مذہب کی تعلیمات اور حقوقِ نسواں/ڈاکٹر عرفان خان

حقوق نسواں، فیمنزم اور نسائیت پر مبنی دلفریب اور دلکش تحریکوں کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اس کی چند وجوہات اور نتائج سامنے آتے ہیں:

مغربی اقوام کا مقابلہ اس مذہب سے تھا جو ناقابل عمل ، بوسیدہ اور مکمل طور پر تبدیل شدہ تھا اور واقعی اس تحریف شدہ مذہب نے ان اقوام کا جینا حرام کردیا تھا کیونکہ وہ خدائی مذہب کے بجائے مذہبی پیشواؤں کی چاہتوں اور خواہشات کا تختہ مشق بن چکا تھا اس لیے انہوں نے اپنے مذہبی متون کے ناقدانہ تجزیہ پر کمر کسنا شروع کر دی کہ آج تک ہمیں جو کچھ بتایا گیا یہ خدا کا بتایا ہوا نہیں بلکہ پدرانہ معاشرے  کی کارستانیاں ہیں، یعنی مردوں نے خدائی مذہب کی اس طرح تشریح کی ہے جو اِن کے حقوق کے حصول کا باعث تو ہو لیکن عورتوں کے حقوق کا اس میں کہیں ذکر نہ ہو، ان کو ہمیشہ مردوں کی ماتحتی کے اینگل سے دیکھا جائے اور ان کو یہی باور کرایا جائے کہ تمہاری پیدائش محض مردوں کی خدمت اور ان کے بچوں کی پرورش کے لیے کی گئی ہے اور بس.

اب اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں دو انتہاؤں نے جنم لیا، ایک انتہا تو وہی أحبار اور رہبان کا کلچر جس نے سابقہ مذاہب کو بوسیدہ اور ناقابلِ عمل بنایا، وہی کلچر ہمارے ہاں بھی جنم لینا شروع ہوا، قرآن و سنت کے متون کی طرح دیگر مذہبی لٹریچر کو بھی نصوص شریعیہ کا درجہ دیا جانے لگا، نہ ماننے والے پر دین بیزار، اکابر کا گستاخ اور سلف کے راستہ سے روگردانی کا لیبل لگایا جانے لگا، اور اسلام جیسے جامع ، سادہ اور عام فہم مذہب کو بھی ایک ایسے خول میں بند کر دیا گیا کہ آج کی دنیا جب ان جیسے مذہبی پیشوا سے دین سیکھتی ہے تو اسلام کو بھی دقیانوسی اور ناقابلِ عمل تعلیمات پر مبنی مذہب سمجھتی ہے۔

دوسری انتہا جدت پسند، اسلام سے ناآشنا اور مغرب سے مرعوب طبقہ کی جانب سے سامنے آئی کہ وہ مغربی اقوام کے تمام مذہب مخالف بیانات کو اسلام جیسے قابل عمل ، زندہ  جاوید اور محفوظ خدائی مذہب پر لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے(محدود سوچ کے مالک مذہبی پیشوا ) اور دوسری وجہ مغرب کی اندھی تقلید ہے کہ جیسے وہ مذہب کو انسان کی صرف ذاتی زندگی (آج کل تو ذاتی زندگی کے لیے بھی ضروری نہیں سمجھتا) تک محدود سمجھتے ہیں ہمارے لکیر کے فقیر دانش ور بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تمام مذاہب  چاہے اسلام ہی کیوں نہ ہو، اس جدید دنیا میں بالکل بےکار ہیں، حالانکہ اندھی تقلید کے بجائے اگر اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو یقیناً سابقہ ادیان اور اسلام کے مابین مشرق و مغرب تک کا فرق پائیں گے۔

پس اسلامی معاشرے کی  ان دو انتہاؤں پر جانے والوں کو سمجھنا ہو گا کہ ہم کہاں کیا غلطی کر رہے ہیں، مغرب کی اندھی تقلید میں آٹھ مارچ کو ہونے والا آپ کا اجتماع محض حیا سوز بینرز کی عکاسی نہ کر رہا ہو بلکہ اس میں ایسے حقوق کا ذکر ہو جو واقعی عورت کی آزادی اور ترقی کے ضامن ہوں۔

خاص کر مذہبی طبقہ کو تو ضرور بدلنا ہو گا کہ اسلامی تعلیمات کی ترویج انہی کی ذمہ داری ہے، لہذا قرآن و سنت کو اپنے درجہ اور دیگر متون کو اپنے درجہ پر رکھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ جدید مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں از سر نو جائزہ لیں، اگرچہ فقہائے کرام کی جانب سے ذکر ہونے والا متن اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح أحبار و رہبان کا کلچر ختم کریں، اختلاف رائے برداشت کریں اور اپنے آپ کو شارع بنا کر پیش کرنے کی روش ختم کریں، تاکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات معاشرے کے سامنے آ سکیں، جو نہ صرف یہ کہ اسلام کی ترویج کا باعث ہوں بلکہ آپ کے وقار کی بھی ضامن ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply