سیاسی معاشرہ اور ریاست /ڈاکٹر مختیار ملغانی

سیاسی سماج اور ریاست دو مختلف بلکہ متضاد تصورات ہیں، ان کی عمومی تشریح اس مادی حد سے آگے نہیں بڑھ پاتی جو ماڈرنزم کے بعد طے پائی ، حالانکہ ان تصورات کا غیر مادی پہلو کہیں اہم اور ضروری ہے۔
ریاست کی عملی تصویر شاید تین صدیاں قبل ہی نمودار ہوئی، اس کا مضبوط ترین ہتھیار بیوروکریسی ہے جس کی مدد سے ریاست کو چلایا جاتا ہے۔
یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ قدیم سلطنتوں جیسے مصر، یونان، بابل یا پھر روم وغیرہ کو ریاست کہا جائے، یہ سیاسی معاشرے تھے نہ کہ ریاست، سیاسی معاشرے میں اقتدار کی باگ ڈور کسی سول ادارے کے پاس ہے یا وردی میں ملبوس شخص تخت پہ بیٹھا ہے، یہ بحث ثانوی ہے۔
سیاسی معاشرے سے مراد وہ معاشرہ ہرگز نہیں جہاں فرد کی پوری توجہ دو وقت کی روٹی پر ہو یا پھر اجتماعی دستر خوان کیلئے انگریزی محاورے کے مطابق ،جنگلی بھینسے کو پکڑنا، ہی اصل مقصد ہو۔ ایسے سماج کو شکارگاہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، جونہی شکار ناپید ہوا، سماج سقوط کی طرف بڑھتا جائے گا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کئی جانور اپنی شکارگاہوں اور چراگاہوں کے اجڑنے سے مٹتے چلے جا رہے ہیں ۔
سیاسی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس کا مرکزی وصف اقتدار ہے، اور اقتدار پہ چلتا ہوا معاشرہ ہر قسم کے ماحولیاتی یا حیاتیاتی حادثات کے باوجود اپنی بقا برقرار رکھتا ہے کیونکہ اقتدار اپنی اصل میں غیر نامیاتی اور قدرے ماورائے فطرت چیز ہے۔
اصل سوال ہی یہی ہے کہ اقتدار کیا ہے؟
اقتدار کی تعریف کئی حوالوں سے کی جا سکتی ہے، عمرانیات ، نفسیات ، سیاسیات اور فلسفے کی اپنی اپنی تعریفیں ہیں جو کہیں سمجھ آتی ہیں تو کہیں دماغ کے اوپر سے گزر جاتی ہیں، وہ اس لئے کہ اقتدار کی تعریف میں اس کا مابعدالطبیعیاتی عنصر نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
سادہ الفاظ میں اقتدار کا مطلب ، وجود (being) کو ایک ایسا مادی جسم دینا ہے جسے عام انسانی ذہن سمجھ، دیکھ اور پرکھ سکے، یوں سمجھ لیجئے کہ ” حقیقت منتظر” کو لباس مجاز دینا ہے۔ وجود و ہستی کی حقیقت کو اس مقام تک نیچے لانا ہے کہ انسانی ذہن پہ یہ آشکار ہو سکے ۔
اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے
فرض کیجئے کہ کسی بہت بڑے بند کمرے میں انسان موجود ہیں، ہر طرف گھپ اندھیرا ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ کون ہے، کیا ہے اور کہاں ہے؟
کمرے کی چھت پر ایک گول سا سوراخ ہے جہاں سے سورج کی کرن داخل ہوتے ہوئے کمرے کے عین وسط میں اجالا کر رہی ہے، اب جو اس اجالے میں جا کھڑا ہوا، وہ موجود ہے، جو وہاں تک نہیں پہنچ رہا اس کا وجود گویا کہ ہونے کے باوجود نہیں ہے، روشنی کے اس نکتے تک پہنچنے کی جدوجہد ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ، اور اس نکتے تک پہنچے گا وہی جو وجود کی معروضی حقیقت کا علمبردار ہے، اور وہ جو انسانی توہم یا من گھڑت تصورات پہ زندہ ہے اس کا اس روشنی تک پہنچنا ممکن نہیں۔ اصل اقتدار وہی ہے جو وجود کی حقیقی علامت کے طور پر روشنی کے اس نکتے پہ کھڑا ہے ۔ یہ اقتدار کبھی فراعین مصر کے وجود میں سرایت کر جاتا ہے تو کبھی قیصر روم کی صورت سامنے آتا ہے۔ عوام الناس قیصر یا فرعون کو گاہے خدا یا خدا کے قریب سمجھتے تھے، اس لئے نہیں کہ وہ ان سے خوفزدہ تھے بلکہ اس لئے کہ ان کے روپ میں وہ وجود کا عکس دیکھتے تھے، اور سیاست کا عمل یہاں یہ ہے کہ جس طرح فرعون یا قیصر عوام پہ حق رکھتا تھا، عوام بھی اسی طرح اپنی آواز، ناراضگی، عدم اعتماد، اپنے جزبات ان تک پہنچا سکتی تھی، یہ دو طرفہ عمل ہے۔
جہاں اقتدار being ہے، وہیں سیاست ہیگل کے الفاظ میں روح جہانی ہے جو اس being کو اوپر سے نیچے ایک جسم کی مانند ملا رہی ہے۔
یہاں بھی کوئی غلط فہمی نہیں رہنی چاہئے کہ اقتدار کس لباس میں ملبوس ہے، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ عوام نے اسے اکثریت سے منتخب بھی کیا ہے، یہ باتیں اہم ضرور ہیں لیکن حرفِ آخر نہیں ۔
اصل چیز یہ ہے کہ عوام الناس اس اقتدار کے گرد خود کو مضبوط، آزاد اور محفوظ محسوس کرتے ہیں اور وہ اس لئے کہ روشنی کا یہ نکتہ انہیں خود آشکاری کا لطف دیتا ہے۔
یہاں نیپولین بوناپارٹ کی مثال دی جا سکتی ہے، وہ نہ شاہی خاندان سے تھے، نہ کبھی منتخب ہوئے، بس وہ قدم بڑھا کر روشنی کی اس کرن کے نیچے جا کھڑے ہوئے اور فرانسیسی عوام ان کے گرد جمع ہوتی چلی گئی، ان کے جھنڈے پہ شہد کی مکھیوں کا نشان اسی لئے ہے کہ شہد کا دارومدار سورج کی روشنی پر ہے اور روشنی اقتدار کی جدوجہد کیلئے ناگزیر ہے کہ وجود کو انسانوں پہ آشکار کیا جا سکے ۔
سیاسی معاشرہ گویا اقتدار کے فلسفے پہ کھڑا ہے، یعنی فرد کا وجود کے ساتھ عام انسانی سطح پہ تعلق ہی حقیقی اقتدار ہے ، جبکہ ریاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ کنٹرول ہے، مکمل کنٹرول ، یہاں اقتدار اور کنٹرول ایک دوسرے کے متضاد کھڑے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کا مقصد وجود کی وجودیت کو ڈھانپنا ہے، اس کیلئے سب سے پہلے اس بند کمرے کی چھت پہ روشنی والے سوراخ کو بیوروکریسی کے ” ڈھکن ” سے بند کیا جاتا ہے، تاکہ وجود کا کوئی عکس بھی کسی تک نہ پہنچے، اسی طرح سیاست یعنی ہیگل والی روح جہانی کا پتا کاٹا جاتا ہے کہ سماج کی اوپری اور نچلی تہہ کا آپس میں کوئی امتزاج ممکن نہ ہو سکے ۔
بیورو کریسی کے پاس دو ایسے ہتھیار ہیں جو کسی بھی سماج کو اپاہج کرنے کیلئے کافی ہیں، پہلا ہتھیار ہے، دستخط، اور دوسرا ہے پروسیجر۔
بڑے صاحب کے دستخط کے بغیر آپ اس ریاست کے نظام میں سانس بھی نہیں لے سکتے، دستخط حاصل کرنے کیلئے پہلے ڈاکومنٹس کی ایک طویل فہرست تیار کروائی جاتی ہے، جس میں آپ کا وقت، انرجی اور پیسہ ضائع ہوتا ہے، اور ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ آپ ایک ہی دفعہ میں پوری فائل درست اکٹھی کر لیں، کسی صوبائی دارالحکومت میں جا کے فائل جمع کرواتے وقت پتہ چلتا ہے کہ اس میں بیسیوں کمیاں ہیں جنہیں پورا کرتے کرتے مزید کئی مہینوں کا وقت، توانائیاں اور پیسہ ضائع ہوجاتا ہے، فائل کے اب درست مکمل ہو جانے کے بعد دستخط کیلئے سنتری سے منتری تک کی خوشامد، منت، سفارش لازم چاہئے ہوگی، دستخط کے بعد جو پروسیجر یعنی اجراء شروع ہوگا، وہ آپ کی زندگی کے مزید کئی مہینے یا سال نگل سکتا ہے۔
بیوروکریسی کیلیئے نہایت ضروری ہے کہ ان کے اوپر کوئی ” بڑے بھائی” ہر حال میں موجود ہو، یہ بڑا بھائی گویا کہ ان کا ہیڈ کوارٹر ہوتا ہے جس پہ تکیہ کئے بغیر بیوروکریسی کا چلنا محال ہے، اگر بڑا بھائی ملک کے اندر میسر نہ ہوتو یہ بیوروکریسی اس کو ملک کے باہر ڈھونڈنے میں بھی تردد محسوس نہ کرے گی، سوویت یونین کی مثال سامنے ہے، جب تک سٹالین زندہ تھے وہ بڑے بھائی کا کردار نبھاتے رہے، ان کی موت کے بعد یہ پوزیشن خالی رہی، کیونکہ بعض اس قابل نہ تھے اور بعض کنٹرول کی بجائے اقتدار کو ترجیح دیتے تھے، نتیجے میں بیوروکریسی نے یونین کے باہر بڑے سٹیشن کو اپنا بڑا بھائی بنا لیا، جب یونین کا سقوط ہوا تو پتہ چلا کہ آدھے سے زیادہ بیوروکریٹس دشمن ممالک کے جاسوس ہیں ۔
یہ بات قدرے کرخت معلوم ہوگی لیکن واقعہ یہ ہے کہ بیوروکریسی کی بھاری اکثریت شعوری یا لاشعوری طور پر code of honor سے منحرف ہوتی ہے، کیونکہ بیوروکریسی کا بیڑا اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتا کہ جب تک فرد اپنی نرم انسانی فطرت سے تھوڑا بائیں طرف جھکتے ہوتے ” غیر انسانی جابر فطرت ” پہ نہ آجائے، بعض اچھے افراد بلاشبہ موجود ہوتے ہیں جو ضابطۂ اخلاق سے منحرف تو نہیں ہوتے لیکن پھر بھی وہ زیادہ سے زیادہ بس اس چرواہے کی مانند ہو سکتے ہیں جس کی بھلائی اسی میں ہے کہ بکریوں کو ان کی حد تک ہی رکھا جائے۔
ادارے کسی بھی ملک کیلئے ٹولز کا کام دیتے ہیں کہ ان کی مدد سے عام آدمی تک اس کا حق پہنچایا جا سکے اور سماج میں ان بدعنوانیوں و دیگر جرائم کو روکا جا سکے جو شہری کیلئے مصیبت کا باعث ہیں، لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب ملک میں حقیقی اقتدار نافذ ہو، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ ادارے ریاست کے مذموم مقاصد کی حفاظت کرتے ہیں ، ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کا ادارہ ایک بدترین مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، اگرچہ عدالتوں کے مسخرے پن کا اپنا ایک علیحدہ مقام ہے۔
سیاسی معاشرہ کیوں ریاست بن جاتا ہے اور ریاست کب سیاسی معاشرے میں بدل جاتی ہے، اس کا انحصار اقدار اور قابلیت پر ہے، معروف لطیفہ ہے کہ جب کوئی شخص خود اداکار نہیں بن پاتا تو وہ ڈائیریکٹر یا پروڈیوسر بن جاتا ہے کہ اب وہ ان سب اداکاروں کو ہانکے گا، ایسے ہی اگر کوئی شخص خواہش کے باوجود اچھا بزنس مین نہیں بن سکا تو وہ انکم ٹیکس یا ایسے کسی چھاپہ مار ادارے میں بھرتی ہوگا تاکہ سارے تاجروں پہ اپنا رعب جھاڑ سکے۔
ریاست جب اپنی ضد پہ اڑی رہے کہ وجود کے آشکار ہونے کو وہ ہر حال میں روکے گی تو ایسے میں سول سوسائٹی کہیں کچھ جدوجہد کرتی نظر آتی ہے، لیکن یہ جدوجہد عموما اس جنگلی بھینسے کے شکار سے زیادہ ثابت نہیں ہوتی جس کی مدد سے دستر خوان تو وسیع کیا جا سکتا ہے لیکن روشنی کے گزرنے میں رکاوٹ ڈالنے والے ڈھکن کو چھت سے نہیں ہٹایا جا سکتا، کیونکہ سول سوسائٹی کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ اپنے کاروبار میں ریاست کی مداخلت کو کم سے کم کر سکے ، ان کی یہ جدوجہد سیاست کا ایک باطل عکس تو دکھا سکتی ہے لیکن حقیقی سیاست کو نافذ نہیں کر سکتی۔
آپ دنیا کے نقشے پہ نظر دوڑائیے، متحدہ عرب امارات اب باقاعدہ ایک سیاسی معاشرہ بن چکا ہے، سعودی عرب اسی راہ پہ گامزن ہے، بے شمار مغربی ممالک پوری طرح سیاسی سماج ہیں جہاں فرد وجود کی معروضی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے، خود آشکاری کا لطف لے سکتا ہے، اس کے برعکس ایران ریاست ہے، پاکستان ریاست ہے، اور بھی کئی بے شمار ممالک ہیں جو سیاسی معاشرہ نہیں بلکہ ریاست ہیں، ان سب ممالک میں تخت پہ بیٹھا شخص کس لباس میں ہے، یہ بات اہمیت نہیں رکھتی، اہم چیز یہ ہے کہ عوام اقتدار کی روشنی چاہتے ہیں، نہ کہ ریاست کا کنٹرول، اگرچہ اس سے انکار ممکن نہیں اقتدار کی بجائے ریاست پر اصرار کرنے والوں کی اکثریت ایک خاص ڈکٹیٹر مائنڈ کی حامل ہوتی ہے جو عموماً شاہی خاندانوں یا عسکری اداروں میں پایا جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply