میپل فیملی کی “PRAISE”/محمد وقاص رشید

انگریزی میں کہتے ہیں ” A   man  is  known  by  the company  he  keeps “۔ اسکا اردو میں مطلب “آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے “۔ ایک اور مقولے کے مطابق Avoid bad company یعنی بری صحبت سے بچو۔ دیکھا جائے تو ان دونوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ انسان کو اچھی محفل اور صحبت اختیار کرنی چاہیے۔
مگر اسکا ایک مطلب اور بھی ہے۔ جو “company” کا ترجمہ اردو میں نہ کرنے سے نکلتا ہے یعنی company کا مطلب کمپنی ہی ہو۔ جی ہاں وہی کمپنی جس میں ہم ملازمت کرتے ہیں۔ آدمی اپنی کمپنی سے پہچانا جاتا ہے اور بری کمپنی میں کام کرنے سے بچو۔ یہی مطلب بنا ناں ؟
لیکن یہ مقولہ ہے ملازم یا Employee کی نظر سے۔ اسی کو اگر آجر یعنی کمپنی کے تناظر سے بیان کیا جائے تو یہ مقولہ اسطرح بھی بن سکتا ہے کہ A Company is” /known by the way it keeps it’s men / women. “یعنی ایک کمپنی جانی جاتی ہے اپنے ملازموں کے ساتھ رکھے جانے والے برتاؤ سے۔ اور دوسری بات یہ کہ Avoid being a bad company یعنی ایک بری کمپنی بننے سے بچیے۔ ویسے یہ بات اردو ترجمے پر بھی صادق آتی ہے کہ بری صحبت بننے سے بچنا چاہیے یعنی وہ کام نہ کیے جائیں کہ آپ بری صحبت کہلائیں اور آپ سے بچاؤ اختیار کرنا پڑے۔
اس تمہید سے یہ تو واضح ہوا کہ اردو اور انگریزی کی کمپنی میں اطلاقی ہی سہی فرق بحرحال موجود ہے۔ اب راقم اگر لکھے کہ وہ میپل لیف سیمنٹ صحبت میں کام کرتا ہے تو آپکا تو “ہاسا ” نکل جائے گا۔ چلیں اسی بہانے ہنس بھی لیجیے کہ اس سماج میں یہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
لیکن یہ لفظ کی رائج معنویت کا فرق ہے اپنے اثرات کے لحاظ سے مشترک امر یہ ہے کہ آپکی زندگی پر صحبت اور کمپنی ایک سا اثر ڈالتی ہے۔
معیشت دنیا کی سب بڑی حقیقت ہے۔ انسانی حیات اپنے مدار میں معیشت ہی کے سورج کے گرد گھومتی ہے۔ فرد سے لے کر ملت تک معاشی حالت ہی معیارِ زندگی کو متعین کرتی ہے۔ معیشت کا ایک مضبوط ترین ستون تجارت ہے تجارت کی عمارت حکومتی اور پرائیویٹ تجارتی اداروں پر کھڑی ہوتی ہے جنہیں اپنی اپنی قانونی اور تجارتی ہئیت و ساخت کے لحاظ سے organizations , corporation entrepreneur یا firms کا نام دیا جاتا ہے۔ دراصل یہ تمام وہی کمپنیز ہی ہیں۔
وقت انسان کا سب سے بڑا سرمایہ اور اثاثہ ہے۔ کہ یہ بادشاہ سے گداگر تک متعین ہے “نہ ایک لمحہ آگے نہ ایک لحظہ پیچھے “۔ اگر اوپر گردش کی بات ہو ہی گئی تو چلیں معاشی نظام شمسی مکمل کیے دیتے ہیں۔ معیشت کے سورج کو وہ کمپنی تصور کیجیے جس میں ہم کام کرتے ہیں۔ زمین کی طرح ہم بھی اس کے گرد ایک پورا چکر چوبیس گھنٹے میں مکمل کرتے ہیں۔ جس میں زیادہ تر وقت کام کے دن میں صرف ہوتا ہے پھر آرام کی شام ہوتی ہے ( شادی شدہ لوگ گھر جا کر بھی ملازمت ہی کرتے ہیں اس لیے انکا نظامِ شمسی مولوی صاحب والا ہے یعنی انکی زمین جامد و ساقط ہے )۔ ہم گھر جاتے ہیں نیند بھی دراصل دوبارہ سے ملازمت کے لیے خود کو تیار کرنے کے لیے تازہ دم ہونا ہے۔
ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ ملازمت پیشہ لوگ اپنے دن کے کم ازکم آٹھ گھنٹے اپنی کمپنی کو دیتے ہیں۔ اپنے اپنے گھر واپسی کے سفر کے لحاظ سے شام ڈھلے گھر پہنچتے ہیں اوسطاً چار سے پانچ گھنٹے خاندان کے ساتھ گزار کر ایک عارضی عدم کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جسے ایک روز مستقل ہو جانا ہے۔ سو ہمارا بھی اس محور کے گرد چکر چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس مدار کا پورا چکر ایک مہینے کا ہوتا ہے جب یکم کو تنخواہ ملتی ہے اور اپنے اس کرے کے گرد خود ہماری گردش سال پر محیط ہوتی جب ہماری Increment لگتی ہے کہ مہنگائی کے بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ میں کچھ بہتر طور پر گردش کر سکیں۔
حساب سے ہم کمپنی کو اپنے خاندان سے زیادہ وقت دیتے ہیں۔ تو خاندان پھر کمپنی ہوئی ناں۔ اور یہ جاننا مشکل نہیں کہ ایک اچھا اور کامیاب خاندان کیا ہوتا ہے۔
راقم کی نگاہ میں کسی بھی تعلق چاہے انسانی ہو یا مادی ، سماجی ہو یا معاشی ، خونی ہو یا روحانی اسکی تعریف یہ ہے کہ اسکے بارے سوچ کر ذہن میں تاثر کیا بنتا ہے تشخص کیسا ابھرتا ہے۔
ایک کامیاب خاندان کی علامات یہ ہیں کہ اس کے افراد کے آپسی رابطے میں خلل Communication Gap نہ ہو ، یہ خلا اعتبار کے فقدان Trust Deficit میں ڈھل جاتا ہے۔ سب کے درمیان گھر سے گھرانے تک ملکیتی احساس موجود ہو۔ انکے انفرادی عقائد جو بھی ہوں شخصی پسند ناپسند وغیرہ مگر اجتماعی منزل ایک ہو۔ انکے مفادات یکساں ہوں۔ ان میں حقوق و فرائض کے درمیان توازن ہو۔ حفظِ مراتب کا ضرورخیال رکھا جائے مگر عزتِ نفس کا معیار مرتبہ نہ ہو۔ ایک دوسرے کا احساس یکساں طور پر قائم ہو۔ برتنے کی چیزیں ہوں نہ ہوں دکھ سکھ بحرحال سانجھے ہوں۔ اور ذاتی زندگی کے مشاہدہ سے ایک جملہ لے لیجیے کہ “بے قدری تعلق کی دیمک ہوتی ہے”۔
سو اس ذاتی مشاہدے کو خوش گوار حیرت تب ہوئی جب جس خاندان یعنی MapleFamily کا میں حصہ ہوں وہاں اس قدردانی کے لیے “PRAISE ” نامی ایک پالیسی کا اجراء ہوا۔ ہماری HR مینیجمینٹ کی طرف سے ہم AEs & JO کا ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا تاکہ معلومات کی ترسیل ہم تک براہِ راست بھی ہو۔ یہ ایک بہت ہی خوش کن تبدیلی ہے۔ اس قدردانی کی قدردانی کی جانی چاہیے۔
اس PRAISE پالیسی میں بنیادی طور پر آٹھ کارڈز ہیں جس میں انسانی شخصیت و کردار سے متعلقہ ایک خوبی درج ہے۔ ہر ملازم متعلقہ خوبی کے لحاظ سے کوئی سے تین پرمننٹ ایمپلائیز کو منتخب کر سکتا ہے۔ اور اسکی خاص بات یہ ہے کہ اسے ایک مثبت عمل بنانے کے لیے معلومات کو خفیہ رکھا جائے گا صرف ہمارے ممدوح کو یہ پتا چل جائے گا کہ ہم اس کے بارے میں یہ احساسات رکھتے ہیں۔
پچھلے ایک چوتھائی صدی میں راقم الحروف بجلی ، تیل اور گیس کی کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں عارضی اور سیمنٹ سے متعلقہ دو کمپنیوں میں مستقل ملازمت کر چکا۔ کیسی اچنبھے کی بات ہے کہ باہر سے یہ کمپنیاں آکر پاکستان میں اپنا نظام رائج کرتی ہیں جس میں انسانی فلاح و بہبود مرکزی حیثیت رکھتی ہے جنہیں اپنے ملک کی کمپنیوں میں کام کرنے والے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اوریسکام مصر اور لفارج فرانس میں بیتی ایک دہائی پر تو ایک کتاب لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر نہ زمین کی گردش ختم ہوتی ہے نہ مزدور کی۔
سو PRAISE جیسی حوصلہ افزاء پہل کاری initiative کی Praise نہ کرنا بخل ہے اور ہم مزدور ہاتھ کے تنگ ہو سکتے ہیں دل کے نہیں۔ پاکستان میں سب کمپنیز کو کام کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں۔ لیکن پہلے اپنے ورکرز کو اپنا خاندان سمجھنا اشد ضروری ہے۔ جیسے MapleFamily۔۔MLCF کو مبارکباد۔ دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply