جب ہمالیہ کی گود میں ہزاروں سال سے بوڑھی ہوتی برفوں سے من سرور کی کوکھ سے سندھو پھوٹا تھآ۔
تب سے انکے اجداد اس شیر دریا اور اسکے معاونین دریاؤں پر پنپتی تہذیب کے باسی تھے۔
وہ زرخیز زمینوں کے وسین ان کے میٹھے پاینوں سے اپنی کھیتاں سیراب کرتے۔
وہ خوشی کے نغمے گاتے۔
پھولے نہ سماتے۔
امن سے اپنے آپ میں مست رہتے۔
وہ اپنی حفاظت سے غافل تھے ۔
جسکی سزا انھیں ملنی تھی۔اور ملی بلکہ اب تک مل رہی ہے۔
اور اگر اپنی دھرتی پر اپنے آبا کی سرزمین پر اپنے لئے درپیش مسائل وخطرات،دستیاب موقعوں اور اپنی کمزوریوں،تواںائیوں کا انھیں ادارک نہ ہوا تو آئندہ بھی یہ سزا بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔
جو برفیں انھیں زندگی دیتی ۔
وہ شمال میں موت ویرانی اور افلاس بانٹتی ۔
یوں شمال سے خوشحال زندگی کی تلاش میں آنے والوں نے انھیں پامال کیا۔
پہلے بے شناخت کیا۔
پھر مذہب کے نام پر ذلت بھری شناخت سے نوازا۔
ہزاروں سال وہ ذلتیں سہتے رہے۔
روز جیتے اور روز مرتے رہے۔
غاصب بدلتے رہے۔
انکے نصیب نہ بدلے۔
پھر انکے دکھوں کا کچھہ مداوا ہوا، صوفیوں کا ان کی زمین پر بیسرا ہؤا۔
مختلف ادوار میں مختلف عیقددوں کی پناہوں میں آسانیاں نصیب ہونے لگیں
۔لیکن پھر بھی لاکھوں انھیں ذلتوں کے وار سہتے رہے۔
پھر ان میں سے کچھ کو جنوب سے آنے والے صوفیوں کی بدولت عالمگیریت سے جڑی اک شناخت ملی۔معاشرتی،معاشی شعور ملا۔
عزت سےجینے کے کچھہ اسبابِ ہؤے۔
تاریخ نے ایک اور پلٹا کھایا۔
ان جنوب سے آنے والے صوفیوں کو جانا پڑا۔اور انکی فکری،شعوری ، تعلیمی ،معاشی، معاشرتی،علمی ترقی کے لئے بنائے گئے ادارے ہزاروں سال سے ذلتیں سہتے،ان بدنصیبوں کے ہاتھ آئے۔
جنکی استعداد نہ تھی۔ہزاروں سال کی غلامانہ ذہنیت ان کی نس نس میں سرائیت کر چکی تھی۔
یوں حاکم اور محکوم کی اک نئی شکل ان خاک نشینوں کا اجتماعی شعور وفکر ٹھہری۔
یہ حاکم و محکوم فکر کا ملغوبہ ۔۔۔انھی صوفیوں کے پیچھے بھاگا۔
کوئی دور دیسوں سے معجزوں کی لوریاں لے آیا۔
کسی کے ہاتھ سماجی بھلائی اور شعور کا نغمہء لگا۔
کوئی حقوق کے خواب لے آیا۔
لیکن یہ نعمتیں انکے کے لئے سراب ہی رہی۔
سراب دکھانے والے ان خاک نشینوں اور نعمتوں کے درمیان اپنے قلعوں کی اونچی فیصلیں کھڑی کرتے رہے۔
وہ ان اونچی فیصلوں کو مسلسل چمکدار اور سپاٹ بناتے رہے۔
ان دیواروں کے پارسے محسور کن نغمے اور لوریارں سنائی دیتی رہتی۔
لکین جب بھی کوئی ان سے متاثر ہو کر دیوانہ وار ان دیواروں کے آسرے کھڑا ہونے کی کوشش کرتا وہ پھسل کر گر پڑتا۔
لیکن جب ان کے اندر سے یا دیوار کے اس پار سے کوئی آواز لگاتا۔
“تمہارے جسموں کے سائے ہی تمھارے پاؤں ڈھانپے گے۔”
باہر نکلو ان نشہ آور لوریوں اور پرفریب نغموں کی محسور کن دھنوں سے۔
جب وہ دیکھتے آواز کہاں سے آتی ہے۔
تو ان کے ارد گرد سنہری اونچی دیواروں سے پھوٹنے والی روشنی انکی آنکھوں کو چکا چوند کر دیتی۔
اور انھیں صرف دیواروں پر اپنے حوصلوں کے لاشے ٹنگے نظر آتے۔
اور یوں وہ اپنے جسموں کے سائے اپنے پاؤں سے ڈھانپنے کو بھی سراب سمجھنے لگتے۔
اور پھر ان لوریوں اور نغموں کو ہی اپنا مقدر سمجھ کر ان پر دیوانہ وار رقص کرنے لگتے۔
تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں کتابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں