO

( المطففين، 83 : 14)

’’ہر گز نہیں بلکہ ان کے کسب کی بنا پر ان کے قلوب پر زنگ لگ گیا ہے۔‘‘

دین اسلام اس امر کا متقاضی ہے کہ باطن کی روحانی صفائی کا اہتمام کیا جائے تاکہ قلب انسانی معرفتِ الٰہی اورعشق الہی کے نور کا گہوارہ بن سکے۔ حدیث مبارکہ ہے

لکل شيئی صقالة وصقالةُ القلوب ذکر اللہ

’’ہرشے کو کوئی نہ کوئی چیز صاف کرنے والی ہوتی ہے اور دلوں کو صاف کرنے والا اللہ  کا ذکر ہے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

جب آپ سے انجانے میں غلطی ہو جائے اس کو مان لیں اور استغفار کریں تاکہ  آپ گناہ تک نہ پہنچ پائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply