رمضان نشریات اور ہمارے نجی چینلز/آغر ندیم سحرؔ

جوں جوں رمضان کا مہینہ نزدیک آ رہا ہے ٹی وی اور سٹیج کے معروف چہرے اسلامی باتیں کرنا شروع ہو گئے ہیں یعنی وہ اداکار، گلوکار اور فنکار جو پورا سال ہمیں اپنے اداکاری، گلوکاری اور ڈانس سے لطف اندوز کرتے ہیں وہ رمضان میں ہمیں اسلامی رسومات و عبادات کی تلقین کرتے نظر آئیں گے۔

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پوری دنیا میں کوئی بھی ایسا علم آپ کو نظر نہیں آئے گا جس کے ساتھ ایسا ظلم کیا گیا جیسا اسلام کے ساتھ پاکستان میں کیا گیا۔ آپ کو آج تک میڈیکل ڈاکٹر شعرو ادب پر بات کرتا نظر نہیں آئے گا۔ آپ نے کبھی فزکس کے آدمی کو بائیولوجی پڑھاتے نہیں دیکھا، آپ نے کبھی ایک منجھے ہوئے اداکار کو سائنس پر بات کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔

کبھی کسی بزنس مین نے کیمیا کے اصول نہیں بتائے مگر اسلام واحد علم ہے کہ آپ کو پاکستان میں ہر دوسرا شخص اس پر بلا خودف و خطر بات کرتا نظر آئے گا۔ کوئی تانگے والا ہے یا کوئی ریڑھی والا، کوئی گلوکار ہے یا کوئی فنکار، کوئی سیاست دان ہے یا کوئی فلاسفر، وہ سب آ پ کو اسلام پڑھاتے اور اسلام سکھاتے نظر آئیں گے۔ یعنی اس ملک میں اسلام کے علاوہ آپ کو کسی بھی علم پر بات کرنے کے لیے ڈگری کی ضرورت ہے مگر اسلام واحد علم ہے کہ جس پر گلوکاروں اور فنکاروں سمیت سب بات کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان انہیں واعظوں نے پہنچایا جن کے پاس نہ تو کوئی ڈگری ہوتی ہے اور نہ ہی مطالعہ۔ یہ لوگ رمضان کے قریب اپنے چند پسندیدہ علماء کی تقریریں سنتے ہیں، ان کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ٹی وی چینلوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ اداکار پورا سال اداکاری کے جوہر دکھاتے ہیں، گلوکار پورا سال نئے البمز کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں، رقاصہ ہر نئے دن اپنے رقص کو جدید بنانے میں ہمہ تن مصروف ہوتی ہیں، اینکرز پورا سال سیاست اور خدمت کے نام حکمرانوں کو لڑاتے ہیں مگر رمضان کے مہینے میں اداکاری کرنے والی خواتین نہ صرف اپنے سروں کو ڈھانپ لیتی ہیں بلکہ کئی اداکاریں تو برقعہ تک پہن لیتی ہیں، یہی کام فنکار اور گلوکار کرتے ہیں۔

جس اداکارہ کی ایک سال میں فلم ہٹ ہوتی ہے اگلے سال وہ رمضان نشریات کر رہی ہوتی ہے، جو خاتون مارننگ شو میں کھانا اچھا بنا لیتی ہے یا میک آپ اچھا کر لیتی ہے اگلے دن وہ بھی کسی نہ کسی چینل پر سر ڈھانپے نماز اور روزے کی تلقین کر رہی ہوتی ہے۔ جو اداکارہ سوسائٹی میں سب سے زیادہ “رومانٹک گرل”سمجھی جاتی ہے اگلے سال وہ حیا پر درس دے رہی ہوتی ہے۔ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی کہ بلکہ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ رمضان کے نام پر چلائی جانے والی نشریات میں جو بے ہودگی اور کمینگی دکھائی جاتی ہے اس کی مثال شاید ہی کسی ملک میں ملتی ہو۔

آپ کسی دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اسلامی وعظ کرنے والے نام نہاد علماء اور مقررین کی فہرست نکال کر دیکھ لیں، آپ کو نوے فیصد بغیر ڈگری کے نظر آئیں گے، باقی دس فیصد بھی کسی نہ کسی خاص مسلک سے جڑے نظر آئیں گے، ان کا مکمل وعظ اپنے مسلک کے گرد گھومے گا۔ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان ان علماء سے ہوا جنہوں نے اسلام کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مساجد کو حکومتی سرپرستی میں چلنا چاہیے، تمام مساجد میں بیانات کی فہرست بھی حکومت جاری کرے اور کسی بھی عالم کو کسی خاص فرقے پر بات کرنے کی بالکل اجازت نہ دی جائے تو ایسے میں ہو سکتا ہے کہ اس ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہو سکے۔

گزستہ رمضان میں چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ٹی وی پر چلنے والی رمضان نشریات میں کسی قسم کی بے ہودگی نہیں چلے گی۔ چیف جسٹس اس بات کا بھی از خود نوٹس لیں کہ کوئی بھی فنکار، اداکار اور گلوکار کسی بھی ٹی وی چینل پر کوئی مذہبی پروگرام نہیں کرے گا۔ رمضان نشریات میں صرف ان علماء کا وعظ رکھا جائے جو اپنے ذاتی نظریات تھوپنے کی بجائے اسلام کا حقیقی چہرہ دکھائیں اور اسلام کے حقیقی نظریات اور عبادات کی بات کریں۔ جو اپنی جماعت اور اپنے فرقے کو فروغ دینے کی بجائے پیغمبرِ اسلامﷺ کی تعلیمات اور فرمودات کی بات کریں۔

میں کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ ہم نے اسلام کے معاملے میں کتنی کوتاہی برتی، ہم اپنے سب سے ذہین بچے کو ڈاکٹر، انجینئر، بینکر اور اکانومسٹ بنانے کا سوچتے ہیں اور سب سے کمزور بچہ جو کسی علم میں کامیاب نہیں ہو پاتا یا جو بچہ اپایج اور معذور ہوتا ہے اس کے بارے میں ساری فیملی مشترکہ فیصلہ کرتی ہے کہ اسے مدرسے میں داخل کروا دیں، یہ حفظ کرے، یہ عالم بنے اور کسی جامع مسجد کا خطیب بن کر پوری زندگی گزار دے۔ آپ ایمان داری سے سوچیں ہم نے کبھی اپنے سب سے ذہین بچے کے بارے میں سوچا کہ وہ عربی یا اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کرے، یا وہ آٹھ سالہ عالم کا کورس کرے، کبھی نہیں سوچا ہوگا۔

ہم اپنی قوم کے کمزور ذہن، اپاہج بچے اور معذور جنریشن کو مدرسوں اور مساجد میں بھیجتے ہیں جس سے ان بچوں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ بیٹا آپ دنیاوی علم نہیں سیکھ سکتے کیوں کہ آپ اپاہج ہیں، کیوں کہ آپ معذور ہیں لہٰذا آپ عالم بنیں گے، آپ مولوی بن کر دنیا کو اسلام کی تبلیغ کریں گے۔ میرا تعلق چونکہ ایک کٹڑ مذہبی علاقے سے ہے لہٰذا میں ایسی سینکڑوں مثالیں دے سکتا ہوں جہاں نابینا بچے صرف مدرسے جا سکتے ہیں، جہاں کسی بھی حوالے سے معذور بچے کالجوں، یونیورسٹیوں اور بڑی جامعات سے دور کر دیے جاتے ہیں۔

یقین کریں ہم جس دن یہ فیصلہ کر لیں گے کہ ہماری قوم کے بڑے ذہن اسلام سیکھیں گے اور اسلام سکھائیں گے، ہماری قوم کے سب سے ذہین بچے قرآن و حدیث کا علم سیکھیں گے، ہماری قوم کے سب سے اہم علماء اسلام کو روزی روٹی کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے اسلام کا پرچار اپنے فرضِ عین سمجھیں گے، اس دن اسلام بھی غالب آ جائے گا اور اسلام فرقہ پرستی سے بھی پاک ہو جائے گا۔

میں جناب چیف جسٹس کا مشکور ہوں کہ انہوں نے رمضان ٹرانسمیشن کی جانب توجہ دی۔ بس محترم چیف جسٹس اب تمام چینلوں پر چلنی والی صبح کی اسلامی نشریات، اسلامی تقاریر جن پر کسی خاص مسلک کی مہر ہوتی ہے، مذہبی پروگرامز کے جن کے میزبان اداکار، گلوکار یا فنکار ہیں، مساجد میں دیے جانے والے جمعہ کے خطبات، مختلف مکتبہ ہائے فکرکے جلسوں، کانفرنسوں اور کنونشنز کا جائزہ لیں اور حکم کریں کہ اسلام کو اسلام ہی سمجھا جائے، اسے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر نہ تو اس میں تبادلے کیے جائیں اور نہ اضافے کرکے اسلام کو اپنے مطابق بنایا جائے بلکہ خود کو اصل اسلام کے مطابق ڈھالا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس طرح سے شاید اسلامی انقلاب کا وہ خواب پورا ہو جس کے لیے نبی کریمﷺ اور اصحابہ کرامؓ نے ناقابلِ فراموش قربانیاں دیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply