پڑھے لکھے خواجہ سرا ملک چھوڑنے پر مجبور/ثاقب لقمان قریشی

میرے قلم اٹھانے کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ اور سربلندی ہے۔ میری خواہش ہے کہ سرزمین پاک میں بسنے والی ہندو، کرسچن، سکھ اور دیگر اقلیتی کمیونیٹیز کو عبادات کی اتنی ہی آزادی حاصل ہو جتنی کہ ہم مسلمانوں کو ہے۔ اقلیتی برادری کو کاروبار، روزگار اور زندگی کے دیگر امور میں وہی سہولیات اور آزادی حاصل ہو جن سے ہم استفادہ کر رہے ہیں۔ سرکاری نوکریوں، کاروباری مراکز حتٰی کہ تمام معاشی سرگرمیوں میں خواتین کا پچاس فیصد حصہ دیکھنا میری خواہش ہے۔ انسان اور انسانیت کی خدمت کیلئے میں نے ملک میں بسنے والے اپنے جیسے معذور افراد کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کی کوشش کی۔ ملک کے چاروں صوبوں میں بسنے والے جسمانی معذور، نابینا اور سماعت سے محروم افراد کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ لکھتے ہوئے ابھی سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ مجھے اپنے سے ذیادہ مظلوم کمیونٹی نظر آئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وطن عزیز میں انسانی حقوق سے جڑے مسائل پر بات ہی نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے محروم طبقات ایک طرف جائز انسانی حقوق سے محروم رہے تو دوسری طرف ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکے۔

خواتین، اقلیتیں، معذور افراد اور خواجہ سراء ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد سے کچھ کم حصہ ہیں اور انکا کردار ملک کی ترقی میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کیلئے میں نے پہلے معذور افراد کے مسائل کو پڑھنے کی کوشش کی۔ جب اپنے آپ کو اس قابل سمجھا کہ میں ان مسائل پر لکھ سکتا ہوں تو باقاعدگی سے لکھنا شروع کر دیا۔ صرف ایک سال کے مختصرعرصے میں، میں اتنی آگہی عام کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جتنی کہ ملک کی تمام این-جی-اوز ہماری پوری تاریخ میں نہ کرسکیں۔

معذور افراد پر کامیاب تجربے کہ بعد میرا ایمان اس بات پر پختہ ہوگیا کہ قلم کی طاقت آج کے جدید دور میں بھی اتنی ہی کارگر ہے جتنی کہ ماضی میں تھی۔ قلم کو ہتھیار بناتے ہوئے میں نے اس کے ذریعے اپنا دوسرا حملہ خواجہ سراؤں کے حقوق پر کر دیا۔ کچھ نیا نہیں کیا۔ ان کے مسائل کو پڑھا۔ خواجہ سراؤں کے غیر متحرک گروپس میں گھسا اور انکے مسائل پر بحث چھیڑ دی۔ اس وقت خواجہ سراء اپنی اور اپنے کام کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کرتے تھے۔ یہ جو تصاویر مجھ سے شیئر کرتے میں انھیں اپنی وال اور خواجہ سراؤں کے گروپس میں شیئر کر دیتا۔ جب لائکس اور کمنٹس آنا شروع ہوئے تو خواجہ سراؤں نے یہی سرگرمیاں اپنی وال پر شروع کر دیں۔ ساتھ ہی میں نے خواجہ سراؤں کے انٹرویوز کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس کے بعد آگہی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

2021-22 میں ایک معاصر ویبسائٹ پر  میرے   ساٹھ بلاگز تحریر ہوئے۔ جن میں سے زیادہ تر خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل پر تھے۔ اسی دوران مجھے سینئر کالمسٹ بشرا نواز نے مکالمہ کے بارے میں بتایا۔ جب پتہ چلا کہ مکالمہ کی ایڈیٹر خاتون ہیں  تو ہمیں بے حد خوشی ہوئی۔ کام کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ مکالمہ اور میں بڑی تیزی سے خواجہ سراؤں کی آگہی پر کام کر رہے تھے۔ پھر اچانک سینیٹر مشتاق صاحب نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل پر سیاست چمکانے کیلئے اسے ہم جنس پرستی قرار دے دیا اور ہماری ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔

نفرت کے بدترین دور میں مکالمہ کی ٹیم میرے ساتھ کھڑی رہی۔ میں ہر دوسرے چوتھے روز خواجہ سراؤں کے دفاع میں بلاگ لکھ دیتا۔ میری دیکھا دیکھی بہت سے کالم نویس خواجہ سراؤں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ جس سے انھیں بھر پور سپورٹ ملی۔

عائشہ مغل کا شمار ملک کی اعلیٰ تعلیم تافتہ خواجہ سراؤں میں ہوتا ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی میں جاب کرتی رہیں۔ منسٹری آف ہیومن راٹس میں کنسلٹنٹ کے طور پر فرائض سرانجام دیتی رہی ہیں۔ 2020 میں پنک میگزین نے عائشہ مغل کو دنیا کی 28 کامیاب ترین خواجہ سراؤں کی لسٹ میں شامل کیا۔ عائشہ اقوام متحدہ کی مختلف تنظیموں کے ساتھ بھی کام کرچکی ہیں۔ 2020 میں سی-ای-اے-ڈبلیو کے اجلاس کی قومی ٹیم کا بھی حصہ رہی ہیں۔

چند روز قبل میری ملک کی پہلی خواجہ سراء ایڈوکیٹ نشاء راؤ سے بات ہورہی تھی۔ جس میں نشاء نے انکشاف کیا عائشہ بیرون ملک مقیم ہوچکی ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انھوں نے عائشہ کے بارے میں اوریا مقبول جان کی پھیلائی نفرت کا ذکر کیا۔

ملک کے اعلیٰ  تعلیم یافتہ خواجہ سراؤں کی لسٹ میں جنت علی کا نام بھی آتا ہے۔ جنت نے ایم-بی-اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ کلاسیکل ڈانس سیکھا۔ جنت ہیرو ایشیاء سمیت بہت سے ایوارڈز اپنے نام کر چکی ہیں۔ جنت علی کو بہت سی کامیابیوں کے باوجود حکومت کی طرف سے سراہا نہیں گیا۔ جس کی وجہ سے یہ بیرون ملک مقیم ہوچکی ہیں۔

صارم عمران جنھیں صارو عمران بھی کہا جاتا ہے۔ وطن عزیز کی پہلی خواجہ سراء ہیں جو لندن کی ایک یونیورسٹی سے پی-ایچ-ڈی کر رہی ہیں۔ نشاء راؤ نے ہمیں بتایا کہ صارو بھی حالات سے بہت مایوس ہیں اور واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

نشاء اس وقت ایم-فل کا  تھیسز کر رہی ہیں۔ ایم-فل کے بعد لندن سے بیرسٹر بننے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ نشاء کہتی ہیں کہ اگر انھیں لندن میں نوکری مل گئی تو ملک واپس نہیں آئیں گی۔
نشاء نے ہمیں بتایا کہ ملک کے تمام پڑھے لکھے خواجہ سراء پاکستان چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہاں نہ تو انکے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے اور نہ ہی آگے بڑھنے کے مواقعے ہیں۔
وطن عزیز میں خواجہ سراؤں کی دو قسم کی لیڈر شپ پائی جاتی ہے۔ پہلے وہ جو ناخواندہ ہیں۔ دوسرے وہ جنھوں نے تعلیم حاصل کی اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ اگر اعلٰی تعلیم یافتہ خواجہ سراء اسی طرح ملک چھوڑ کر جاتے رہے۔ تو ایک طرف تو ملک کے روشن خیال چہرے کو شدید نقصان پہنچے گا تو دوسری طرف خواجہ سراء کمیونٹی نئی لیڈر شپ سے محروم ہو جائے گی۔ جس کے بعد یہ محروم ترین کمیونٹی بھیک مانگتی، فنکشنوں میں ناچتی اور سیکس ورک کرتی نظر آئے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اعلیٰ تعلیم یافتہ خواجہ سراؤں کا ملک چھوڑ کر جانا کوئی نیک شگن نہیں۔ حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس حوالے سے موثر اقدامات کرنے ہونگے۔ اگر تمام پڑھے لکھے خواجہ سراء ملک کو خیر آباد کہہ گئے تو کمیونٹی میں ایسا خلا پیدا ہوگا جو شائد کبھی پر نہ ہوسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply