ایچ بی ایل پی ایس ایل سیزن 9/محمد وقاص رشید

      کل رات پی HBL پی ایس ایل سیزن 9 کے معرکے کا فیصلہ کن میچ یعنی فائنل کھیلا گیا۔ بھئی جیسا فائنل ہونا چاہیے بالکل ویسا ہی تھا کہ جس کے دوران آخری گیند تک یہ فائنل نہ ہو کہ فائنلی کون جیتے گا۔ کیا شاہکار میچ تھا۔ سپر اوور ہونے سے بال بال بلکہ آخری بال ہی بچا۔

      بحرحال پاکستان سپر لیگ تھی سو ٹرافی دارلخلافہ ہی جانی تھی۔ جی ہاں اسلام آباد کے یونائیٹڈ ہونے نے ملتان سے سلطان بننے کا خواب تیسری بار چھین لیا اور سب سے زیادہ پوائنٹس والی ملتان سلطان آخری معرکے میں آخری بال پر ہار گئی۔

     ملتان سلطان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نسیم شاہ کی نو بال پر رضوان آؤٹ ہو گئے مگر اس چانس کو ایک بڑے سکور میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے۔ مشاہدے پر مبنی اپنی اس رائے کو میں دہراتا ہوں کہ رضوان کو ابھی خود کو بڑے میچ کا میچ ونر کھلاڑی ثابت کرنا ہے۔

      عثمان خان نامی سسٹم پر لگا سوالیہ نشان سب جان چکے۔ عمران طاہر کی طرح پاکستان میں موقع نہیں ملا دوسرے ممالک میں جا کر پرفارم کیا اور پھر پاکستان آئے پی ایس ایل کھیلنے۔ دو سینچریاں بنائیں اس پی ایس ایل میں ، مگر کل پچاس کرنے کے بعد ایک اہم موقع پر وکٹ دے بیٹھے۔ اس کے بعد بڑے میچ کا پریشر ، خیر خوشدل شاہ ماشاللہ چھوٹے میچ میں بھی ایسے ہی کھیلتے ہیں۔ باقی بلے باز بھی یکے بعد دیگرے آؤٹ ہوئے۔ کچھ کپتانی ناقابلِ فہم تھی جب ڈیوڈ ولی کو ون ڈاؤن اور اسامہ میر کو محض ٹلے مارنے کے لیے افتخار سے بھی اوپر بھیج دیا گیا۔ یہ ایک منفی حکمتِ عملی تھی۔ افتخار قومی کرکٹ ٹیم میں بطورِ مڈل آرڈر بلے باز کھیلتے ہیں۔ لیکن دو میچوں میں اس نے آخری اوورز میں باکمال بلے بازی کیا کی ٹیم مینجمنٹ نے فنشر بنا کیا دیا فنشر کا کردار ہی آخری دو اوورز تک محدود کر دیا جو کہ افتخار نے پھر بھی شاندار انداز میں نبھایا۔ یہ افتخار ہی تھے جنکے ان آخری دو اوورز میں کیے گئے تیس رنز کی بدولت فائنل ، فائنل بن گیا۔ وگرنہ ایک سو تیس تک نمٹ گئی تھی ملتان کی ٹیم۔ ایک اور بات یہ کہ حتی کہ نسیم شاہ بھی “افتی پریشر” کا شکار نظر آئے۔ کسی بیٹسمین کے لیے یہ بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ مخالف ٹیم کے پریمئیر  باؤلر پر آپکا دباؤ ہو جس نے تین اوورز میں آپکے ٹاپ آرڈر کے بڑے ناموں کے خلاف میڈن اوور تک کروایا ہو۔

   افتخار کے اس “دھوبی پٹکے” کی بدولت اسلام آباد 160 تلک پہنچا جو کہ فائنل کے پریشر کے لحاظ سے پندرہ سے بیس رنز کی کمی کے باوجود ایک اچھا سکور تھا۔

    اسلام آباد کا آغاز اچھا تو تھا لیکن منرو غیر ضروری تیزی کا شکار تھے اور کچھ اپنے گھٹنے کو لے کر رضوان والی اوور ایکٹنگ بھی کر رہے تھے۔ بھئی اگر آپ اتنے ان فٹ ہیں تو کھیل کیوں رہے ہیں اور اگر کھیل رہے ہیں تو ان فٹ ہونے کی اتنی اداکاری کیوں۔ بحرحال انکے بعد سلمان علی آغا بھی جلد چلتے بنے۔ سلمان علی آغا کو اپنی صلاحیت سے انصاف کرنے کے لیے شاٹ سلیکشن اور پریشر والی صورتحال میں گیم Awareness پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ سارے ٹورنامنٹ میں اچھی اننگز کھیلنے کے بعد بھی عجیب طریقوں سے آؤٹ ہوتے رہے۔

    اسکے بعد کپتان شاداب خان۔۔۔ہمیشہ سے مجھے حیرت شاداب خان کی بڑے میچوں میں شاٹ سلیکشن پر ہوتی ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں بھی کئی شاندار اننگز کھیلیں لیک۔ تینوں بڑے میچز میں جسطرح آؤٹ ہوئے وہ بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی کے لیے موزوں نہیں۔ خصوصا جب آپ نے خود کو کپتانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپ دی آرڈر پروموٹ کیا ہو۔ شاہین شاہ کا تو خیر اس ضمن میں “لیول ای اور ہے”۔

      اسلام آباد کی ٹیم میں دیر سے شامل ہونے والے عظیم کیوی بلے باز مارٹن گپٹل کے پچاس رنز اور ان پچاس رنز کی سب سے خاص بات کہ باؤلر آف دی ٹورنامنٹ اسامہ میر کو انکے پہلے ہی اوور میں بھرکس نکال کر مخالف ٹیم کی باؤلنگ سکیم کی جڑ اکھیڑ دی۔ اسامہ میر نے پورے ٹورنامنٹ میں وکٹ ٹیکنگ باؤلر بن کے مخالف ٹیم کو ناکوں چنے چبوائے۔ یہی وجہ تھی کہ ڈیتھ اوورز میں اسامہ پر انحصار کرتے رضوان کو گیم پلان بدلنا پڑا جو رنز کی کمی کی وجہ سے کارگر نہ ہو سکا۔ اعظم خان کے ساتھ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے کہ ایک تو انکے ساتھ رننگ بٹوین دی وکٹ بہتر نہ ہونے کی وجہ سے رنز نہیں بنتے صرف باؤنڈریز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا دوسرے بیٹسمین کے آؤ ٹ ہونے کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے اور وہی ہوا کہ گپٹل انتہائی حساس موقع پر رن آؤٹ ہو گئے ۔ اعظم کریز سے نکلے اور وہیں سے واپس اور گپٹل پویلین میں واپس۔

     اسکے بعد اعظم خان بھی تیس کر کے غلط موقع پر آؤٹ ہو گئے اور وہ بھی رضوان اور ٹیکنالوجی دونوں کو بلف کرنے کی بھونڈی سی کوشش کے بعد۔ پہلے رضوان سے کہا ایج نہیں ہوا پھر ریویو لینے پر تھرڈ امپائر کے فیصلے پر اعتراض کرنے لگے۔

      سیمی فائنل کے ہیرو حیدر علی ڈیوڈ ولی کی باہر جاتی گیند کا شکار ہوئے حیدر علی بھی ایک ایسا ٹیلنٹ ہے جو ہوتے ہوتے ضائع ہونے کو آگیا لیکن بس میچورٹی نہیں پکڑ سکا۔

     بحرحال اسکے بعد وہ جوڑی تھی جن میں سے ایک عماد وسیم کے بارے میں کیا کہا جائے کہ مسلسل تیسرے فیصلہ کن میچ کے مین آف دا میچ تھے۔  پی ایس فائنل کی تاریخ کا پہلا “پانجہ ” اچھا فائفر کہہ لیں لگانے کے بعد بیٹ کیری کر کے بھی ملتان کو “مانجہ” لگا دیا۔ اور نسیم شاہ نے تو افتخار کا ادھار ہی نہیں رکھا۔ سیکنڈ لاسٹ اوور ایسے کھیلا جیسے افتخار بے چارہ “افغانی” ہو۔ سمجھ تے گئے ہوسو۔

      علی نے سارے ٹورنامنٹ میں مجھے متاثر کیا لیکن آخری بال انکی سب سے بہترین بال ہونی چاہیے تھی۔ جب آپ کو پتا ہے کہ بیٹسمین نے ہٹ کرنی ہی نہیں تو سلور ون اچھا انتخاب نہیں تھا۔ بلاک ہول ہی ایک واحد آپشن تھی۔

      بہرحال کافی مدت بعد پورا ٹورنامنٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مثبت چیزوں کا ذکر کیا جائے تو سرِ فہرست یہ کہ پی ایس ایل ایک بہتر سے بہتر ہوتا پاکستانی برینڈ بنتا جا رہا ہے۔ اس میں ہمارے ہیروز جیسا سیگمنٹ قابلِ ستائش ہے۔ کئی نوجوان کرکٹرز کو موقع ملنا خوش آئند ہے۔ دو بہترین کمبی نیشن والی ٹیمز فائنل کھیلنا کرکٹنگ میرٹ کی علامت ہے۔ پاکستانی برینڈ بابر اعظم اپنے قدکاٹھ کے مطابق بلے باز نظر آئے۔ کیا وہ یہ والا اعتماد اسی سٹرائیک ریٹ اور شارٹس کی ورائٹی کے ساتھ انٹرنیشنل لیول پر لے کر جا سکتے ہیں ؟ ملین ڈالر کوئسچین ہے۔اوپنرز میں پاکستان کو صائم ایوب اور یاسر کی صورت اچھی آپشنز مل رہی ہیں۔

        منفی پہلوؤں کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے ناقص ترین فیلڈنگ خصوصاً کیچنگ رہی ہر میچ میں اوسطاً دو سے تین کیچز گرتے رہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ ہر کیچ چھوٹنے پر کھلاڑی ایک فاترالعقل قسم کا جشن سا برپا کر دیتے۔ ایک میچ میں تو خوشدل شاہ نے تین کیچز چھوڑے اور رضوان نے ہر بار قہقہے لگاتے باؤنڈری پر جاکر گلے لگایا۔ نئے کھلاڑیوں میں سے سوائے عثمان خان کے نمایاں بیٹنگ اور باؤلنگ میں نمایاں کارکردگی کے حامل صرف انٹرنیشنل ایکسپوژر والے کھلاڑیوں کا ہونا پاکستانی کرکٹ کے تھنک ٹینکس کے لیے لمحہِ فکریہ ہونا چاہیے۔ خصوصاً جب ہمسایہ ملک میں ہر آئی پی ایل میں سے کوئی نہ کوئی ابھر کر انکی قومی ٹیم کا حصہ بنتا ہے۔ اوپر سے ایک نیا ایٹیچیوڈ بھی حیران کن تھا۔ کہیں کھلاڑی کیچ پکڑ کر عبداللہ کی طرح منہ پر انگلی رکھ رہا ہے تو کہیں دس میچوں کے بعد پچاس کر کے عامر جمال اور شاہین شاہ آفریدی کی طرح ناقدین کو خاموش کروانے کا اشارہ دے رہا ہے۔ شاہین شاہ قومی ٹیم کے کپتان ہیں۔ انہیں یہ زیب نہیں دیتا۔ بڑا کھلاڑی تنقید کو خود پر حملہ نہیں سمجھتا۔ خصوصاً جب آپ نے خود کو اپ دی آرڈر محض کپتان ہونے کی وجہ سے پروموٹ کیا ہو۔ پیچھے باقاعدہ مڈل آرڈر بلے باز اور ڈیوڈ ویز جیسے آل راؤنڈر ہوں۔ کم ازکم دو میچوں میں یہ فیصلہ ٹیم کے گلے پڑا ہو اور آخر کار ٹیم کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے بعد آپ ایک میچ میں چل جائیں اور اسطرح کے اشارے کرنے لگیں۔ افسوسناک ہے۔

    بیٹنگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے نافع ہوں ، لاہور قلندرز کے فرحان ، ملتان سلطان کے یاسر ، پشاور زلمی کے حارث ہوں یا کراچی کنگز کے عرفان خان۔۔ ان سب کو اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے انصاف کرنا چاہیے۔

     باؤلنگ میں بھی اسی طرح اسلام آباد کے علی ہوں , ملتان کے فیصل اکرم ہوں (جنہیں مستقل موقع ملنا چاہیے)  ، پشاور کے مہران اور ارشاد اور ملتان کے عباس آفریدی ان سب کو خوداعتمادی کے ساتھ وہ معیار حاصل کرنا چاہیے جو انہیں انٹرنیشنل لیول پر لا سکے۔

     آل راؤنڈرز میں بھی کسی نوجوان کھلاڑی کی مستقل مزاجی کا نہ دکھنا تشویشناک ہے۔ عماد وسیم کی شاندار کارکردگی نے بابر گروپ کے محمد نواز کی پچھلے دو سال سے ٹیم میں بلاجواز شمولیت پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے۔ اسی طرح باؤلنگ میں محمد عامر کی دانش مندانہ باؤلنگ اور قومی ٹیم کے تینوں مین پیسرز شاہین ، وسیم اور حارث کی اوسط درجے کی کارکردگی بھی سوچنے کا مقام ہے۔ شاید شاہین نے اپنی گرتی ہوئی باؤلنگ کارکردگی ہی کی بدولت خود کو بیٹنگ میں اوپر کھلانا شروع کیا لیکن یہ منفی اپروچ ہے۔ انہیں اپنے بنیادی میدان کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ قومی ٹیم سے ڈراپ ہونے والے شاداب خان پی ایس ایل کے فاتح کپتان بن گئے۔ اچھی بات ہے لیکن وہی سوال کہ کیا اگر وہ ٹیم میں دوبارہ شامل ہوں تو ایک میچ ونر آل راؤنڈر بن سکتے ہیں لیکن وہی بات کہ اپنے بنیادی میدان لیگ سپن باؤلنگ میں بھرپور کارکردگی دکھا کر جو انکی موجودگی میں ورلڈکپ میں بالکل بے جان نظر آئی تھی۔

      کمنٹیٹرز کی بات کے بغیر تبصرہ و تجزیہ ادھورا رہتا۔ سب سے پہلے خواتین کی موجودگی اس پینل میں بہت خوش آئند ہے اور اسے صنفی توازن بخشتی ہے۔ زینب عباس ، عروج ممتاز اور ایرن ہالینڈ نے باکمال کام کیا۔  کرکٹنگ لیجنڈ رمیز راجہ ، ایک کریکٹر ڈینی موریسن ، باکمال ایان بشپ ، بہترین تکنیکی نکتہ چیں مائیکل کلارک ، ریورس سوئنگ کے بادشاہ گریٹ وقار یونس ، شاندار  مارک بچر، سٹائلش عامر سہیل ، خوبصورت بولنے والے مائک پیز مین ، اچھی کمینٹری کرتے بازید خان ، بہترین اردو کمینٹری کےطارق سعید اور با صلاحیت ایمبینگوا شامل تھے۔امپائرنگ کا معیار بھی بہترین رہا۔

      سو کل ملا کر میرا پی ایس ایل کا یہ مکمل تجزیہ تھا۔ آپ کے پاس اس سے اتفاق اور اختلاف دونوں کی یکساں گنجائش موجود ہے۔ کرکٹ ہمارے کلچر کا ایک حصہ ہے بلکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو کھیلوں کے ساتھ ساتھ دیگر تفریحات وغیرہ میں بھی قومی دلچسپی کی اکلوتی شے یہی بچی ہے۔ اور پی ایس ایل اس اکلوتی تفریح کا اکلوتا قومی سطح کا معرکہ۔ جسے شائقینِ کرکٹ نے اکثریتی ہاؤس فل مقابلوں سے چار چاند لگا دیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

      بس ایک بات جو آخر میں گوش گزار کرنی ہے کہ پی ایس ایل کے آغاز پر ایک بائیکاٹ مہم کی ہلکی پھلکی سرگوشیاں ہوتی رہیں۔ کے ایف سی پر اعتراض کی وجہ آپ جانتے ہیں۔ یہی کے ایف سی جہاں ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کے روزگار کا باعث ہے وہیں یہ ادارہ ہر چھکے کے ساتھ پاکستان مستحق طالبعلموں کو وظیفہ دے رہا تھا۔ یہ کسی ملک کی فوج کو کھانا دیتا ہے تو دوسرے ملک کے بچوں کو تعلیمی وظیفہ۔ دنیا میں جنگ معیشت کی ہے دوستو۔ معاشی علمی سماجی سائنسی و ٹیکنالوجیکل ترقی کے ذریعے مقابلہ واحد راستہ ہے۔ جو بائیکاٹ سے نہیں ہوتا ورک ہارڈ سے ہوتا ہے جو کرکٹ کے میدان سے زندگی کے ہر میدان تک واحد عملی راستہ ہے ۔ آئیں چلنا شروع کرتے ہیں۔ ایچ بی ایل پی ایس ایل سیزن 9 مبارک ہو۔ ملتے ہیں سیزن 10 میں۔ رہے نام خدا کا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply